احمد حسن دانی: زندگی کے مختلف راستوں کے متلاشی



یہ اتفاق تھا کہ 1997 میں، جب چکوال کے مقام پہ جانوروں کے قدیم ڈھانچے دریافت ہوئے، ہماری پرو فائل ڈوکو منٹری بھی اس شخصیت کے حوالے سے تھی، جنہیں دنیا بھر میں پاکستان کا ممتاز آرکیالوجسٹ، تاریخ دان اور ماہر لسانیات تسلیم کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں اعلی تعلیمی سطح پہ آرکیالوجی کو متعارف کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔

احمد حسن دانی سے جو لوگ آگاہ ہیں، وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ اپنے پیشے سے جنون کیا ہوتا ہے، یہ دانی صاحب میں بہ خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کا ایک عملی اظہار تو، ان کے گھر کے بیرونی حصے سے ہی ہوجاتا تھا، جہاں انھوں نے کار پورچ کی خاصی جگہ قربان کر کے اپنا سٹڈی روم بنا لیا تھا۔ وہ یہاں، تدریس سے بچا بیشتر وقت اپنے مطالعے اور دنیا بھر سے رابطے میں گزارتے تھے۔

دانی صاحب سے طے یہ پایا کہ چوں کہ وہ بھی چکوال میں ہونے والی دریافت میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنی علیحدہ ٹرانسپورٹ کی بجائے، پاکستان ٹیلیویژن کی گاڑی میں ہی سفر کریں گے اور یوں، ڈوکو منٹری اور نئی دریافت کے مقام کے جائزے کا کام، ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے گا۔

اس بات کے طے پاتے ہی ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی کہ ان کے، اسی سٹڈی روم میں کسی خاتون کی کال آئی جنہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ذی ٹی وی سے بات کررہی ہیں اور انھیں چکوال میں ڈھانچوں کی دریافت کے حوالے سے، اس مقام پہ ان کے تاثرات ریکارڈ کرنے ہیں۔ دانی صاحب کا جواب، ان کی شاستگی اور اپنی کہی بات پے قائم رہنے کی مثال کے طور پہ سامنے آیا۔ انھوں نے ان صاحبہ سے کہا کہ میں تو پاکستان ٹیلی وژن کو زبان دے چکا ہوں کہ میں ان کی گاڑی میں جاؤں گا، اس لئے اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا، آپ ان سے طے کر لیں۔ یوں یہ معاملہ ان کی فراست کی وجہ سے، بہ حسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔

دوران سفر احمد حسن دانی صاحب نے آرکیالوجی (علم آثار قد یمہ) سے اپنی بے پناہ دلچسی کی بڑی انوکھی وجہ بتائی۔ انھوں نے کہا کہ جب تقسیم سے پہلے ہم انڈیا میں سہارن پور میں رہتے تھے تو ہمارے علاقے میں جنگل تھا اور ہمیں اس سے گزر کے جانا ہوتا تھا۔ لوگوں کے مسلسل گزرنے کی وجہ سے وہاں ایک پگڈنڈی بن چکی تھی، جسے لوگ عموماً راستے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ دانی صاحب نے بتایا کہ انھوں نے کبھی وہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ وہ اس پگڈنڈی کو استعمال کرنے کی بجائے، ہر بار ایک نیا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔ خواہ وہ اس سے زیادہ طویل ہی کیوں نہ ہو۔ شاید یہ ہی وجہ ان کے آرکیالوجی کی طرف راغب ہونے کی بنی۔

کلر کہار میں دانی صاحب کے کچھ تاثرات کشتی پر بٹھا کر لئے جانے تھے۔ جو کشتی میسر آئی، اس کی حالت بہت اچھی نہیں تھی۔ ملاح کے علاوہ کیمرہ مین اور کیمرہ مین کے ہیلپر نے بھی اس پر سوار ہونا تھا۔ یوں دانی صاحب اور ان سب کے سوار ہونے کے بعد کشتی کا ہلنا جلنا خاصا غیر ہموار اور گبھرا دینے والا دکھائی دے رہا تھا، مگر حیرانی اس بات کی تھی کہ دانی صاحب کشتی کی اس نشیب و فراز سے یکسر نہ گھبرائے اور یکسوئی سے اپنے اظہار خیال میں مگن رہے۔

کشتی سے اتر کر انھوں نے اپنے اعتماد کی وجہ کچھ یوں بتائی کہ تدریس کے سلسلے میں، زندگی کے بہت سے سال وہ سابق مشرقی پاکستان میں بھی گزار چکے ہیں۔ جہاں کشتی روزمرہ کے استعمال میں شامل ہوا کرتی ہے۔ (سابق مشرقی پاکستان اور موجو دہ بنگلہ دیش میں بھی آرکیالوجی کو متعا رف کرانے کا اعزاز دانی صاحب ہی کے حصے میں آیا تھا) ۔

ہمارے سفر کا کچھ حصہ موٹر وے پر طے ہونا تھا جو تب بہت حد تک نا مکمل تھی، مگر اس ریکارڈنگ کے شیڈول میں اس ادھوری سڑک کو خصوصی طور پر اس لئے شامل کرنا ضروری تھا کیوں کہ دانی صاحب اپنی تحاریر اور تقاریر میں اس کے ممکنہ مستقبل سے بہت سارے امکانات اور توقعات کا اظہار کرتے رہے تھے۔ وہ اس حلقہ فکر میں شامل تھے جو اس شاہراہ کو وسطی ایشیا کو قریب لانے کا ایسا موثر ذریعہ تصور کرتا تھا جو، آنے والے دنوں میں، ان کے اندازے کے مطابق game changer کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

موٹر وے کے اس نامکمل حصے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، دانی صاحب کے لہجے میں موجود اعتماد دیدنی تھا، جیسے اس وقت، وقت کی قید سے نکل کر وہ، وہ کچھ دیکھ رہے ہوں جو ایک پر امید صاحب بصیرت اپنے خواب کو سچ ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ اس وقت وہ ماضی کھنگالنے والے تاریخ دان کی بہ جائے، مستقبل میں جھانکنے والے روشن خیال دکھائی دے رہے تھے۔

دانی صاحب، آج ہمارے درمیان موجود نہیں اس لئے یہ قیاس کرنا شاید مشکل ہو کہ اگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے تو موٹر وے کی موجودہ کیفیت اور کردار پر ان کی کیا رائے ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments