روشن کردار کے حامل استاد: چوہدری فضل کریم



دل کو باتیں جو ان کی یاد آئیں
کس کی باتوں سے دل بہلائیں

بہترین سماج کی تشکیل کے لیے بہترین نظام تعلیم ناگزیر ہے۔ نظام تعلیم میں خود تعلیم کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور نصاب تعلیم اس نظام کے مقاصد کی تکمیل کا تحریری ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ متعلم کی شخصیت پر سب سے قوی اور فوری اثر نہ نظام تعلیم سے مرتب ہوتا ہے اور نہ نصاب سے۔ اس جادو کا سرچشمہ استاد کی ذات ہے۔ کوئی بھی انسان بالخصوص نوخیز انسان جس قدر گہرا اثر خود انسان سے قبول کرتا ہے ایسا اثر وہ کسی اور ذریعے سے قبول نہیں کرتا اور انسانوں میں متاثر کرنے کا کام شعوری طور پر استاد ہی انجام دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے متحرک معاشروں میں استاد کو ایک ممتاز و محترم مقام حاصل ہے۔ میری یادوں کی پٹاری میں بھی بہت سے اساتذہ کی یادوں کے چراغ روشن ہیں انہی میں سے ایک صاحب فضل استاد گورنمنٹ ہائی سکول کڑیانوالہ کے ہردلعزیز سائنس ٹیچر چوہدری فضل کریم صاحب بھی ہیں۔ میں سکول کی ہم نصابی سرگرمیوں کا فعال ممبر تھا اور کلاس روم میں بھی میرا شمار اچھے طالبعلموں میں ہوتا تھا اسی لیے نویں جماعت میں پہنچے تو لائق بچوں کے گروپ کے طور پر ”بڑی سائنس“ کا انتخاب کیا۔

سکول میں سائنس کا پیشہ ور استاد نہ ہونے سے سائنس کے مضامین پر تجرباتی مشق جاری تھی طرفہ تماشا یہ کہ ہمارا اندروں بھی بڑی سائنس کے مضامین کے حوالے سے تاریک تر تھا۔ تذبذب میں ہی تھے کہ کیا کریں۔ کہ ان دنوں سکول میں یکے بعد دیگر دو منفرد مزاج اساتذہ کی آمد ہوئی ایک انگریزی کے ٹیچر محترم صفدر صاحب تھے اور دوسرے سائنس ٹیچر چوہدری فضل کریم، دونوں دراز قد ہی نہ تھے بلند کردار بھی تھے اور خوش گفتار بھی۔ ان دو ہستیوں کی ان برسوں میں گورنمنٹ ہائی سکول کڑیانوالہ آمد، میرے جیسے متوسط اور مایوس ہوتے طالبعلموں کے لیے ایسے ہی رہی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ جائے۔

پہلے دن کے کلاس تعارف کے بعد سے تدریسی کام تواتر، ترتیب اور اس انہماک سے شروع ہوا کہ تعلیمی نظم و ضبط اور تعلیم و تربیت کے حسین امتزاج نے ہمارے اندر کامیابی کا یقین پیدا کرنا شروع کر دیا۔ آج کی جدید تدریسی اصطلاح میں بات کی جائے تو چوہدری فضل کریم و صفدر صاحب نے ہمیں پہلے فکری موٹیویشن کے ذریعے پڑھنے کی طرف راغب کیا اور پھر آگے بڑھنے کے لیے نصابی تدریس کے زینوں پر چلنا سکھایا۔ ہلکے پھلکے انداز میں بھاری بھرکم گفتگو اور مطالعے کے سلیقے اور طریقے بیان کرنا چوہدری فضل کریم صاحب کا خاصہ تھا۔

وہ اپنے طالبعلموں کو ”باؤ جی“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ وہ یہ بات اتنے لطیف انداز میں کرتے کہ ان کا طنز بھی ہمیں مستقبل کا باؤجی بننے کا خواب دکھانے لگتا۔ سائنس کے مضامین پر مہارت کی وجہ سے وہ مشکل باتیں آسان فہم بنا کر پیش کرتے تھے اور اس فہم کو میاں محمد بخش، علامہ اقبال اور مولانا روم کے اشعار و اقوال کا تڑکا لگا کر ہماری دانش کا حصہ بنا دیتے تھے۔ ان کی پراثر خوش گفتاری ان کا خاصہ تھی۔ سائنس کی کلاسوں سے سائنس کی لیبارٹری تک وہ ہمارے ٹیچر، مینٹور اور راہبر تھے۔ ہر طالبعلم ان کے شخصی اوصاف کا گرویدہ اور ان کی تدریسی مہارتوں کا مداح تھا۔ وہ ایسے استاد تھے کہ آج لگ بھگ چھتیس سینتیس سال بعد بھی قلب انہیں استاد کہتے ہوئے تفاخر سے مسرور و شاداں اور ان کے لیے دعاگو ہے۔

چوہدری فضل کریم موضع بارو کی ممتاز شخصیت چوہدری نیاز علی پٹواری کے بڑے صاحبزادے تھے۔ نیاز علی 07 نومبر 1909 ء بارو میں پیدا ہوئے 1926 ءمیں گورنمنٹ مڈل سکول اجنالہ سے مڈل کا امتحان پاس کرکے ضلع بھر میں اول رہے۔ 1930 ءمیں گورنمنٹ زمیندارہ ہائی سکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد پٹوار کا کورس کیا اور محکمہ مال میں ملازمت اختیار کرلی اور شعبہ اشتمال سے وابستہ ہوگئے ان کے دو بیٹے تھے فضل کریم اور محمد اقبال۔

چوہدری نیاز علی نے ملازمت کے ساتھ اپنے بیٹوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی اور دونوں کو اعلیٰ تعلیمی اسناد سے آراستہ کیا۔ چوہدری فضل کریم 12 دسمبر 1944 ء کو بارو میں ہی پیدا ہوئے انہوں نے 1960 ء میں گورنمنٹ پبلک ہائی سکول نمبر 1 سے میٹرک پاس کرنے کے بعد 1962 ء میں زمیندار کالج گجرات سے ایف ایس سی کیا اور پھر اسی کالج سے 1965 ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور اگلے سال 1966 ءمیں بی ایڈ کا اضافی امتحان بھی پاس کر لیا اور 08 نومبر 1966 ء سے محکمہ تعلیم پنجاب سے منسلک ہو کر گورنمنٹ سکول مکھن وال تحصیل پھالیہ میں بطور ایس ایس ٹی ملازمت کا آغاز کیا۔

دوران ملازمت ہی اپنے اعلیٰ تعلیم کے شوق اور ذوق کو سینچا اور 1970 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات، 1972 ء میں ایم اے اردو، اور 1974 ءمیں ایم اے پنجابی کے امتحان پاس کیے۔ انہیں انگریزی، اردو پنجابی کے ساتھ فارسی پر بھی دسترس حاصل تھی۔ سائنس کا استاد ادب دوست ہو اور ذوق مطالعہ کا حامل بھی ہو تو تدریس دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ 06 مئی 1976 ء کو ان کے والد نیاز علی پٹواری وفات پاگئے۔ اس کے بعد آبائی گاؤں میں ان کی ذمہ داریاں بڑھنے لگیں اور وہ آہستہ آہستہ اپنے علاقہ میں ٹرانسفر کے لیے آمادہ ہونے لگے اور بالآخر 1983 ءمیں وہ ٹرانسفر ہو کر کڑیانوالہ ہائی سکول آئے تو کم عرصے میں اپنی علم دوستی کی بدولت سب سے زیادہ مقبول استاد بن گئے۔

نویں دسویں کے دو سال اساتذہ کی خاص توجہ کے سال ہوتے تھے۔ فضل کریم صاحب نے آتے ہی جب چھٹی کے بعد ایکسٹرا کلاسز لینے کا اعلان کیا تو میرے جیسے کئی بچے فکرمند ہوئے کہ ایکسٹرا کوچنگ کی ٹیوشن فیس کون دے گا۔ چند دنوں بعد انہوں نے شام کی ایکسٹرا کلاسز کے ساتھ صبح سکول لگنے سے پہلے زیرو پیریڈ میں آنے کا حکم صادر فرمایا تو پریشانی لاحق ہوئی لیکن مہینوں گزر گئے انہوں نے ٹیوشن فیس کا تذکرہ تک نہیں کیا بلکہ الٹا ہماری تحسین کرتے کہ ہم ایکسٹرا وقت میں آتے ہیں۔

گرمی و سردی اور خشک موسم یا بارش وہ وقت پر پہنچ آتے۔ فضل کریم صاحب کی لگن اور استقامت قابل قدر اور مثالی تھی۔ اچھے استاد کی نشانی ہے کہ وہ مطمئن ہو اور اس کی عزت نفس محفوظ ہو۔ ٹیچنگ محض نصاب رٹوانے کا نام نہیں بلکہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں استاد کی شخصیت، اس کا وقار، اس کی علمیت، اس کا اپنے پیشے سے آزادانہ شغف مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ عمل تدریس بلاشبہ عزت نفس اور ایک خاص احساس وقار و تفاخر کے بغیر ممکن نہیں۔

میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ سر، آپ ٹیوشن فیس کیوں نہیں لیتے تھے؟ کہنے لگے استاد ہوس کی بجائے قناعت کا علمبردار ہوتا ہے۔ عام آدمی افراط زر کی ہوس کا اسیر ہوتا ہے اس لیے عقلمند آدمی دولت اکٹھی نہیں کرتے۔ میں ان کی بات سن کر مزید گرویدہ ہو گیا کہ دولت کے بغیر خوش رہنا آ جائے تو انسان زندہ رہ کر جینا سیکھتا ہے۔ ایسے لوگ مجھے اندر سے فتح کر لیتے ہیں۔ فضل کریم صاحب مطمئن نفس کے حامل صاحب شکر انسان تھے۔

عزت نفس نے انہیں خود اعتماد بنا رکھا تھا۔ وہ اچھے استاد ہونے کے ناتے طالبعلموں میں بھی خوداعتمادی بانٹا کرتے تھے۔ خود اعتمادی تقسیم کرنے کے لیے پہلے استاد کے پاس ہونا لازمی ہے۔ خود اعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کی جرأت پیدا کر سکتا ہے۔ وہ ہمارے محبوب استاد تھے۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کا ”محبوب“ ہی تو ہوتا ہے۔ استاد کا انداز حیات، اس کی گفتار و کردار طالبعلموں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ فضل کریم صاحب اچھے استاد کی مختلف تعریفوں اور معیار پر ہر طرح پورے اترتے تھے۔

ہمارے میٹرک کرنے کے دو سال بعد ہی وہ سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ پروموٹ ہو کر 25 نومبر 1986 ء کو گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹانڈہ چلے گئے اور بعد ازاں اپنے گاؤں بارو کے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ اور وہیں سے اپنی مدت ملازمت پوری کر کے 11 دسمبر 2004 ء کو ریٹائر ہوگئے۔ شعر و ادب سے انہیں خاص شغف تھا۔ میاں محمد بخش کی سیف الملوک اور علامہ اقبال کے اشعار انہیں خوب یاد تھے وہ تدریسی اور نجی محفلوں میں ان اشعار کے برجستہ استعمال سے محفل لوٹ لیا کرتے تھے۔

شنید ہے کہ خود بھی پنجابی میں شعر کہتے تھے بلکہ مبینہ طور پر ان کی پنجابی شاعری کی غیرمطبوعہ کتاب کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ اچھا استاد ہمیشہ طالبعلم رہتا ہے اور نئی روشنی کو اپنانے والا ہوتا ہے۔ چوہدری فضل کریم بھی زندگی بھر پڑھانے کے ساتھ پڑھنے کے شوق کے دلدادہ رہے۔ حسن کردار کے مالک اور صوم و صلوٰۃ کے پابند سچے عاشق رسول ﷺ اور اولیاءاللہ سے محبت رکھنے والی شخصیت کی شہرت رکھتے تھے۔ بلا کا حافظہ اپنے پرانے طالبعلموں کو ان کی آوازوں سے پہچان لیتے تھے۔

جب بھی ملتے شفقت و محبت سے کامرانیوں کی دعاؤں سے نوازتے تھے۔ وہ آخری وقت تک متحرک اور فعال زندگی گزارتے رہے۔ آخری سال بیماری کو بھی خوش دلی سے جھیلا اور 31 دسمبر 2019 ء کا آخری سورج طلوع ہونے سے قبل زندہ دل استاد کی زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔ اور 31 دسمبر 2019 ءبروز منگل دوپہر سوا دو بجے ان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں علمی، ادبی، علاقائی، سیاسی و سماجی شخصیات اور ان کے فیض یافتہ شاگردوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔ انہیں پروردگار جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

چھوڑ جائیں گے کچھ ایسی یادیں
روئیں گے ہم کو زمانے والے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments