خان صاحب قبیلۂ عشق سے تعلق رکھتے ہیں


سعودی کی انتظامیہ نے ستر سے زائد مساجد میں ایس او پیز کی پیروی نہ ہونے پر مساجد کو سر بمہر کر دیا۔ اللہ اللہ خدا کا گھر اور سر بمہر۔ ۔ ۔ یا خدا اب کوئی اپنا ایسا تیسا ارطغرل جیسا عاشق بھیج جو مسجدوں کے بند کواڑ کھولے اور آل سعود کو بتائے کہ مساجد آباد کرنے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ ویران کرنے کے لیے۔ پاکستان میں اپوزیشن اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں کرونا کے مریضوں کی کل تعداد پاکستان میں موجود مریضوں کی کل تعداد کے لگ بھگ برابر ہے اور وہاں اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد پاکستان میں مرنے والوں کی تعداد کے نصف سے بھی کم ہے۔

اب اپوزیشن کو کون سمجھائے کہ یہ ریاضی کی گتھیاں تو عقلی مباحث کا خاصا ہیں جبکہ ہمارے ہینڈسم وزیراعظم تو عشق سے کام لے رہے ہیں۔ عقل تو عیار ہے اور عیاری سے کام لینا بری بات ہے

پنکھے کے نیچے بیٹھ کر اک نا سمجھ خطیب (اپوزیشن) مائیک میں کہہ رہا تھا ” ’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘ کے مصداق وزیراعظم نے تو ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں، دعا کے لیے۔ دعا کے اثر سے آکاش سے فرشتے قطار در قطار اندر ہمارے ملک کی سرحدوں میں اتر رہے ہیں۔ یاد رہے یہ جغرافیائی سرحدوں کی بات ہو رہی ہے، نظریاتی سرحدیں اس کے علاوہ ہیں اور فرشتے بھی موت کے فرشتے مراد ہیں جو دن دیہاڑے کارروائیاں کرتے ہیں اور رات کو وزیراعظم کا خطاب سنتے ہیں جس میں وزیراعظم فرماتے ہیں ’لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے‘ ۔ اس خطاب کے بعد فرشتے بے خوف و خطر مریضوں پر ایسے کودتے ہیں جیسے آتش نمرود میں عشق، اور پھر مریضوں کی زندگی کی شمعیں گل کرتے چلے جاتے ہیں“ ۔

یہ ٹکے ٹکے کے خطیب، عشق کے اسرار و رموز سے نا بلد، خان صاحب کو عقلی و فکری دعوت دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچتے کہ خان صاحب تو قبیلۂ عشق سے تعلق رکھتے ہیں اور عقل کی کیا مجال جو عشق کا احاطہ کرے۔

عقل محکم از اساس چون و چند
عشق عریاں از لباس چون و چند

کچھ شہرت کے بھوکے، پیارے پاکستان میں لاک ڈاؤن کے معاملے میں عقل سے کام لینے کے درپے ہیں۔ اس لیے وہ چونکہ اور چنانچہ کی عقلی پالیسی پر چلتے ہوئے لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ خان صاحب چون و چند سے عریاں، خالص محب وطن ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے پیارے پاکستان کو بند ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

مطالعہ پاکستان کے توسط سے یہ ہم پہ عیاں ہوا کہ سر زمین پاک قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں پر چاروں موسموں کے ساتھ ساتھ لق و دق صحرا، آنکھوں کو تراوت بخشتے میدانی علاقوں کے سر سبز لہلہاتے کھیت کھلیان، سطح مرتفع پوٹھوہار، بلوچستان کی قدرتی چراگاہیں اور خیبر پختونخوا و گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑ ہیں جو کسی کو بھی سحر میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ خان صاحب اس حسن بلا خیز کی زلف کے اسیر ہیں اور حزب اختلاف اس حسن کے درپے ہے۔ اب حسن وہ جو سر چڑھ کر بولے اس لیے خان صاحب سیاحت کے شعبدے کو ایس او پیز کے ساتھ کھولنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کئی مرتبہ اعادہ بھی کر چکے ہیں۔ اس سے پاکستان کے عشاق کو پاکستان کا وجیہہ چہرہ دیکھا کر زر مبادلہ اور دادو تحسین بٹور سکیں۔

اب بات وجیہہ چہرہ تک آ ہی نکلی تو اپنا وزیراعظم بھی کم وجیہہ نہیں ہیں۔ مگر اپوزیشن کا یہ کہنا کہ ’بچ بچا کے کل ملا کے عمران خان کے پاس اک وجیہہ چہرہ ہے بس، اس لیے وہ ماسک نہیں پہنتے‘ ۔ اب ان (اپوزیشن) کے لیے میں اتنا کہتا ہوں ’سڑ نہ دعا کر‘ ۔ بندہ خدا! ہینڈسم وزیراعظم، پاکستان کی عوام کے دلبر ہیں اور عوام کا منہ زور مطالبہ ہے کہ ’یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری‘ ۔ پاکستان کی عوام کا حزب اختلاف کے نام اہم پیغام ’برخوردار حسن کا مذاق نہ اڑا کہیں حسن کے ہاتھوں تیرا مذاق نہ بن جائے! من چلا ہے، خوبصورت ہے پر اپوزیشن ہے تو! تجھے اپوزیشن اور لاڈلے میں فرق کون سمجھائے‘ ۔ نیز لکھاری کا یہاں پہ سنتھیا رچی کا پی پی پی کے رہنماؤں پر الزام کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔

کچھ ممالک کے حکمران تو مارے کرونا کے ڈر کے اپنے ممالک کی پہچان سمجھے جانے والے پارکس میں مرغیوں کا فضلہ تک ڈال رہے ہیں تاکہ عوام پارکس کا رخ نہ کریں۔ یہ غلاظت نہیں تو اور کیا ہے۔ اب ایک محب وطن وزیراعظم بھلا یہ کام کیسے کر سکتا ہے بلکہ وہ تو ایسا سوچنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں نسبتاً تیزی آئی ہے۔ اس مفروضے کا تو ہمارے وفاقی وزیر نے یہ کہہ کر ’ابھی تک جو مصدقہ مریض ہیں وہ ہماری توقعات سے کم ہیں‘ منہ چڑا چکے ہیں۔ اب بھلے عوام، حکمران جماعت کے عشق سے سر شار، نتائج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی محنت کے ساتھ بازاروں، درباروں، مساجد و امام بارگاہوں اور لاری اڈوں پر ایس او پیز کو جوتی کی نوک پر رکھ کر حکمران جماعت کی توقعات پر پورا اترنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔

وزیراعظم پر یہ الزام کہ وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں، تو یہ درست نہیں۔ انشاء اللہ پوری محنت کے ساتھ جلد ہی آئی ایس پی آر کی مدد سے ایک غمگین نغمہ ریلیز کر دیا جائے گا۔ اور کرونا کے علاج کے لیے ہرڈ امیونٹی پر بھی کام زوروشور سے جاری ہے۔ اس نظام کے تحت سب لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی اس وائرس سے متاثر ہو اور آبادی میں خود بخود اس وائرس کے خلاف امیونٹی پیدا ہو سکے۔ لاکھوں جانیں تو قربان کی گئیں اس ملک کو بنانے کے لیے، تو کیا آج ہم ہزاروں جانوں کا معمولی سا نذرانہ دے کر اس ملک کو لاک ڈاؤن ہونے سے نہیں بچا سکتے۔

یہ ہوتا ہے عشق، یہ ہوتا ہے لیڈر۔ باقی رہی عوام تو ان پر ہرڈ امیونٹی کا تجربہ ہو رہا ہے۔ کامیابی ضرور قدم بوس ہو گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments