دیوتا اور 22 مہینے


لوگ انھیں وزیراعظم نہیں ہیرو سمجھتے ہیں، حقیقت پوچھیں تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ظلم و ستم کے بعد تو لوگ ان کو دیوتا سمجھتے ہیں۔ہیرو یا دیوتا کہانیوں میں عموماً ایک ایسا کردار ہوتا ہے جو ہر غلطی سے پاک ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے اس کے پاس دنیا کے ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے، کہانی کے اختتام پر وہ کشتی بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

وہ کھل جا سم سم کہتا ہے تو غار کا دروازہ کھل جاتا ہے، خزانہ دیکھ کر لوگوں ورطہ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ حکم دیتا ہے تو ہر چیز خودبخود تعمیر ہو جاتی ہے، 50 لاکھ گھر بن جاتے ہیں، وہ صدا لگاتا ہے تو لوگوں کو روزگار مل جاتا ہے، 1 کروڑ لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ وہ آواز لگاتا ہے تو بیرون ملک پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کا انبار لگا دیتے ہیں۔

وہ نقارہ بجاتا ہے تو سمندر خام تیل اور گیس اگلنے لگتا ہے، مقدار اتنی ہوتی ہے کہ ملک نا صرف خود کفیل ہو جاتا ہے بلکہ برآمد کرنے لگ جاتا ہے۔ انصاف وہ ایسا کرتا ہے کہ لوگ عدل جہانگیر کی زنجیر بھول جاتے ہیں۔ قانون کے سقم اس نے آئینی ترامیم سے ایسے درست کیے ہیں کہ سنگاپور سے لوگ تحقیق کی غرض سے آتے ہیں۔

نو رتن اس نے 22 سال میں ایسے چنے ہیں کہ لوگ اکبر کے نو رتن بھول گئے ہیں، ہر جگہ انھی منفرد لوگوں کی چہ مگوئیاں ہیں۔ کرپشن کا نام و نشان اس کی دہشت اور خوف سے ختم ہو گیا ہے، سزائیں ایسی کڑی کر دی گئی ہیں اور جلاد ایسے مقرر کر دیے ہیں کہ کرپشن کا نام سن کر لوگوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، ججز سب عوام الناس کی خدمت میں شب و روز مصروف ہیں۔

ملکی دفاع اور عسکری ادارے کبھی اتنے مضبوط نا تھے، لوگ اب ہماری ٹیکنالوجی اور ٹریننگ سے مستفید ہونے کے لئے دنیا بھر سے درخواستیں بھیجتے ہیں۔ مارشل لاء اب جمہوریت سے خوفزدہ ہے، کیونکہ اب جمہوریت بانجھ نہیں ہے، اس کی گود میں بلدیاتی اداروں کی نئی نسل موجود ہے جو ملکی باگ ڈور آسانی سے سنبھال لے گی۔

خوشحالی کی ایسی لہر آئی ہے، کہ ڈھونڈنے پر غریب ناپید ہو گئے ہیں، ہر بچہ علم و ہنر کا شاہکار ہے، تعلیم مکمل کرنے سے پہلے برسرروزگار ہے۔ ٹیکس، زکات و عشر کی اتنی فراوانی ہے کہ دنیا اب کشکول لئے ہمارے در پر ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

ملک کے تمام عالی شان محل جو کبھی تاحد نگاہ تک پھیلے ہوتے تھے گرا دیے گئے ہیں، کچھ میں درس و تدریس کا عمل شروع کیا جا چکا ہے، اور اب وہ دنیا بھر میں موجود دیگر جامعات سے سبقت لے گئے ہیں۔ قرآن و سنت، سائنس و ٹیکنالوجی، روحانیت اور فنون لطیفہ سمیت تمام مضامین پر دن رات علم و تحقیق کی جا رہی ہے۔ دنیا کو درپیش مسائل کے حل نکالے جا رہے ہیں، ورلڈ آرڈر اور اسلامی بلاک کی از سر نو تشکیل پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ دنیا ہمارے دیوتا کی جانب رہنمائی کے لئے دیکھ رہی ہے۔

جو انگریز اور عرب ہمیں حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے ہم سے آنکھیں نہیں ملا پا رہے۔ دنیا سے مختلف ہنرمند افراد روزگار کی تلاش میں اس دیو مالا میں آنے کے خواہشمند ہیں۔ مگر ان کی جانچ پڑتال کا عمل بہت سخت کر دیا گیا ہے، کیونکہ دیومالا اپنے شہریوں کو سب سے افضل و مقدم سمجھتی ہے۔

ریاست ممتا مانند ہو گئی ہے، ہر شہری دن رات ممتا کے گن گاتا ہے، کلکاریاں مارتا ہے، ناز نخرے دکھاتا ہے۔ اس خواب کو بھی اس نے شرمندہ تعبیر کر دکھایا ہے، جسے لوگ دیوانے کا خواب کہتے تھے۔ 22 سال محنت کے ثمرات صرف 22 مہینے میں آ گئے ہیں، اس سے زیادہ نیک، شریف، خوبرو اور ایماندار قیادت اب نہیں آنے والے گو کہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments