فیر آیا جے غوری


علامہ اقبال کی ایک نظم ہے ”ایک پہاڑ اور گلہری“ ۔ یہ نظم علامہ اقبال کی کتاب ”بانگ درا“ میں درج ہے۔ بانگ درا کا اسلوب ”بال جبریل“ سے خاصا مختلف ہے۔ دوسرا یہ نظم علامہ اقبال نے ایمرسن سے متاثر ہو کر لکھی یعنی ماخوذ از ایمرسن ہے۔ یہ نظم پہاڑ اور گلہری کے درمیان مکالمہ ہے جس میں پہاڑ گلہری کو اس کی چھوٹی جسامت کا طعنہ دیتا ہے۔ اپنی آن بان شان بڑائی بیان کرتا۔ اس کے جواب میں گلہری اس سے مرعوب نہیں ہوتی بلکہ اس کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی ہے۔

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

اس کے بعد گلہری پہاڑ کو سمجھاتی ہے ہر ایک چیز کی اپنی افادیت اہمیت اور مقصدیت ہے۔ مالک کے ہر ہنر میں حکمت ہے۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں!
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ایک شخص نیا نیا بادشاہ بنا تھا۔ طبیعتاً تو وہ پہلے ہی بادشاہ تھا مگر تخت اسے بڑی محنت و مدت کے بعد ملا تھا۔ یار لوگوں کا کہنا تھا اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ بیشتر لوگ اسے نا تجربہ کاری کا طعنہ دیتے اسے چھوٹا کہتے بلکہ چھوٹا سمجھتے۔ ان کا کہنا تھا جنہوں نے ایسے بادشاہ بنایا ہے وہ پچھتائیں گے۔ مگر وہ بادشاہ سب سے کہتا آپ نے گھبرایا نہیں۔ لوگ پہلے بھی اس کا ٹھٹھا اڑاتے تھے اور بعد میں بھی مگر اس نے بڑی قلیل مدت میں نئی وزارتیں ایجاد کیں نئے ادارے تخلیق کیے۔ وہ بادشاہ بڑا ویژنری تھا اور پہلے دن سے اس کا کہنا تھا ملک تب ہی بنے گا جب ادارے بنیں گے۔ جو نئے ادارے تخلیق ہوئے اور نئی وزارتیں ایجاد ہوئیں ان کا ذکر ذیل میں آئے گا۔

ادارہ برد برد۔ یہ ادارہ اصل میں دریا برد سے ماخوذ تھا۔ یہاں ادارہ برد برد سے مراد کیے کرائے پہ پانی پھیرنا یا مٹی ڈالنا ہے۔ اس ادارے کا کام پانچ دریاؤں والی سرزمیں پہ حکمرانی تھی۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین سونے کی چڑیا تھی۔ کئی لوگوں کی اس پہ رال ٹپکتی تھی۔ سینکڑوں لوگوں کی حسرت تھی انہیں یہاں کا والی و نگران مقرر کیا جائے۔ یہ منصب اور ادارہ اپنے نام کی طرح بردبار اور دھیمے مزاج کے سائیں آدمی کو عطا ہوا جو ہر وقت سیکھتا رہتا۔

کیا سیکھتا رہتا اس بارے میں راوی اور قاری دونوں خاموش ہیں۔ بہرحال چونکہ یہاں پانچ دریا تھے اس لیے اس والیٔ ادارہ کا کام ہر اچھائی کو دریا برد کرنا تھا۔ پچھلی حکومتوں کے ترقیاتی کام، محنت، منصوبے، انتظامی امور، سب کچھ اس نے دریا برد کر دیے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی حکومت کی نیک نامی کارکردگی اور مستقبل بھی برد برد کر دیا۔

اگلی وزارت یا ادارہ تھا خرد برد۔ سب سے زیادہ بھرتی اس ادارے میں ہوئی اس ادارے کا کام تھا داؤ لگانا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور خرد برد کرنا۔ سابقہ حکومتوں کے نا اہل اس ادارہ میں آکر اہل ہوئے بلکہ اہل کار خاص۔ اس ادارے کے لوگوں نے بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ کسی کو یہ کام وزارت صحت میں بیٹھ کرنا پڑا۔ کچھ لوگ خوراک و زراعت میں یہ کام کرتے پائے گئے۔ کسی نے ہوا بازی میں ہاتھ دکھایا۔ باقی جس کا جتنا ہاتھ پڑا کسی نے گھی، آٹا، چینی، پانی بجلی، تیل پٹرول وغیرہ جہاں جس کا بس چلا اس نے ادارۂ خرد برد کے ترقی و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس کے بعد جو تخلیق ہوئی وہ تھا ادارۂ برد خرد۔ ادارہ برد خرد سے مراد بربادی کی روک تھام لیا جائے۔ اس ادارے والوں کا کام تھا محنت کرنا۔ خرد برد اور بے ایمانی کی روک تھام۔ عوام کی فلاح و بہبود وغیرہ۔ اس ادارے کو اک عورت چلاتی تھی۔ سمجھئے اپنے وقت کی ثانیہ نشتر۔

اس کے بعد باری آئی ادارہ چوں چوں چرد برد کی۔ ادارہ چوں چوں چرد برد شاید چڑیوں کی لڑائی سے ماخوذ تھا۔ ادارہ چوں چوں چرد برد کا کام ہر بات پہ چر چر کرنا تھا۔ ویسے تو یہ میڈیا اور اطلاعات و نشریات کا محکمہ تھا مگر اس محکمہ میں اتنی چوں چوں چر چر ہوئی کے الحفیظ الامان۔ یہ ادارہ اک سیالکوٹی ڈاکٹرنی کے پاس بھی رہا۔ کئی وزیر چاہتے تھے اپنے شور سے بادشاہ کی توجہ حاصل کر لیں۔ جن کو زیادہ چر تھی وہ اس پہ زیادہ چوں چوں چر چر کرتے۔

ریلوے اور سائنس کے وزیر کی نظر بھی اس ادارہ پہ تھی مگر ان کو کھڈے لائن لگادیا گیا۔ مگر وہاں بیٹھ کر بھی دونوں وزیر ہر وقت چوں چوں چرد برد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ کہیں پتہ بھی ہلتا تو چوں چوں چرد برد شروع کردیتے۔ جس طرح چڑیا کے سامنے آئینہ رکھ دیا جائے تو چوں چوں کر کے لڑائی شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح محکمہ اطلاعات پہ سیالکوٹ، پنڈی اور جہلم کی اتنی چوں چوں ہوئی وہ محکمہ چوں چوں چرد برد بن گیا۔

حاصل وصولیٔ خرد برد نامی احتساب کا اک ادارہ بھی ازسرنو فعال کیا۔ ویسے تو اس ادارے نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ مگر اس ادارے کا سربراہ جب بھی کسی خوبرو سائل کو دیکھتا اسے سر سے لے کر پاؤں تک چومنا چاہتا۔ دوسرا اگر کوئی شخص کوئی سیاست دان حکومت کو تنگ کرتا اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا یہ ادارہ اسے خبردار کرتا اور کہتا۔ لو فیر آیا جے غوری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments