کول واٹرز، میسیز اور پاکستانی مائنڈ سیٹ


بیتے دنوں میں جب میں بغرض تعلیم امریکہ میں مقیم تھا اور واپسی کی تاریخ نزدیک آئی تو شاپنگ کے لیے شکاگو شہر کے ایک مشہور پلازہ کا رخ کیا۔ ونڈو شاپنگ کرتے کرتے سوچ کا کیڑا کلبلایا کہ بیگم کے لیے بھی کچھ خریداری کی جائے۔ پاکستانی دماغ نے، معذرت کے ساتھ، فوراً کام کیا کہ کوئی سستی سی آئٹم خرید لی جائے۔ پرفیومز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کول واٹرز نامی ایک برانڈ کی ڈسپلے پر پہنچ گیا۔

شاپ کیا تھی کہ حسینوں کے اجتماع کی ایک جگہ تھی۔ بارہ کے قریب حسینائیں مین کاؤنٹر پر آدھی جھکی، آدھی لٹکی اپنی سپروائزر کے ساتھ محو گفتگو تھیں کہ میں وارد ہو گیا۔ تابناک شعاعوں کی تابکاری سے بچتا بچاتا میں ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ تھی۔ سکون کا سانس لیا اور ٹیسٹرز کو آزمانا شروع کر دیا۔ کئی ایک خو شبوئیں پسند آئیں، فوراً ڈالرز میں کیلکولیٹ کیا اور مسترد کر دیا۔ بس خیال یہی تھا کہ سو ڈیرھ سو ڈالر کے اندر اندر خریداری کرنی ہے۔

بیگم کے لیے آخر سب سے بڑا تحفہ تو میں خود تھا، یہ سوچ کر خودی کو بلند کیا اور خوبصورت شوکیسز کی دنیا میں گم ہو گیا۔ اچانک محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ”مس امریکہ“ کو پیچھے کھڑا پایا۔ ابھی حیرت کے سمندر سے باہر آنے بھی نہ آنے پایا تھا کہ مس امریکہ نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ مجھے کہا کہ ”مے آئی ہیلپ یو سر؟“ حواسوں کو مجتمع کرتے ہوئے میں نے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ لڑکی اپنا کام بہترین انداز سے جانتی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ میں جان چھڑانے کے چکر میں ہوں مگر اس کے انداز، خوبصورت ”پوسچر“ اور ”باڈی لینگوئج“ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، نہ ہی اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری جس کا میں دل ہی دل میں انتظار کرتے ہوئے خود ہی سے خوامخواہ شرمندہ تھا۔

اس نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ میں مزید اضافہ کیا اور بھر پور انرجی کے ساتھ کچھ ایسے انداز سے بولی جیسے ہم بہت پرانے اور بہت گہرے دوست تھے کہ اگر آپ مجھے یہ بتا دیں کہ آپ کس کے لیے لینا چاہتے ہیں تو میں آپ کی بہت مدد کر سکتی ہوں۔ یہ کہ کر وہ تھوڑا سا پیچھے ہو گئی۔ اس کی اتنی ”فرینڈلی“ مسکراہٹ اور انرجی نے میری ہچکچاہٹ کو دور کر دیا اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو اس نے انتہائی باعزت طریقے سے سر کو ہلا دیا۔

میں نے بتایا کہ پرفیوم۔ بیگم کے لیے۔ اس نے بھاگ بھاگ کر پتا نہیں کہاں کہاں سے کتنے پرفیومز اکٹھے کر دیے۔ پھر جب میں نے انتخاب میں تامل کیا تو وہ ان تمام کے ٹیسٹرز بھی لے آئی۔ ایک جانب اس نے میڈیم ایک جانب ہائی اور ایک جانب ہائی فائی قسم کے پرفیومز کی لائنیں لگا ڈالیں۔ میں ایک ایک کر مسترد بھی کرتا رہا اور اچھے نکالتا بھی رہا، مگر اس کے چہرے پر ایک شکن تک نہ آئی، اخلاق بلند رہا اور انرجی اتنی ہی بھرپور رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے دس پرفیومز کے ساتھ ساتھ کول واٹرز کی سگنیچر باڈی لوشن بھی دس خرید ڈالے۔

ایسا ہی معاملہ میسیز سٹورز میں میرے ساتھ پیش آیا۔ میسیز امریکہ کے مہنگے سٹورز میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں داخل ہونے کے بعد میرا سامنا ”بریڈ پٹ“ سے تھا۔ میں نے بریڈ پٹ کو بہت کھپایا، بہت نچایا اور محض ایک زارا کی شرٹ سے زیادہ کچھ نہ لیا۔ مجال ہے کہ بریڈ پٹ نے مجھے غصے سے دیکھا ہو، گھورا ہو یا ماتھے پر شکن ڈالی ہو۔ میرا سارا بل کروانے کے بعد اس نے مجھے انتہائی اخلاق کے ساتھ رخصت بھی کیا۔

وطن واپسی پر چند دنوں کے بعد جب دوبارہ پاکستانی بن چکا تھا، گھر میں آٹا ختم ہو گیا، چینی بھی کم کم ہی تھی، لہذا ہوم منسڑ نے حکم صادر فرمایا کہ دونوں چیزیں حاضر کی جائیں۔ دکاندار کے پاس پہنچا۔ وہ دکان میں اکیلا ہی تھا، میں نے بڑے خلوص کے ساتھ اسے سلام کیا، مگر وہ شاید کسی مرگ سے ہو کرآیا تھا، چہرے پر ایسی کیفیت تھی کہ شاید قبر بھی اسی نے کھودی تھی، جواب ندارد۔ میں نے اپنی بہترین مسکراہٹ پیش کی، اس کا چہرہ پھر بھی بے تاثر رہا۔

میں نے درخواست پیش کی کہ یہ یہ آئٹمز دے دیں اتنی مقدار میں۔ میری آواز جیسے کسی گنبد سے ٹکرا کر واپس آ گئی۔ دوبارہ عرض داشت پیش کی تو لاش میں تھوڑی حرکت پیدا ہوئی۔ آٹے کی بوری جو شاید پانچ گز کے فاصلے پر موجود تھی اسے لینے کے لیے لاش کا سفر شروع ہوا اور تقریباً دس منٹ کے بعد آٹے کا ایک پھٹا ہوا تھیلا میرے سامنے رکھ دیا۔ اس تمام تر عمل میں گفتگو کا سلسلہ ایسے موقوف تھا جیسے ہم دونوں ”تھیڑ آف ابزرڈ“ کے کوئی کیریکٹر تھے اور یہ کسی ڈرامے کا پہلا اور آخری سین تھا۔

میں نے تھیلے کو تبدیل کرنے کی درخواست پیش کرنے کا گناہ کبیرہ کر ڈالا جواب میں اس نے مجھے اگلے دس منٹ گھورا اور بڑی بدتمیزی کے ساتھ یہ کہ کر جان چھڑا لی کہ آٹا نہیں ہے۔ میں نے عرض کی کہ وہ رکھا ہے، جواب میں اس نے مجھے دوبارہ ایک شدید قسم کی ”گھوری“ ڈالی اور فرمایا کہ وہ کسی اور کے ہیں۔ میرے استسفار پر کہ کیا وہ سارے کے سارے آٹے کے توڑے کسی اور کے ہیں، اس نے جواب دینا پسند نہیں فرمایا۔

اسی قسم کا تجربہ کئی بڑے بڑے سٹورز اور شاپنگ مالز میں بھی ہوا۔ اکثر اب بھی ہو جاتا ہے۔ اکثر مالز میں موجود سیلز بوائے یا سیلز گرلز کسٹمر کو آتے دیکھ کر دوسری طرف چلے گئے یا پھر منہ موڑ کر اپنی کولیگ کے ساتھ انتہائی عمدہ، نفیس اور غلیظ قسم کی گفتگو میں مشغول جاتے ہیں۔ سوال کرو تو شدید ناگواری سے دیکھتے ہوئے، بعض اوقات تقریباً پاؤں پٹختے ہوئے، بدتمیزی سے جواب دیتے پائے جاتے ہیں۔ عموماً یہ لوگ اپنے کسٹمر کو اٹینڈ ہی ن نہیں کرتے۔ جماہیاں لینا شاید ڈیوٹی اور ”جے۔ ڈیز“ کا کوئی حصہ ہوتا ہے یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی۔

بہرحال اب اس رویے کی عادت ہو گئی ہے۔ اس سارے مسئلے میں ہم نے ایک مائنڈ سیٹ بنا لیا ہے کہ کسٹمرز کو دیکھ کر مسکرانا نہیں، اس سے اچھے اخلاق سے بات نہیں کرنی، اسے اٹینڈ نہیں کرنا اور اگر سوال کرے تو یا تو جان چھڑانی ہے یا بدتمیزی کرنی ہے۔ اگر ہم اس ما ئنڈ سیٹ سے باہر آ جائیں اور اپنی ان عادات کے برعکس عمل کریں تو کوئی مضائقہ تو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments