باؤلی


”چل نکل ادھر سے۔ کمبخت ماری، نیستی، بدبخت“
”چلی جاؤں گی جی۔ ۔ ۔“
”کب جائے گی؟“
”بس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھنے دیں۔“
”تیری تھوڑی دیر تو گھنٹوں میں بھی ختم نہیں ہوتی۔“
”میں بس ایک گھنٹے کے لیے بیٹھوں گی۔“
”ایک گھنٹہ کیا ایک منٹ بھی نہیں۔ ۔ ۔ چل اٹھ۔ ابھی نکل۔ ابھی کے ابھی نکل۔“

”اچھا اماں چھوڑیں، نفیسہ تو باؤلی ہے۔ اسے کیا سمجھ آئے گی آپ کی بات۔ میں خود ہی روانہ کرتی ہوں اسے۔ آپ ذرا اطمینان سے بیٹھیں۔“

آپا جان نے اماں کو غصے میں پیچ و تاب کھاتے دیکھا تو ایک دم خود کو الرٹ کر لیا۔ ”اس طرح بٹھائے رکھو گے تو صبح کردے گی کم بخت یہیں پر اور اب میں ایک منٹ بھی اسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اماں کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔“

”چلو اٹھو نفیسہ۔ تم نے پانچ منٹ کہا تھا اب دس منٹ ہو گئے ہیں۔“ آپا جان نے نفیسہ کو بازو سے پکڑا۔
”آج یہیں پہ رہنے دیں نہ جی۔ ۔ ۔“

”باوا کا گھر سمجھ رکھا ہے۔ بد ذات کو جتنا سمجھا رہے ہیں اتنا سر پر چڑھی جا رہی ہے۔ چل اب چل۔ اب چل بہت ہو گئی۔ دس بج رہے ہیں رات کے۔ ۔ ۔ اب تیرا کوئی بہانہ نہیں چل سکے گا۔ اٹھ۔ ۔ ۔ ایک منٹ میں نکل یہاں سے۔“

”رہنے کیوں نہیں دیتے جی آپ مجھے۔ نسرین آپا والے بھی دروازہ نہیں کھولتے۔ میں اتنی مشکل میں آ جاتی ہوں۔“
”ہمیں اس سے کیا۔ ٹھیکہ لے رکھا ہے ہم نے تیرا۔ نسرین تیری بہن ہے۔ وہ بہن نہیں رکھتی ہم رکھیں اور ایسے تیرے لچھن بھی نہیں ہیں کہ تو رکے۔ ۔ ۔“

”بس اب چھوڑ سب باتیں۔ نکل باہر۔“ آپا جان نے فیصلہ سنایا۔

”باتوں میں الجھا کے ٹک جائے گی۔ دھکے دے کر نکالو۔ اس کو بلاؤ باورچی کو۔ ۔ ۔ اور ڈرائیور رمضان۔ ۔ ۔ اس کو دھکے دیں تب نکلے گی۔ ساڑھے چار فٹ کی دبلی پتلی ہانپتی کانپتی اماں غصے میں پھڑک رہی تھیں۔ سارا جسم لرز رہا تھا۔

آپا جان بھی طیش میں آ گئیں۔ ”ارے لڑکیو۔ بلاؤ خانساماں کو اور ڈرائیور کو۔ یہ تو آدمیوں سے ہی نکلے گی۔ تمہارے بس کی کہاں۔ نکالو۔ ۔ ۔ سب مل کر۔ ۔ ۔“

”اٹھ نفیسہ“ آپا جان نے بازو سے پکڑا اور ارم نے لاؤنج کا دروازہ کھولا۔
”کیا بگاڑ لوں گی جی میں آپ کا۔“ نفیسہ ڈھٹائی پر قائم تھی۔

”تو اور ہمارا کچھ بگاڑ سکے۔ کمبخت۔ ۔ ۔ کیا بک رہی ہے۔ دفع دور کرو اس منحوس کو“ قبل اس کے کہ اماں جان کو کوئی دورہ قسم کی چیز پڑتی۔ ۔ ۔ ڈرائیور اور خانساماں چہروں پر مکروہ مسکراہٹ جمائے آ گئے۔ ”آپ نکالیں جی لاؤنج سے باہر۔ ۔ ۔ گیٹ سے باہر کرنا ہمارا کام۔“

نفیسہ جھٹکے سے اٹھی۔ دونوں بازو چھڑائے۔ پلاسٹک کی تھیلی، جس میں بچا ہوا سالن اور روٹی تھی۔ ۔ ۔ اٹھائی اور باہر کو نکل پڑی۔ ٹی وی لاؤنج کے دروازے سے سب اس کو دیکھ رہے تھے۔ لان کراس کرتے ہوئے اس نے سب کو مڑ کر دیکھا تھا جیسے شاید کوئی آواز اسے روک لے گی۔ ۔ ۔ پھر مایوس ہو کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔

مجبوری میں رکھے گئے نوکر بڑا تنگ کرتے ہیں۔ ایسا ہی اماں جان کی ”بدری منزل“ میں ہوا تھا جہاں بحالت مجبوری نفیسہ کو بیس دن کے لیے نوکرانی رکھا گیا تھا۔ جب ڈرائیور کے علاوہ سارے نوکر اماں کے شاہانہ احکامات کی بجاآوری میں ناکام ہونے کے بعد چوکھٹ کے باہر پھینکے گئے تو بھوک سے سب کی انتڑیوں میں اتنے بل آئے کہ سب کے سب بلبلا اٹھے۔ اماں کو تو دال دلیا، جوس اور سوپ سے غرض تھی یہ خدمت سدا سے آپا جان کے ذمہ تھی لہٰذا انہیں تو کوئی فرق نہ پڑا مگر اہل خانہ کی بھوک کی شدت دیکھتے ہوئے انہوں نے تسبیح گھماتے ہوئے اپنی دعاؤں میں ایک دعا کا اضافہ اور کر لیا۔

”اے رب پاک۔ ۔ ۔ اس گھر کو کوئی اچھا سا نوکر دلا دے۔ کہیں سے بھی لا دے۔“

اللہ میاں نے دعا سن لی اور اپنے اتنے سینئر بندے کی التجا پر کرم کرتے ہوئے نفیسہ بیگم کو گھر بھیج دیا۔ یہ آپا جان کی ایک سہیلی کی نوکرانی کی بہن تھیں اور چونکہ حلقہٴ احباب جانتا تھا کہ اس گھرانے کو فی الوقت کیسی بھی باورچن یا کیسا بھی باورچی چاہیے سو جلدبازی میں یہی محترمہ ہاتھ لگ سکیں۔ مگر آپا جان کی سہیلی نے تنبیہ کر دی تھی ”خیال رکھنا تھوڑی سی باؤلی ہے۔“

”کیا کیا کام کر سکتی ہو۔“
آپا جان نے باورچی خانے میں اسے لے جاتے ہوئے پوچھا تھا۔
”سب کچھ“
”ارے واہ“ آپا جان نہال ہو اٹھیں۔

مگر جب تھوڑی ہی دیر میں یہ محترمہ بال بکھرائے آنگن میں آلتی پالتی مارے بیٹھی دیکھی گئیں تو آپا جان تک خبر پہنچی۔

”کیا کر رہی ہو یہاں بیٹھ کر۔“
”ہوا لے رہی ہوں۔“
”اور جو روٹیوں کا کہا تھا۔“
”چار بنالی ہیں باقی بھی آہستہ آہستہ بنا لوں گی۔“
”ارے تین بج رہے ہیں دوپہر کے؟ کب تیار ہو گا کھانا۔“
”گرمی بہت ہے نا“
”تو کیا باورچی خانے میں اے سی لگوا دیں۔“

اور پھر نخریلی ملازمہ کی طرف سے دیے گئے عذاب سب پر ہی جلتے کوئلے بن کر گرے۔ کوئی کام وقت پر نہیں، صبح صبح فرماتیں کہ سونے دیا جائے کیونکہ نیند سے اگر زبردستی اٹھایا جائے تو سارا دن برا گزرتا ہے۔ چھچھوندر بن گئی تھی گھر بھر کے لیے۔

”باؤلی نہیں ہے سب کو باؤلا بنائے گی۔“ اماں نے فتویٰ دیا۔

سارا دن شور رہتا کہ ”نکالو اسے۔“ آپا جان تحمل سے سمجھاتیں۔ ”ارے کسی کو آنے دو پھر نکال دیں گے۔ ۔ ۔ کہہ کہہ کر کام تو لے ہی لیتے ہیں نا آخر۔“

سب کی ملی جلی کوششوں سے ایک لڑکا ملا۔ ۔ ۔ شمشاد۔ ۔ ۔ کام میں پھرتیلا، ہوشیار۔ ۔ ۔ سب خوش ہو گئے۔

نفیسہ باؤلی کی چھٹی ہو گئی۔ ۔ ۔ مگر اتنے آرام سے کہاں۔ نفیسہ کو نئے لڑکے پر سخت تاؤ تھا۔ اس نے احتجاج بھی کیا، جب کوئی ”کھڑتیل“ نہ نکلا تب وہ ٹک گئی۔ ”میں نہیں جاؤں گی“ والا پرانا ڈرامہ۔ جب اسے تھیلی کپڑوں کی اور دو سو روپے تھما دیے گئے تو بولی ”نہا کر جاؤں گی۔“

”اچھا نہا لے۔“ آپا جان نے بات مان لی۔
”ارے یہ کیا۔“ اماں پر آسمان کا ایک بھاری بھرکم ٹکڑا آن گرا۔

بغیر قمیص تھل تھل کرتی نفیسہ باتھ روم سے نکل کر تولیہ اٹھانے آ گئی تھی۔ اماں اس وقت نوجوان ملازم سے حساب کتاب میں مصروف تھیں۔ ملازم نے تو مزہ لیا سو لیا۔ اماں نے نفیسہ کی حالت دیکھ کر اسے ملک بدری جیسے آرڈرز دیے۔ ۔ ۔ مگر پورا گھر کھی کھی، ہا ہا، ہو ہو میں ڈوبا ہوا تھا۔ بہرحال نفیسہ کے کردار کا یہ روپ سب کی آنکھوں میں ٹھہر گیا تھا اور اماں کو سنے اور بددعائیں دے دے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر رہی تھیں۔ باقی سب کو تماشا مل گیا تھا۔

بس وہ دن اور آج کا دن نفیسہ ہر چوتھے روز آن کھڑی ہوتی۔ ۔ ۔
”کوئی کام؟“
”چل ہٹ بدمعاش، بے غیرت، تو تو گھر میں آنے کے قابل بھی نہیں ہے۔“

اماں مختلف گالیوں کے رد و بدل سے تقریباً یہی جملہ دہراتی تھیں۔ البتہ آپا جان چھوٹے موٹے کام نکلوا لیتی تھیں۔ گھر کے دیگر افراد کو بھی نفیسہ باؤلی کو دیکھ کر جھاڑ پونچھ، چائے، کمرے کی صفائی، جوتوں کی پالش، باتھ روم کی صفائی جیسے کام یاد آ جاتے تھے اور نتیجے کے طور پر نفیسہ کو چائے کی پیالی، اور کچھ بچا کھچا کھانا نصیب ہو جاتا تھا مگر کچھ عرصے سے اس کی باہر نہ جانے والی ضد میں اضافہ ہو گیا تھا۔ بالخصوص رات کو ٹکنے کے لیے خصوصی پلان بناتی مگر اماں کی چڑ اور غصے سے بھناتی شکل دیکھ کر سہم کر چلی جاتی تھی۔

کہاں؟
یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ اتنا سب کے علم میں تھا کہ نفیسہ کی ایک بہن شادی شدہ ہے۔ باقی رشتے دار کہاں ہیں، کون ہیں، کسی نے جاننے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی تھی۔

نفیسہ دراصل کسی زرخرید لونڈی کی سی صفات لے کر پیدا ہوئی تھی۔ زر سے اسے بذات خود کوئی سروکار نہ تھا۔ بھوکی ہوتی تو روٹی مانگ لیتی۔ گرمی سردی کے کپڑے مانگے تانگے کے مل جاتے۔ باقی اسے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ کسی کے گھر جھاڑو پوچا کرتی تو کہیں برتن صاف کرتی کسی کے کپڑوں کی دھلائی کرتی اور کہیں کسی کی باہر کی چیزیں خریدتی پھرتی۔ اسے شاید روپے پیسے کی قدروقیمت کا کوئی اندازہ بھی نہیں تھا، لہٰذا اپنی ضرورت کے لیے کچھ خریدنے یا اپنی ضرورت کے احساس سے بھی محروم تھی۔ کبھی دس روپے کا نوٹ بھی للچائی نظروں سے اس نے نہیں دیکھا تھا بلکہ بخشش کے طور ملنے والی رقم دیکھ کر بڑی سخاوت سے کہا کرتی۔ ۔ ۔

”کہاں رکھوں گی جی۔ ۔ ۔ سب کچھ تو آپ کے یہاں سے مل جاتا ہے۔“

باؤلی نفیسہ کا نہ آنا بلکہ مہینوں نہ آنا ہرگز باعث تعجب نہ تھا۔ بلکہ اس کی مثال اس کتے بلی کی سی تھی جو کہ کسی ایک مخصوص دروازے کا پابند نہ ہو۔ ادھر ادھر سے منہ مار کر گزر بسر کر لیتا ہو اسی لیے مہینوں نفیسہ غائب رہی تو کسی کو پروا بھی نہیں ہوئی، پھر وہ اچانک نمودار ہو گئی۔ اس کا سیدھا ٹھکانہ تو اماں کی درگاہ میں حاضری لگانا ہی ہوتا تھا۔ اماں نے پان پر کتھا لگاتے لگاتے سلام کا جواب دیا اور غیرحاضری کا سبب پوچھنے کے لیے سر کو اوپر اٹھایا ہی تھا کہ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ آنکھوں پر لگا چشمہ گرنے کو تھا اور ہاتھ شل ہو گئے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments