آرمی چیف کا دورہ افغانستان


پاکستان ایک طویل عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ کسی صورت افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغانستان کا امن نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ ایک بہت بڑے خطے کے لئے نہایت ضروری ہے لیکن بد قسمتی سے ایک طویل عرصے سے افغانستان بد امنی کا شکار نظر آ رہا ہے اور اگر سچ پوچھا جائے تو مستقبل قریب میں بہت پائیدار امن کے کوئی آثار دور دور تک بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

افغانستان میں اگر امن قائم ہو جائے تو روس سمیت بہت ساری ریا ستوں سے زمینی راستے بحال ہوجانے کی صورت میں ایک جانب تو آزادانہ تجارت کا بہت بڑے پیمانے پر آ غاز ہو جائے گا اور دوسری جانب پاکستان کی شمال مشرقی سرحدیں پر امن ہونے کی صورت میں ایسے بہت سارے دفاعی و اضافی اخراجات میں جو حالات پر نظر رکھنے کے لئے کرنے پڑتے ہیں، کافی حد تک کمی آ جائے گی۔ افغانستان نہ صرف پاکستان کا پڑوسی ملک ہے بلکہ برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے بھی پاکستان بہر صورت افغانستان میں امن چاہتا ہے اور ان ہی معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا دورہ افغانستان بہت اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔

بد قسمتی سے افغانستان ایک جانب تو سرکاری سطح پر ”دو“ حکومتی تصور میں بری طرح گھرا ہوا ہے تو ایک تیسری قوت بھی اپنی مضبوطی کا نہ صرف لوہا منوا چکی ہے بلکہ اپنے موجود ہونے کا احساس وقتاً فوقتاً نہایت بے رحمی کے ساتھ دلاتی بھی رہتی ہے۔ طالبان افغانستان کی ایک مستند قوت ہیں جو سرکاری طور پر تو اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے لیکن ایک موثر دہشت ہونے کی وجہ سے امریکا جیسا ملک بھی ان کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہے اور ان کی بہت ساری شرائط خود بھی ماننا چاہتا ہے اور افغانستان کی سرکار پر بھی دباؤ ڈالتا رہتا ہے کہ وہ طالبان کی شرائط کو تسلیم کرے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے دورے کے دوران جہاں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی وہیں افغان ہائی پیس کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دیرپا امن سے متعلق اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ واضح رہے کہ 2 روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی جس میں خطے کی سیکورٹی پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اگر زلمے خلیل زاد کی ملاقات کو پیش نظر رکھا جائے تو آرمی چیف کا یہ دورہ امریکا کے کسی (امن) پیغام کو افغان سرکار تک پہنچانا جیسا ہی لگتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امریکا افغانستان میں امن قائم کرنے کی از خود کوئی پیش رفت کرتا ہے تو کبھی یہ بات نہیں دیکھی گئی کہ اس نے افغانستان میں طالبان کی قوت کو نظر انداز کیا ہو بلکہ اکثر اوقات وہ افغان ”سرکاروں“ کو بالکل ایک جانب رکھ کر بھی افغان طالبان کو فوقیت دیتا ہوا محسوس ہوا ہے اور کئی معاملات میں افغان سرکار کو غیر مشروط طریقے سے طالبان کے مطالبات کو مان لینے پر بھی دباؤ ڈالتا رہا ہے لیکن جب جب پاکستان کو بیچ میں ڈال کر کسی قسم کی پیغام رسانی یا مطلب براری چاہی ہے، پاکستان کو افغان ”سرکاروں“ سے آگے تک کی رسائی کبھی نہیں دی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات ہمیشہ ملکوں اور ملکوں کے درمیان ہی ہوا کرتے ہیں لیکن جب امریکا خود کسی تیسری قوت کو قوت تسلیم کرتا ہو تو کیا پاکستان اس قوت کو بالکل ہی نظر انداز کرکے امن کی بات چیت کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس پر پاکستان کی حکومت اور مقتدر قوتوں کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ ضرور غور کرنا چاہیے۔

جب یہ بات طے ہے کہ امریکا پاکستان کے تعاون کے بغیر نہ تو افغانستان میں پائیدار امن قائم کر سکتا ہے اور نہ ہی امریکا پاکستان کے تعاون کے بغیر محفوظ طریقے سے افغان سر زمین چھوڑنے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اہمیت کو سمجھے اور محض ”پیامی“ کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ فیصلے اپنی جانب سے بھی کرے۔ جب حالات اتنے گمبھیر ہوں کہ امریکا جیسی قوت بھی طالبان کی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو تو پاکستان کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے اور طالبان کی قوت کو نظر انداز کیے بغیر کسی معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

پاکستان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ افغان طالبان میں ہزاروں ایسے متحارب گروہ کے افراد جن کے خلاف پاکستان اپنے ملک میں سخت ترین کارروائیاں کرتا رہا ہے، لازماً شامل ہوں گے ۔ ایسی صورت میں اگر افغان کی کٹھ پتلی حکومتیں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں تو افغانستان پر چھاجانے والے افغان طالبان کا دباؤ پاکستان پر آ سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات میں افغان طالبان کو کسی قیمت پر بھی نظر انداز نہ کیا جائے اور ہر معاملے میں ان کے موقف کو بہر صورت سنا اور سمجھا جائے تاکہ مستقبل میں پاکستان کسی مشکل میں پڑ جانے سے بچ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments