حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی قبر محفوظ ہے


کیا کروں کوئی ایک سیاپا ہے۔ کوئی ایک رنڈی رونا ہے۔ جدھر دیکھتی ہوں ادھر کرونا کی آگ ہے جو ہر گھر کے اندر داخل ہو گئی ہے۔ اسپتالوں کے حالات کا کیا ذکر کروں اب جلنا، کڑھنا اور اپنا خون آپ پینا والا معاملہ ہے۔ ٹی وی چینلز نے اس قوم کو پاگل کر دینا ہے۔ فضول لایعنی خبروں کو اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سات آٹھ بار دہرانا لازمی ہے۔ ذرا دیکھئیے اور سر دھنیے۔ شہروز سبزواری نے بالآخر ماڈل صدف کنول سے نکاح کر لیا۔ کتنا بڑا کام؟

پہلی شادی کی خبر، طلاق کا ذکر۔ ایک بار دو بار دل پر پتھر آنکھوں پر جبر کر کے گنتی کی۔ سات بار۔ ہائے جی چاہتا تھا اختیار میں ہو تو لتروں سے وہ ٹھکائی کروں کہ نانی یاد آ جائے۔ نواز شریف ریسٹورنٹ میں چائے پیتے دیکھے گئے۔ پورے چھ بار ایک بوریت کن تسلسل کے ساتھ۔ نواز شریف اپنے بیٹے حسن کے ساتھ واک کر رہے ہیں۔ تو بھئی ہم شادیانے بجائیں۔ آخر کیا کریں۔

ماسک پہننے پر عوام کو تاکید، نہ پہننے پر جرمانے کی نوید۔ میرے خود پسند، انا پرست اور سر پھرے خان کو تو دیکھو۔ ملک کے فوجی سربراہ اور غالباً اس کے آئی ایس آئی کے درمیان کس شان سے کھڑا ہے۔ دونوں فوجیوں کے منہ پر ماسک ہے اور یہ ہمارا احمق، دلیر اور شجاع لیڈر بغیر ماسک کے گویا اس حکم نامے کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ پتہ نہیں کیا چاہتا ہے؟ سمجھ سے قاصر ہے۔ اب میں کیا کروں۔ کرونا کا ”ک“ اڑاتی ہوں تو باقی رونا رہ گیا ہے۔ کچھ ذاتی معاملات میں کچھ قومی معاملات میں۔

چلو ذات اور ملک کے دکھ پر رونا تو کچھ سمجھ میں آتا ہے پر یہ مسلم امہ کی بے حسی، ان کے حکمرانوں کی وحشت و بربریت پر جلنا کڑھنا اور رونے کا ٹھیکہ بھی ہم نے از خود ہی لے لیا ہے۔ 27 مئی کو عمر بن عبدالعزیز جیسی عظیم ہستی کے مزار مبارک کی بے توقیری کی خبر میڈیا پر گردش کر رہی تھی اور ہم جھوٹے سچے مسلمانوں کے دلوں پر چاقو چھریاں چل رہی تھیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے سلسلے شروع تھے۔ کسی نے تبصرہ کیا شامی ملیشیا اس کار عظیم کے عوض ثواب کمانے کے لیے بڑی مضطرب تھی۔

ایران کی بھی بڑی ہلا شیری تھی۔ اتنے خون خرابے کے بعد بھی بشار کی انا کا بت ویسے ہی تنا کھڑا ہے۔ کہیں اس کی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی کچھ بھی نہیں۔ فروری میں بھی علاقے کو تاراج کرنے کی کو شش ہوئی۔ کمبختو کچھ تو سو چو۔ اس گندی اور ظالم جنگ نے اگر کسی کو نقصان پہنچایا تو وہ اپنے لوگ شامی ہی تھے نا۔ پر کچھ تو اپنوں اور کچھ کرائے کے ٹٹوؤں نے طلائی سکوں کے عوض دین کی ٹھیکیداری شروع کردی۔ علوی، دروز، کرد، آسیری سب شامی ہونے کے باوجود کافر تھے۔ گولیوں سے بھونے جانے کے قابل۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ملک دنیا بھر میں اپنے قابل فخر تاریخی ورثہ کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ توڑ دو، پھوڑ دو، جلا دو، مسمار کردو یہی نعرے انہی پر کام۔

ڈاکٹر ہدا کو میل کی کہ اس سے صورت حال جانوں۔ ڈاکٹر ہدا کا تعلق حلب سے ہے۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ حلب کی ہیومن رائٹس کی سرگرم رکن بھی تھیں۔ میری ان سے ملاقات دمشق میں اعظم پیلس میں ہوئی تھی۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ ڈھیروں باتیں کیں۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران ڈاکٹر ہدا، دمشق یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذکریا، ابو فاضل اور چند دیگر لوگوں سے مسلسل رابطہ رہا تھا۔ شام کا جنگ کے دنوں کا چہرہ میں نے انہی لوگوں کی وساطت سے دیکھا تھا۔ میں نے ہدا کو برقی تار بھیجی۔

پر ہوا یوں کہ بیچ میں آصف فرخی کا معاملہ ہو گیا۔ تین دن تک تو طبیعت ہی درست نہ ہوئی۔

دراصل شام کی سیاحت کے دوران میں نے ادلب کو بھی دیکھا۔ مرکزی شاہراہ سے کچھ ہٹ کر پہاڑیوں میں گھرا ہرا بھرا بحیرہ روم کی ہواؤں میں لپٹا۔ کیا بات تھی شہر کی اتنا خوبصورت کہ جتنا جھوٹ بول لو۔ سارے شام کو دانہ دنکا دینے کا اعزاز اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔ مراۃ النعمان کچھ ہی دور تھا۔ یہاں ابو العلا المعری جیسا بے مثال شاعر ایک عظیم مفکر اور فلاسفر جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی المعرٰی کی رسالتہ الغفران سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔

شہر شاعر سے محبت کرتا محسوس ہوتا تھا کہ ہر خوبصورت جگہ اور پارکوں میں رومن آرٹ کے شاہکار پیڈسٹلوں پر سجے اس کے مجسمے نظر آتے تھے۔ بلا سے وہ مرتد تھا ملحد تھا۔ مگر علم و آگہی کا پیکر تھا۔ اس کی سوچ اور فکر اپنے وقت سے صدیوں آگے تھی۔ وہ دسویں گیارہویں صدی کا شاعر نہیں بیسویں اکیسویں صدی کا شاعر تھا۔ مگر شام کی خانہ جنگی میں چھوٹے ذہنوں نے اس کا بڑا ذہن توڑ دیا تھا اور یہی کچھ اب ہورہا ہے۔

ڈاکٹر ہدا لکھتی ہیں۔

فرقہ واریت، تنگ نظری اور تعصب کا زہر تو اب شام اور مشرق وسطیٰ میں کیا پوری دنیا میں پھیلا نظر آتا ہے۔ ملک کے دونوں بڑے فرقوں کی انتہا پسند قوتیں کچھ زیر زمیں اور کچھ بظاہر تھوڑا کھلی، تھوڑا ڈھنپی طرز پر سرگرم عمل ہیں۔ فروری کے اوائل میں بھی مراۃ النعمان اور دیر شرقی کے گردونواح میں بربریت کا مظاہرہ ہوا تھا۔ ترکی، ایران اور دیگر بیرونی طاقتیں سب کے ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ حادثے کی خبر سب سے پہلے ترکی نے ہی دی۔ بعد میں الجزیرہ نے نشر کی۔

حکومت نے احتجاج کیا۔ سیرین ملیشیاء کو باغیوں اور شرپسندوں کی سرکوبی کے طور پر ڈھانپا گیا۔ یہ امر بہرحال باعث اطمینان ہے کہ یہ بر گزیدہ ہستی دونوں فرقوں کے لیے متنازعہ نہیں۔ مگر ہمسایوں کی سیاستیں اور خود حکمران کی حماقتیں ان کا کیا رونا روئیں؟ متضاد خبریں ہیں۔ حکومتی سطح پر تردید اور اندر خانے سنگین صورت۔ ترکی تو گویا شام کی حکومت کی جڑیں کاٹنے کو ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ نصرہ ال فرنٹ اور کچھ دہشت گرد ٹولوں کی کارروائی جان پڑتی ہے۔ گردونواح اور مقبرے کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچنے کی خبریں ہیں۔ تاہم مقبرہ محفوظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments