ساٹھ ہزار برس سے ایک جزیرے پر الگ تھلگ رہنے والا ہندوستانی قبیلہ


بحر ہند میں خلیج بنگال سے نیچے ’انڈیمان‘ اور ’نکوبار‘ جزائر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے شمالی ’سینٹینلی‘ جزیرہ کہا جاتا ہے۔ اس جزیرے میں ایک ایسا قبیلہ رہتا ہے کہ جو کہ آج کے دن تک باقی دنیا سے بے خبر ہے۔ یہ جزیرہ بھارت کا حصہ ہے اور آزادی سے قبل برطانوی راج اور کمپنی راج کے دنوں میں اس جزیرے کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی بڑی کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے یہاں سے چار بچے اور دو بڑی عمر کے افراد اغوا کر لیا تھا۔

بڑی عمر والے دو دن میں ہی مر گئے تو انگریزوں نے جلدی سے بچوں کو واپس ان کے جزیرے پر چھوڑ دیا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس جزیرے کے باسی کیونکہ ہزاروں سال سے باقی دنیا سے الگ رہ رہے ہیں اس لیے ان کے جسم میں دیگر انسانوں کی بیماریوں کی مدافعت موجود ہی نہیں۔ وہ تو زکام سے بھی مر سکتے ہیں اور اسی لئے اس قبیلے سے میل جول کی کوششوں پر نوے کی دہائی میں ہندوستان نے پابندی لگا دی۔

ویسے اس جزیرے کے لوگ عموماً باہر سے آنے والوں کا استقبال تیروں اور نیزوں سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ شکار اور جنگلی پھلوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ مچھلی کے شکار کے لئے ان کے پاس کشتیاں بھی ہیں۔ یہ سیاہ فام لوگ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق کم و بیش ساٹھ ہزار سال قبل اس جزیرے میں آباد ہوا۔ ان کا تعلق افریقہ سے بتایا جاتا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق یہ ان پہلے انسانی گروہ سے متعلق ہیں جو کہ افریقہ سے باہر نکلا۔

خیر یہ سب تو قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ دنیا تو یہ بھی نہیں جانتی کہ اس جزیرے کے باسیوں کی کل تعداد کتنی ہے؟ دنیا میں کوئی بھی انسان ان کی زبان بھی نہیں بول سکتا۔ اس ننگ دھڑنگ قبیلے کے لوگ عموماً اپنے جسم پر انسانی جبڑے کی ہڈیاں باندھ کر رکھتے ہیں اور جسم پر خنجر ایک رسی سے بندھا ہوتا ہے۔ دنیا تو یہ بھی نہیں جانتی کہ ان لوگوں کا مذہب کیا ہے؟ بس ان لوگوں کو یا تو باہر سے آنے والوں پر تیر چلاتے دیکھا گیا ہے یا پھر ساحل پر ناچتے یا مچھلیوں کا تیر اور بھالے سے شکار کرتے۔

آج سے تین سال قبل ایک عیسائی مشنری کو یہ خیال آیا کہ اس قبیلے تک بھی یسوع کا پیغام پہنچایا جائے اور وہ اس جزیرے پر پہنچ گیا۔ اس پر قبائلیوں نے حملہ کر کے اس کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ اس سے قبل اگر انسان بڑی جمعیت سے اس جزیرے میں گھسے ہی تو اس قبیلے کے لوگ اپنے جھونپڑے چھوڑ کر اس جنگل میں اندر کہیں چھپ جاتے ہیں۔ اسی طرح باقی دنیا نے ان جھونپڑوں اور ان کے مکینوں کی معاشرت اور ان کے رہن سہن کے بارے میں چند اندازے قائم کیے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی ٹوکریاں اور نیزے وغیرہ اسی طرح دنیا کی نظروں میں آئے ہیں۔

مگر ہم اس چھوٹے سے قبیلے کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ دراصل اس قبیلے کے بارے میں غور کرنے سے انسانی تہذیب اور انسانی نفسیات کے بہت سے رخ عیاں ہوتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانوں کا ایک قبیلہ ایک دور افتادہ جزیرے میں نیم برہنہ رہتا ہے، جنگلوں سے پھل پات توڑ کر کھا لیتا ہے، تھوڑا بہت شکار کر لیتا ہے اور جھونپڑوں میں ہزاروں سال سے پڑا ہے۔ کیوں ان لوگوں کا کبھی سجی کھانے کا دل نہیں چاہتا، کبھی ان کا بریانی یا برگر کھانے کا دل نہیں چاہتا؟

کیوں ان کے یہاں کوئی ’کرسٹوفر کولمبس‘ نہیں پیدا ہوا؟ کوئی ’مارکو پولو‘ نہیں پیدا ہوا؟ کوئی ’ابن خلدون‘ نہیں پیدا ہوا؟ کوئی ’چنگیز خان‘ پیدا نہیں ہوا؟ بلکہ کوئی ’حسن نثار‘ ، کوئی ’پروفیسر عطا الرحمن‘ ، کوئی ’مستنصر حسین تارڑ‘ بھی پیدا نہیں ہوا؟ یہ کیسا قبیلہ ہے کہ جس کے پاس گاڑیاں نہیں، گھوڑے نہیں، بلکہ پہیہ بھی نہیں۔ اور چلو یہ سب نہیں تھا مگر یوٹیوب بھی نہیں، نیٹ فلکس بھی نہیں، اور پورن فلمیں بھی نہیں۔

یہ کیسا جزیرہ ہے کہ جہاں پر تجارت بھی نہیں، زراعت بھی نہیں۔ جہاں کوئی سٹی بینک کی برانچ نہیں اور کوئی اسکول اور جامعہ بھی نہیں۔ ان چیزوں اور اداروں کے نہ ہوتے ہوئے بھی یہاں کے باسی ایک اندازے کے مطابق ساٹھ ہزار سال سے جی رہے ہیں اور اپنی رسمیں، اپنی زبان اور اپنی معاشرت بھی اپنی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔ اردو زبان تو بدل کر کچھ اور بن رہی ہے، سندھی بدل رہی ہے، پنجابی بدل رہی ہے اور دنیا کی انگنت زبانیں بدل رہی ہین مٹ رہی ہیں مگر ’سینٹینلی‘ کی زبان قائم ہے۔

یہاں کے باسیوں کو بیرونی دنیا کی زبان نہیں آتی مگر باہر سے آنے والوں کو تیروں سے ہلاک کر کے وہ یہ پیغام دے چکے کہ ہمیں باہر والوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک چھوٹے سے جزیرے کے باشندوں کو باہر والوں سے کچھ نہیں چاہیے مگر باہر والوں کو اس جزیرے میں گھسنے کی خواہش ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں، بلکہ تن ڈھانپنے کے کپڑے تک نہیں ان کو جدید دنیا سے کچھ بھی نہیں چاہیے اور جن کے پاس سب کچھ ہے وہ اس جزیرے کو فتح کرنے کے خواہشمند رہے ہیں۔ اور فتح نہیں بھی کرنا تو بھی ان کو جاننے کا تجسس ہے۔ مگر اس جزیرے کے لوگوں کو نہ دنیا فتح کرنی ہے نہ اس کے بارے میں کچھ جاننے کی تمنا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اس جزیرے کے لوگوں کو نہ ’کانٹ‘ کی ضرورت ہے نہ نطشے ’کی نہ‘ ہیگل ’کی نہ‘ مارکس ’کی۔ ان کو یسوع کا ترانہ پڑھنے والے مشنریوں کی کوئی خواہش ہے نہ ہی دنیا کے کسی اور دین، دھرم کی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آج جب ساری دنیا کرونا وائرس سے لڑ رہی ہے تو اس جزیرے کے لوگ محفوظ ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ یہ جانتے بھی نہیں کہ دنیا ان کو بھارت کا حصہ مانتی ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دنیا انہیں‘ سینٹینلی ’کہتی ہے۔

پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی معالج کی بھی کوئی ضرورت نہیں پڑتی؟ یعنی فرائیڈ، یونگ، ایڈلر، فرام وغیرہ بھی سب غیر ضروری ہیں۔ میں سوچتا ہوں سارے ایم بی اے یافتہ لوگوں کے پسندیدہ ابراہم میسلو صاحب کو اگر صرف یہی ایک قبیلہ دے کہ کہا جائے کہ اپنی Need Hierarchy کو اس قبیلے پر لاگو کریں تو وہ کیا مثالیں دے گا؟ کیا اس کا نظریہ پھر بھی تمام انسانیت کی ضروریات کے بیان کا دعویٰ کرسکے گا؟

فرائیڈ شعور اور لاشعور کے بیان میں شعور کی مثال دیتے ہوئے اسے آئس برگ کا سرا قرار دیتا ہے اور لاشعور کو آئس برگ کا زیر سمندر حصہ۔ شعور، لاشعور سے بیگانہ ہے۔ شعور میں ضمیر نے اپنی چوکی جمائی ہے۔ یہاں لاشعور سے ناپسندیدہ خواہشات شکل بدل بدل کر نکلتی ہیں تو ضمیر انہیں دہکا دے کر دوبارہ لاشعور میں پھینک دیتا ہے۔ شعور کو لاشعور کی وسیع جائیداد سے کوئی دلچسپی نہیں اس کے پاس ضمیر ہے۔

فرائیڈ کی بنائی اس تمثیل میں ’سینٹینلی‘ جزیرے کے باشندے لاشعور نہیں، شعور معلوم ہوتے ہیں۔ ضمیر بھی وہی ہیں۔ ویسے بھی سینٹینلی لوگوں نے نہ تو کروڑوں ’ریڈ انڈینز‘ کا قتل عام کیا ہے نہ ہی کانسنٹریشن کیمپ بنائے ہیں، نہ ہی اوزون کی سطح میں شگاف ڈالا نہ ہی کبھی کاربن کے بادل چھوڑے۔ سینٹینلی لوگ ’شعور‘ ہیں اور جب کوئی مشنری وہاں اپنی تہذیب پھیلانے داخل ہوتا ہے تو وہ تیروں سے اس کا صفایا کردیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ باہر کی تہذیب اور جراثیم ان کے لئے قابل برداشت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت پر پچھلے ساٹھ ہزار سال سے قائم ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments