حکومت کی نااہلی پر عالمی ادارہ صحت کی مہر تصدیق


ملک اس وقت ایک ناکام اور غیر مقبول حکومت کی گرفت میں ہے جسے پالیسی سازوں نے اپنی بیساکھی کے سہارے کھڑا کر رکھا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ حکومت نہ صرف اپنی پہ در پہ ناکامیوں کے اعتراف سے گریزاں ہے بلکہ اپنی چرب زبانی سے عوام کو لگائے زخموں پر نمک پاشی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

تیزی سے ابھرتی ملکی معیشت کو ڈبونا اس حکومت کی ناکامیوں میں سرفہرست ”کارنامہ“ ہے اور اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ روزگار کے لیے کروڑوں نئی آسامیوں کا پیٹا جانے والا ڈھول پھٹ چکا ہے، روزگار کے نئے مواقع مہیاء کرنے کے بجائے روزگار سے وابستہ شہری بھی روزگار سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ سستے انصاف کا وعدہ صرف وعدہ ثابت ہوا، صحت عامہ کی صورتحال پہلے سے زیادہ برباد ہو چکی ہے اور تعلیم کا شعبہ بری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران مشاہدے میں آنے والے چند قابل ذکر معاملات کے مختصر جائزے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت کی ملکی مسائل پر نہ کوئی گرفت اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ حکومت ملک کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مشن پر دلجمعی سے کمر بستہ ہے۔

مثلاً، قدرتی آفات سے نمٹنے میں جس حد درجہ نا اہلی، معاملہ فہمی کا فقدان، بے حسی اور بصارت سے محرومی دیکھنے میں آئی ہے اس کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی زراعت جو ڈوبتی معیشت کا واحد سہارا ہے ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں حکومت کے فوری اور تیز ترین اقدامات کا انتظار کرتی رہی حتی کہ زراعت کا لگ بھگ 37 فیصد رقبہ اس یلغار سے متاثر ہو گیا۔

ٹڈی دل یلغار حکومت کی معاشی محاذ پر ناکامی کے بعد کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کا پہلا امتحان تھا جو 2019 جون میں ملک کی فصلوں پر حملہ آور ہوا، ٹڈی دل کا حملہ اچانک نہیں تھا، پاکستان کی جانب اس کی نقل و حرکت جون 2019 کے پہلے سے جاری تھی، اس یلغار کی شدت سال 1961 کے بعد سال 2019 میں نظر آئی، کراچی شہر کے مضافات کی زرعی اراضی نے بھی نومبر 2019 میں زراعت دشمن یلغار کا سامنا کیا، واضح رہے کہ مقامی اور عالمی ایجنسیاں اس یلغار کی نقل و حرکت سے مسلسل متنبہ کر رہی تھیں لیکن افسوس کہ نہ تو حکومت کے کسی عہدیدار نے اس تنبیہ کا نوٹس لیا نہ ہی عوام کی محنت و مشقت سے کمائے پیسے پر پلنے والا ادارہ این ڈی ایم اے اس افتاد سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نظر آیا، جون 2019 سے فروری 2020 تک کا عرصہ حکومت نے اس معاملے کی سنگینی جاننے کے بجائے غفلت میں گزار دیا، ٹڈی دل کے حملے پر فوری ایمرجنسی کا اعلان کرنے میں آٹھ ماہ کا طویل عرصہ لگا دینا اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔

نا اہلی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے درکار اسپرے تک موجود نہیں تھا جسے ٹڈی دل کی یلغار شروع ہونے کے مہینوں بعد چین سے درآمد کیا گیا، لگ بھگ 37 فیصد زرعی رقبے کے متاثر ہونے کی وجہ سے ملک کے طول و ارض میں متعدد فصلوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے، نتیجتاً کپاس، گندم، دال اور سبزیوں کی پیداوار متاثر ہوئی، گندم اور کپاس برامد کرنے والا ملک آج زرمبادلہ میں خوفناک کمی کے باوجود ان اشیائے ضرورت کی درآمد پر مجبور ہے، وقت پر مناسب انتظامات کرنے میں ناکامی ایک قومی سانحہ بن گیا، افسوس کہ غفلت کے باعث اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ٹڈی دل کی یلغار پر اب تک مکمل قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

ٹڈی دل کی یلغار کے دوران ہی اس سال مارچ 2020 میں کووڈ۔ 19 کی وبا نے حکومت کے معیار اور آفات سے نمٹنے کے لیے کروڑوں روپے کے سرکاری خرچ سے مستقل بنیادوں پر قائم این ڈی ایم اے اور ہر صوبے میں قائم پی ڈی ایم اے کی خستہ، ناکارہ اور تباہ حال صورت عوام کو دکھانے کا انتظام کیا، بلا شبہ حکومت نے اپنے ذی شعور شہریوں کو کھل کر اس بات کا احساس دلایا کہ تمھاری جیب سے بزور وصول کیے گئے کروڑوں روپے پالیسی سازوں کے مرحمت فرمائے گئے این ڈی ایم اے کے چیف صاحب کے ذریعے نیند میں غرق عملے پر نچھاور کیے جا رہے ہیں۔

کووڈ۔ 19 کی وبا ٹڈی دل کی یلغار کے بعد ملک پر دوسرا خوفناک حملہ تھا جو ہنوز جاری ہے، کووڈ۔ 19 ایسی وبا ہے جس کی زد پر ملک کے ہر شہری کی جان بلا تخصیص رنگ، نسل، مذہب، امیر یا غریب ہے۔ یہ وبا عام شہریوں کی جان سے لے کر فرنٹ لائن طبی عملے کی زندگیاں تک نگلے چلا جا رہا ہے جبکہ حکومتی بے حسی اور متعلقہ محکمے جنہیں اس وبا کے انسداد کے لیے اس سال فروری کے آخری ہفتے میں چوکنا ہو کر وبا سے نمٹنے کے انتظامات میں مصروف نظر آنا چاہیے تھا اپریل کے آخری ہفتے تک عملاً منظر سے غائب رہے۔

حکومت کی نا اہلی اور مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کا شدید فقدان عام شہری کی اس وقت سمجھ میں آیا جب پانی ناک تک پہنچ چکا تھا، اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ کووڈ۔ 19 سے ہمارا ملک اس وقت تک قطعی محفوظ تھا جب تک حکومت کی غیر دانشمندی نے ملکی سرحدوں پر بری اور فضائی راستوں سے پہنچنے والے پانچ چھ ہزار افراد کو باوجود متعدد حلقوں کی جانب سے تنبیہ کے ملک کے طول و ارض میں پھیلا نہیں دیا، ان تھوڑے سے افراد کو مناسب طبی مشورے اور نگہ داشت کے تحت چند ہفتوں کے کڑے لاک ڈاؤن میں قرنطینہ کیے جانے کی ضرورت تھی، اگر فوری انتظامات سرحدی داخلے پر ممکن نہیں تھے تو انہیں با آسانی محفوظ مقام تک منتقل کر کے صحتیاب ہونے تک علیحدہ رکھا جا سکتا تھا لیکن یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ ملک میں صحت کے مخدوش انتظامات کے باوجود سخت حفاظتی تدابیر کے بجائے تیزی سے پھیلنے والے اس مرض میں مبتلا مریضوں کو ملک بھر میں وبا پھیلانے کا انتظام کیوں یقینی بنایا گیا۔

نتیجتاً کووڈ۔ 19 ملک کے کونے کونے میں پھیل گیا، نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ ان سطور کے لکھنے تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پاکستان کو کووڈ۔ 19 سے متاثرہ دس سرفہرست ممالک میں شامل کر چکا ہے۔ ۔ ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments