گرد میں لپٹی کتابیں اور ہوسٹل کا کمرہ


جامعہ نعیمیہ میں یہ میرا تعلیمی آخری سال تھا۔ ستمبر 2012 میں میٹرک کا امتحان مناسب نمبروں کے ساتھ پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے مجھ سے میرے مستقبل کے بارے میں سوال کیا کہ کیا مجھے لاہور پڑھنے کے لئے بھیج دیا جائے؟ ”جی، جہاں آپ بھیجیں گے میں پڑھوں گا“ میں نے جواب دیا۔

ابا مجھے لاہور لے آئے، یہ بات نا انھیں ٹھیک سے معلوم تھی کہ وہ مجھے کہاں داخل کروائیں گے اور نا میں نے ایسا سوال کرنے کی جسارت کی، لاہور میں مقیم ایک قریبی رشتہ دار تھے جن کے ہاتھ میں اب میری پتنگ کی ڈور تھی۔ خیر ہم لاہور پہنچے، معلوم ہوا کہ پہلے تو شریعہ کالج ماڈل ٹاؤن میں داخل کروانے کا ارادہ تھا لیکن اب گڑھی شاہو میں ایک نئے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے وہاں داخلہ کروانا ہو گا اور جو جناب اس معاملے میں معاونت کریں گے وہ اگلے دن صبح آئیں گے اور ساتھ لے کر جائیں گے۔ اگلے دن آنے والے شخص سے ابا کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے سب سمجھایا اور چل دیے۔ پھر ابا جان مجھے رکشے میں لے کر دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کے باہر پہنچے۔

میرے لیے یہ سب عجیب تھا، کیونکہ مجھے مدارس کے بارے میں کچھ خبر نا تھی، لیکن یہاں تک آنے کے بعد انکار ناممکن تھا۔ خیر داخلہ ہوا اور ایک شخص نے ہمیں کلاس کی طرف جانے میں رہنمائی کی اور کلاس میں ایک طالب علم نے ابا جان کو کتابوں کے نام لکھ کر دیے، جو کہ سب مجھے عجیب معلوم ہوئے اور مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرا داخلہ درس نظامی کے آٹھ سالہ کورس میں ہوا ہے اور باقی باتیں وقت کے ساتھ ساتھ مجھے معلوم ہوتی گئیں۔ مجھے ابا جان کلاس میں چھوڑ کر چلے گئے اور شام کو اپنے ساتھ ایک بستر اور کچھ کتابیں لائے، جو مجھے دے کر واپس راولپنڈی لوٹ آئے۔

آغاز میں میرے لیے سب عجیب تھا، وہ تمام کتابیں جن کے بارے میں نے کبھی سنا نا تھا اور جن کا سبق میں بغیر سمجھے بس سنانے کے لیے یاد کرتا تھا۔ اور میرے لیے اگلے آٹھ سال ایک جگہ گزارنا۔ ۔ ۔ ایک طویل سفر کی مانند تھا، بہت طویل سفر۔

لیکن وقت گزرتا گیا اور کتابوں سے شناسائی ہوتی گئی۔ تیسرے سال میں مجھے دو ہفتے کا خرچ پانچ سو ملتا تھا، جن میں سے تقریباً 200 میں ہر دو ہفتے میں بچا لیتا اور ان پیسوں سے کبھی ایک اور کبھی دو کتابیں خرید لیتا، یوں میں نے کتابیں اکٹھی کرنا شروع کر دیں اور بعض اوقات انھیں پڑھنے میں کافی دلچسپی سے مگن رہتا۔ کمرے میں موجود باقی دوست بھی کتابیں خریدنے کے کافی شوقین تھے، میں انھیں بعض اوقات ایسی کتابیں خریدنے کی ترغیب دلاتا جن کا خریدنا میرے بس میں نا ہوتا اور جب وہ خرید لیتے تو مجھے بھی وہ کتابیں پڑھنے کا موقع مل جاتا۔

پھر میں نے اپنے حلقہ احباب میں ایسے افراد کا اضافہ کیا جنھیں کتاب بینی کا شوق کا، جہاں میں ان سے کتابیں پڑھنے کے لیے ادھار لیتا، وہیں اپنی کتابیں بھی ضرورت پڑھنے پر کسی کو دے دیتا۔ یوں میں کبھی کبھار رقم جمع کرتا اور اتوار کو انار کلی بازار کے باہر لگے کتابوں کے اتوار بازار سے سستے داموں اچھی اچھی کتابیں بھی خرید لاتا۔

2020 میرا جامعہ میں آخری طالب علمی سال تھا۔ اس سال میرا آٹھویں سال کا امتحان ہونا تھا۔ یوں آٹھ سال کا طویل سفر یادوں کی ایک گٹھری اٹھائے شخص، جو سفر کے آغاز پہ ہی تھک جائے، کے ساتھ ختم ہونا تھا مگر امتحان سے دو ہفتے قبل حکومتی احکامات اور وبا کے پیش نظر ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تمام طلباء گھروں کو روانہ ہو گئے۔ اور میں اپنے بیگ میں کپڑوں کے چند سوٹ اور کچھ کتابیں لیے گھر روانہ ہو گیا۔

جون کے آغاز میں جامعہ نے طلباء کو جہاں گزشتہ سال کی کارکردگی کی بناء پر کامیاب قرار دیا وہیں نئے سال کے داخلے اور آن لائن تعلیم کے آغاز کا بھی فیصلہ کیا۔ اور مجھے بھی ان دنوں واپس لاہور لوٹنا پڑا۔ میں ریل کے پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد جب ہوسٹل پہنچا اور بیگ سے کمرے کی چابی نکالنے کے بعد جب میں نے ہوسٹل کا کمرہ کھولا تو میرے نظر گرد سے لپٹی ان کتابوں پہ پڑی جنھیں پچھلے تین ماہ سے کسی نے نہیں چھوا تھا۔

دیوان غالب، آفتاب داغ، سبز بستیوں کے غزال، وکرم اروسی، محبت کے چالیس اصول، منٹو صاحب کے افسانے، The Making of Pakistan، Murder of History، The Muslim Conduct of State اور درجنوں ایسی کئی قیمتی کتابیں تھی جن پر گرد کی تہہ جم چکی تھی۔ اور مجھے ڈاکٹر یونس بٹ صاحب کی ایک بات یاد آئی کہ اصل کتاب وہ ہے جسے بس خریدا جائے اور اسے سنبھال کے رکھا جائے۔ لیکن اب مجھے ان تمام کتابوں کی گرد اڑانی تھی اور ان کتابوں کو اپنے لمس سے تازگی دینی تھی۔ میرا ابھی ہوسٹل میں کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ قریب کی ایک میوزک اکیڈمی سے ”دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں ہے“ غزل کے مطلع کا مصرعہ اولی اک سریلی آواز میں میرے کانوں تک پہنچا اور میں کتابوں کی گرد جھاڑنے میں مصروف ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments