گڑیا گھر کے جھوٹ سے نجات کا وقت


مرد اور عورت!

اس کائنات کا اولین تعلق، اٹل حقیقت اور ابدی سچائی!

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ بپا طوفان نے کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ ایک روتی التجا کرتی آواز گونج رہی ہے،

” میں ایک عورت ہوں اور میں نے وہ کیا ہے جو ہر شادی شدہ عورت کرتی۔ اپنا گھر بچانے کے لئے، اپنے شوہر کو دوسری عورت کے چنگل سے چھڑانے کے لئے میں نے یہ سب کیا ہے “

ہم ہک دک سوچ رہے ہیں، کیا یہ بیانیه ایک عورت ہونے کے ناتے ہم پہ بھی منطبق ہوتا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہ ہماری عزت نفس کے لئے زہر ہلاہل کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے آپ سے سوال پوچھتے ہیں کیا واقعی ہر عورت اسی نہج پہ سوچ کر یہی کرنا چاہتی ہے؟ فرض کیجیے اگر ہم اس عورت کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟

ان سوالوں سے پہلے ایک اور سوچ در آئی ہے کہ کیا رشتوں میں بندھے انسان ایک دوسرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں یا ساتھی؟

حیدر میاں کو وڈیو گیمز کھیلتے برسوں گزر گئے۔ ہم نے ان کو دیکھتے دیکھتے سیکھ لیا کہ گو سکرین پہ کارنامے دکھانے والا کوئی اور ہے لیکن ورچوئل رئلیٹی کے تصور سے حیدر میاں سکرین کے اندر ہیں اور ہاتھ میں تھامے ریموٹ کنٹرول سے سب ناممکن کو ممکن بنائے چلے جا رہے ہیں۔ حیدر میاں کا تذکرہ یوں آیا کہ جی چاہا ہم بھی ورچوئل رئیلٹی سے کام لے کے ان دو سوالوں کا جواب تلاش کریں پہلا وہ جو ان خاتون نے فریاد کرتے ہوئے سب شادی شدہ خواتین سے کیا ہے اور دوسرا وہ جو ہماری خودکلامی کے نتیجے میں شعور کی سطح پہ ابھر آیا ہے۔

تو چلیے، وہ شادی شده خاتون جو تیرہ برس سے نکاح کے نام سے ایک معاہدے کے تحت ایک چھت کے نیچے ایک مرد کو شوہر کے روپ میں قبول کر کے زندگی بتا رہی ہے، خودکلامی کے عالم میں کچھ سوچ رہی ہے،

“ تیرہ برس پہلے ہم تم ایک معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھ بنے۔ ایک ایسا کاغذ کا ٹکڑا جس پہ ہم دونوں نے امنگوں بھرے دل اور خواب بھری آنکھوں کے ساتھ دستخط کیے۔ زندگی کی طویل شاہراہ پہ ہم دونوں کو ساتھ چلنا تھا، ایک دوسرے کے ہمدم، رفیق اور ساتھی کے روپ میں!

تیرہ برس بیت گئے ایک چھت تلے، بہت سے سرد و گرم اکھٹے دیکھے۔ برسات کی جھڑی اور بہار کی دل کشی، خزاں کی اداسی اور گرما کے طویل دن، چاندنی راتوں کی فسوں کاری، اور سرما کی سرد راتیں۔ ہم روئے بھی اور ہنسے بھی، ناراضگی بھی اور من جانا بھی، لیکن ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھا۔

لیکن نہ جانے کیسے پھر اماوس کی رات آگئی۔ تمہاری گرم جوشی سرد مہری میں بدلنے لگی۔ تمہارے ہاتھ میں میرے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور میری تنہائی بڑھنے لگی۔ تمہارا وقت میرا نہ رہا۔ تم سے بارہا پوچھنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں ملا۔ اور ایک دن مجھے علم ہو ہی گیا۔ تمہارے دل میں کوئی اور مکین آ ٹھہرا تھا، تم رستہ بدلنے کے متمنی تھے۔ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور کی چھت پہ برسنے کو بے تاب تھیں۔ جی چاہا کہ ہر چیز تہس نہس کر دوں، مٹا ڈالوں صفحہ ہستی سے ہر نقش۔ کیسے جرات ہوئی اس اجنبی کو، جس نے میرے گھر میں سیندھ لگا ڈالی۔ وہ اگر ایسا نہ کرتی تو میرا شوہر مجھ سے بے وفائی کیوں کرتا؟

کیا کروں؟ کیسے کروں؟

سوچ لیا میں نے، میں بچاؤں گی اپنے گھر کو، ہر قیمت پہ۔ میں نشان عبرت بنا دوں گی اس کلمونہی کو۔ منہ نوچ ڈالوں گی اس کا۔ ہر عورت یقیننا ایسا ہی کرے گی”

کھیل کے اس کردار نے اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے اور اب ہماری باری ہے کچھ کہنے کی،

” ارے بی بی! کچھ ہوش کے ناخن لو۔ یہ شوہر ہے یا پالنے میں پڑا دودھ پیتا بچہ؟ جو تم ذرا ادھر ادھر ہوئی نہیں اور وہ کسی اور کی گود میں جا بیٹھا۔ ارے کیا ممتا کی ماری ہو جو اس معصوم کا کیا دھرا تمہیں نظر نہیں آتا۔

معاف کرنا، وہ انوکھا لاڈلا، کیا ڈگڈگی کا بندر ہے؟ ڈگڈگی بجی نہیں اور وہ گھر سے باہر، اور تم اس کی خبر لینے کی بجائے دوسروں پہ چڑھ دوڑنا چاہتی ہو۔

بی بی! کچھ تو عورت کا وقار قائم رکھو،اپنی عزت نفس کا سوچو۔ عورت اتنی گری پڑی شے نہیں ہوا کرتی کہ منہ پھیر کے جانے والے کے لئے اپنے مقام سے نیچے اتر کے جوتیاں چٹخاتی پھرے۔

کسی گھر میں اگر گھر کے مالک کی مرضی سے نقب لگے، بلکہ یوں کہیے کہ گھر کے دروازے کی کنڈی کھولنے والا خود مالک ہو تو قصور کس کا؟ آنے والے کا یا کنڈی کھولنے والے کا؟

کیا خیال ہے تمہارا؟ کیا اس شور و غوغا کے بعد وہ تمہارا بن جائے گا ؟ آج اگر اس کو کان سے پکڑ کے واپس لے بھی آئیں تو کیا اس کا دل کسی اور کے لئے نہیں ہمکے گا؟

ایک بات جان لو! جو آج تمہارا نہیں، وہ کل بھی تمہارا نہیں!

محبت بندوق کی گولی دکھا کے نہیں کروائی جا سکتی۔ محبت زبردستی کا سودا نہیں، محبت جگ ہنسائی نہیں مانتی۔ محبت اپنے آپ کو ارزاں کرنے کا نام نہیں!

سنو، وہ جو دوسری عورت ہے نا، اس کا کیا دوش؟ اس کا ہاتھ تمہاری زندگی کے نام نہاد ساتھی نے پکڑا ہے، جو آج نہیں تو کل کسی اور کا ہاتھ پکڑے گا۔ کس کس سے ہاتھ چھڑواؤ گی تم؟

سنو، یہ جو بندھن کی کہانی ہے نا یہ دو انسانوں کے بیچ بندھا تھا۔ دو باشعور مرد و عورت نے عہد و پیماں کی زنجیر میں خود کو محصور کیا تھا۔ ہمراہی کی اس داستان پہ چھت دونوں نے مل کے ڈالی تھی۔ گھر کی بنیادیں سچائی اور رفاقت سے بھری گئی تھیں۔ گھر کی بنیادوں کی حفاظت اور شادی شدہ زندگی کا بھرم قائم رکھنا تم اکیلی کی نہ ذمہ داری ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کیا ستی ہونے کا ارادہ ہے شوہر کے تعاقب میں؟

نہ وہ تمہاری مٹھی میں قید ہے اور نہ ہی تمہارا مالک۔ زندگی میں جھوٹ اور دھوکے کی ملاوٹ کرنا چاہتا ہے تو بند کر لو اپنے گھر کے دروازے۔ اپنا سر بلند کر کے جیو۔ اپنے آپ سے محبت کرو اور اپنی ذات کا غرور قائم رکھو۔ اپنا آسمان خود تخلیق کرو کسی پرندے کی سی آزادی اور افتخار کے ساتھ۔

قصور تمہارا بھی نہیں! تم تو پدرسری معاشرے کی اس سوچ کی آئینہ دار ہو جہاں مرد کی ہر حرکت کا بوجھ عورت کے نازک کندھوں پہ رکھ دیا جاتا ہے۔ بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھتے خریدار مرد کے حصے میں کبھی رسوائی نہیں آتی، جسے کسی مقام پہ عشوے غمزے دکھاتی عورت چاہیے اور کسی مقام پہ پاؤں سے جوتے اتارتی، دکھ بھرے آنسو بہاتی، انصاف کی طلبگار ستی ساوتری!

بی بی! جان لو تمہارے ہاتھ میں گریبان ہونا چاہیے لیکن اس کا جو تمہیں اس مقام پہ لے آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments