کرونا، پاکستان اور ہمارا اصل مسئلہ


سازشی تھیوریز کی تمام کہانیوں کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں۔

1) مستقبل میں پاکستان کی تباہی کرونا سے نہیں بلکہ جہالت سے ہو گی۔
2) کرونا سے تو شاید ہم بچ جائیں مگر جہالت سے ہماری بربادی لازم ہے۔

3ٓ) کرونا کو برا کہنے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس نے ہمیں سکھایا کہ قوم کو صحت کے شعبہ میں کن کن چیزوں کی اشد ضرورت ہے اور کون کون سی تبدیلیاں فوری ہونا چاھیں۔ اور اس سے پہلے ہماری ترجیحات کتنی غلط تھیں۔

4) صحت کے شعبے کے وائرس تو سامنے آرہے ہیں مگر ہمارے تعلیمی نظام کے وائرس نہ صرف ہمیں نظر نہیں آ رہے بلکہ انہوں نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

اور افسوس یہ ہے کہ ہم ان کے خلاف کوئی ویکسین بھی تیار نہیں کر سکے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے بس میں ہوتا تو۔ ۔ ۔
1) میں سب بچوں کو تعلیم کا ماسک پہنانا لازم قرار دیتا۔
2) اساتذہ اور طلبعلموں کو تعلیمی اداروں میں لاک ڈاؤن کرتا۔
3) یونیورسٹیوں کو ایمرجنسی طور پر ریسرچ کے وینٹی لیٹر فراہم کرنے کا پابند کرتا۔
4) والدین اور عوام کو جہالت اور گمراہی سے بچنے کا سینیٹائزر کا استعمال لازم قرار دیتا۔

5) ڈیجیٹل لٹریسی گن بنوا کر ہر پولیس ناکے پر عوام کا تعلیمی معیار چیک کرواتا اور ضرورت پڑنے پر انہیں خصوصی کوارنٹین تعلیمی ادارے میں کچھ سالوں کے لیے isolate کروا دیتا۔

6) مذہبی جماعتوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی 20 نکاتی معاہدہ کرنے کی صدر پاکستان سے درخواست کرتا۔ جس میں سب سے زیادہ زور علم دشمن لوگوں سے بچنا اورریسرچ و تحقیق کو آگے بڑھانے پر زور ہوتا۔ اور تنگ نظری اور تعصب کے قالینوں کو مساجد اور مدرسوں سے ہٹانے کو لازم بنواتا۔

7) پولیس اور فوج کو پابند کرنے کی درخواست کرتا کہ علمی ایمر جنسی میں علمی لاک ڈاؤن کو موثر بنائیں۔ اور کسی بھی جگہ اگر جہالت کے مریض کنفرم ہوں تو اس علاقے کو مکمل سیل کر دیں اور مریضوں سے ملنے والے تمام لوگوں کا ٹیسٹ کروائیں اور نتیجا مثبت آنے پر انہیں چند سال کے لیے کوآرنٹائن کیا جائے۔

7) تعلیم اور تحقیق کے خلاف بات کرنے والوں سے بچنے کے لیے سوشل ڈسٹینس کو لازم کراتا اور گمراہ کن باتوں کے خلاف برداشت اور بھائی چارے کے سینیٹائزر کا استعمال یقینی بنواتا۔

9) علم اور تحیقیق کے خلاف جمع ہونے والے افراد پر دفعہ 144 کا نفاذ کراتا۔

10) تمام اساتذہ کو بشمول مدرسوں کے اساتذہ کو فرنٹ لائن fighter قرار دے کر ان کی تنخواہیں بڑھاتا۔ اور انہیں اعزاری سلیوٹ پیش کرواتا۔

9) وزیراعظم سے درخواست کر کے ایک فنڈ بنواتا اور ٹیلیتھون کر کے اس میں فنڈز جمع کرواتا۔ اور زیادہ متاثرہ علاقوں اور خاندانوں کو فوری طور پر ضروری اخراجات کے لیے کچھ رقم دلواتا اور تمام تعلیمی اخراجات مفت دینے کا اعلان کرواتا۔

15) تمام سیکورٹی اداروں کو ملا کر غیر تعلیم یافتہ افراد کی نشانداھی کرانے پر لگاتا اور انہیں تعلیمی اداروں میں رجسٹر داخل کرواتا۔ اگر نادرا کے ریکارڈ پر ایس ایم ایس کے ذریعے امدادی رقم دی جا سکتی ہے تو ان پڑھ اور سکول سے ڈراپ ہونے والے بچوں کی نشاندہی اور ان کے والدین کو کسی بھی طریقے سے انہیں اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے پر مجبور کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

روزآنہ کی بنیاد پر ان پڑھ مریضوں کی نشان دہی اور پھر ان کے داخلے اور صحت یابی کی رپورٹ تمام میڈیا پر روزآنہ کی بنیاد پر نشر کرواتا۔

ذرا سوچیے کہ اگر ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہوتے اورریسرچ و تحقیق صحیح طور پر ہو رہی ہوتی تو کیا کرونا ہمیں اتنا متاثر کرتا جتنا اب کیا ہے؟

اگرہمارے ملک میں تعلیی ادارے صحیح کام کر رہے ہوتے تو صحت کا محکمہ اور ہمارے اسپتال اتنے ignored ہوتے؟

سوچنا یہ ہے کہ کرونا کے آنے سے ہم جاگے ہیں یا نہیں۔ کیا ہم تعلیم کے میدان میں بھی ذلت کے کسی کرونا وائرس کا انتظار کر رہے ہیں جو ہمیں جہالت اور تنگ نظری کی وجہ سے مکمل ملیا میٹ کر دے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments