مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کا خواب اور امریکی معاشرے کا ارتقا


قوموں کی زندگی میں بعض اوقات چھوٹا سا واقعہ بہت بڑی سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ زندہ قومیں ایسے واقعات سے اپنے اجتماعی شعور کا ارتقاء کرتی ہیں اور تبدیلی کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔

25 مئی 2020 ء کو امریکہ کی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیپو لس میں ایک سیاہ فام باشندے جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعے کے بعد شدید مگر مختصر احتجاج کو دیکھ کر مارٹن لوتھر کنگ کی مشہور تقریر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ جب مزاحمت کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو ان کی آواز کچھ یوں گونجی تھی:۔

مجھے آج آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ آج کا دن تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ مؤرخ لکھے گا کہ اس دن کالے نیگرؤوں نے اپنی نجات کے لئے اس قوم کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اور یہ مظاہرہ ایک عظیم لیڈر کے علامتی سائے تلے یعنی لنکن میموریل کے سامنے منعقد ہوا تھا۔ ابراہم لنکن آج سے سو سال پہلے ”فرمان نجات“ پر دستخط کیے تھے۔ جس کو کالے غلاموں نے روشنی کا مینار جانا اور اس کے ساتھ اپنے ساتھ ڈھاے جانے والے مظالم اور غیر مساویانہ سلوک کے خاتمے کی امید دکھائی دی تھی۔ وہ قدم کالوں کے لئے ظلم کی اندھیری رات کے خاتمے کے بعدآزادی کی صبح طلوع ہونے کا پیغام تھا۔

مگر ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی نیگرو آزاد نہیں ہے۔

ایک سو سال گزرنے کے با وجود بھی نیگرو کی زندگی آج بھی امتیازی سلوک اور تفریقی برتاؤ کی زنجیروں میں کسی بلک رہی ہے۔

ایک سو سال گزرنے کے با وجود بھی نیگرو مادی دنیا کی خوشحالیوں سے دور غربت کے تنہا جزیرے پر اپنی زندگی کے دن گنتا ہے۔

ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی نیگرو امریکی معاشرے کے کونوں کھدروں میں الگ تھلگ بد حالی کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ہی ملک میں اجنبی ہے۔

آج ہم کالے لوگوں کی زندگی کی اس بہیمانہ تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرے دوستو! آج ہم ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں مگر میں پھر بھی خواب دیکھتا ہوں اور یہ خواب امریکی قوم کو ایک عظیم قوم بنانے کے خواب سے جڑے ہیں۔

میرے دوستو! میں آج تمہیں بتاتا ہوں ی کہ وہ خواب کیا ہے؟ ایک دن یہ قوم ایک عظیم قوم بن کر دنیا میں ابھرے گی۔ اور یہ کہ : ”اس دنیا کے تمام انسان برابر ہین“ جیسے ازلی سچ کو عملی شکل نصیب ہوگی۔

میں دیکھتا ہوں کہ ریاست جارجیا کے سرخ پہاڑوں پر کالے غلاموں کے بچے او ران کے آباء و اجداد کو غلام بنانے والے سفید آقاؤں کے بچے بھائی چارے کی ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔

میرا خواب ہے کہ ریاست میسیپی جو آج ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، جو آج نا انصافی کے شعلوں میں جھلس رہی ہے، وہ آزادی اور انصاف کے نخلستان میں تبدیل ہو جائے۔

آج میں کھلی آنکھوں سے ایک خواب دیکھتا ہوں کہ میرے چار بچے ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے جہاں پر ان کو کردارکی پختگی پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ ان کی جلد کے رنگ پر۔

میں کھلی آنکھوں سے یہ خواب بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس دیس کی ہر وادی، آزادی اور محبت کی روشنی سے جگمگا اٹھی ہے۔ ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہے ہیں، بے یقینی کی بنجر زمین امید کے باد و باراں سے زرخیز ہو رہی ہے، اہل حکم کے رویوں کی مکار پگڈنڈیاں سیدھے، سادہ اور شفاف راستوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور تمام انسان کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کے عطا کردہ قوانین فطرت اپنی خالص شکل میں اس سر زمین پر متشکل ہو رہے ہیں۔

یہ میری امید ہے، یہ میرا ایمان جس کے ساتھ میں جنوب کی طرف واپس جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یقین کے اس تیشے سے ہم مایوسی کے کوہ گراں کو پتھر پتھر توڑ ڈالیں گے۔ اس ایمان کے ساتھ ہم باہمی چپقلش کی پر شور آوازوں کو بھائی چارے کی سریلی سفلی میں تبدیل کر دیں گے۔

اس یقین کے ساتھ ہم اٹھے ہو کر دعا کریں گے، ہم اکٹھے ہو کام کریں گے، ہم اکٹھے کھیلیں گے، ضرورت پڑی تو اکٹھے جیل کی ہوا کھائینگے اور اکٹھے ہو کر اپنی آزادی کے لیے جدو جہد کریں گے۔ اس امید کے ساتھ کے ہمیں آزادی ضرور ملے گی۔

یہ وہ دن ہوگا جب خدا کے سب بچے مل کرایک گیت گائینگے :
’میرا دیس، تیرا دیس، شیریں آزادی کا دیس
میرے باپ دادا یہاں مدفون ہیں میرا تو ہے خمیر
پر باہر سے یہاں آ بسنے والوں کا فخربھی ہے یہ دیس
ہر پہاڑ کے دامن سے آزادی کے شامیانے گونجنے دو
آج بہت حسین لگ رہا ہے میرا دیس ’
دوستو! یاد رکھو اگر امریکہ نے ایک عظیم قوم بننا ہے تو اس خواب کو تعبیر ملنی چاہیے۔ ۔ ۔

 ٭ ٭ ٭ ٭

نوبل انعام یافتہ، مارٹن لوتھر کنگ جونئیر امریکہ کی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں جنوری 1929 ء کوایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا رجحان بچپن سے ہی مذہب کی طرف تھا۔ ہائی سکول کے بعد انھوں نے الوہیاتی تعلیم کروزر سیمینری سے حاصل کی اور پھر بوسٹن یونیورسٹی سے مذہبیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان دنوں بسوں میں سفر کرنے کے لیے سیا ہ فام اور سفید فام لوگوں کے لئے علیحدٰہ علیحدٰہ نشستیں مختص ہوتی تھیں۔ اور اگر سفید فام باشندے کے لیے جگہ نہ بچے تو وہ جہاں چاہے کسی سیاہ فام باشندے کو کھڑا کر کے بیٹھ سکتا تھا۔

یہ نومبر 1955 ء کا واقعہ ہے جب ایک سیاہ فام خاتون (روزہ پارک) نے ایک سفید فام مرد کو اپنی نشست دینے سے انکار کر دیا۔ کنگ اس وقت ایک پر جوش نوجوان تھے اور اکثر سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی باتیں کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کو ہم پلہ کر کے مونٹگمری بس سروس کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ان کے اس اعلان نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اندر باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بائیکاٹ تحریک تھی جو 5 دسمبر 1955 ء سے شروع ہو کر 15 دسمبر 1956 ء تک جاری رہی۔ مارٹر لوتھرکنگ کو گرفتار کر لیا گیا۔ سفید فام لوگوں نے اشتعال میں آکر ان کے گھر پر بمباری تک کر دی مگر وہ کالوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف ڈٹے رہے۔ بات امریکی سپریم کورٹ تک جا پہنچی جس کے پاس مسافر بسوں کے اندر نشستوں کی تفریق کو غیر آئینی قرار دینے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ تھا۔

لہٰذا انتظامیہ کو بسوں میں سفر کرنے کے اپنے ضابطے تبدیل کرنے پڑے۔ اب بزرگ شہریوں اور خصوصی افراد کے علاوہ کسی اور مسافر کے لیے کوئی نشست مخصوص نہ تھی۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد کنگ ایک پر امن مزاحمتی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ وہ حکومت میں عیسائی باپسٹ وزیر بھی رہے۔ اور افریقی۔ امریکی باشندوں کے حقوق کے علمبردار کے طور پر مانے جانے لگے۔ وہ محاذ آرائی کی بجائے پر امن احتجاج پر یقین رکھتے تھے۔

انھوں نے اگست 1963 ء کو ابراہم لنکن کے دستخط شدہ فرمان برائے نجات کے سو سال مکمل ہونے پر واشنگٹن میں یادگار ابراہم لنکن پر ڈھائی لاکھ کے مجمعے کے سامنے ایک تاریخ ساز تقریر کی تھی اور واشنگٹن میموریل تک مارچ کیا تھا۔ انھوں نے اس وقت کے صدر جان کینیڈی سے ایک اور فرمان نجات دستخط کرنے کا مطالبہ بھی منوا لیا تھا۔ ان کی یہ تقریر ”میرا ایک خواب ہے کے نام سے مشہور ہوئی“

مارٹن لوتھر کنگ جونئیر نے امریکہ خانہ جنگی کی بھر پور رہنمائی کی جو 1955 ء سے 1968 ء میں ان کے قتل تک جاری رہی۔

ان کو 1964 ء میں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ 4 اپریل 1968 ء کو ٹینیسی کے ایک ہوٹل کی بالکنی میں کھڑے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کو جیمز ارل رے نامی آدمی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مارٹر لوتھر کنگ جونئیر کو بعد از وفات امریکہ کے صدارتی ایوارڈ برائے امن سے نوازا گیا۔

ء` 1964 ء میں عوامی حقوق کا قانون منظور ہو گیا اور اس کے بعد کی دہایوں نے دیکھا کہ سیاہ فام باشندوں کو سماجی، سیاسی اورمعاشی حقوق حاصل ہو گئے تھے یہاں تک کہ سیاہ فام باشندے امریکہ میں صدر، گورنر وزیر خارجہ اور دیگر اہم قومی عہدوں پر فائز دیکھے گئے۔ اور کالے گورے کی تمیز دن بدن ختم ہونا شروع ہو گئی۔

قوموں کی زندگی میں بعض اوقات چھوٹا سا واقعہ بہت بڑی سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ زندہ قومیں ایسے واقعات سے اپنے اجتماعی شعور کا ارتقاء کرتی ہیں اور تبدیلی کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments