کوٹ ادو کا بردبار سیاسی خانوادہ! ہنجرا خاندان


اک بار حضرت علی نماز کا ارادہ کیے مسجد کی طرف جا رہے تھے کہ اک یہودی کو سازش سوجھی۔ سوچا آج علی سے ایسا سوال کرتا ہوں کہ جواب دیتے دیتے ان کی نماز قضا ہو جائے گی۔ دوڑا دوڑا مولا کے قریب پہنچا اور پوچھا اے علی اک دنیا تمہاری ذہانت و علم کی معترف ہے میرے اک سوال کا جواب دو۔ مولا نے مسکرا کر کہا پوچھو۔ یہودی بولا کہ اے علی یہ بتاؤ کہ اس زمین پہ کون سے جانور انڈے دیتے ہیں اور کون سے جانور بچے دیتے ہیں۔

حضرت علی مسکرائے اور اک جملے میں جواب دے کر چل پڑے کہ جن جانداروں کے کان اندر ہیں وہ انڈے دیتے ہیں اور جن جانوروں کے کان باہر ہیں وہ بچے دیتے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ بے انتہا ذہانت فی البدیہہ جوابات اک اک جملے میں داستان حیات بیان فرما دیتے تھے۔ آخر ایسے ہی حضرت محمد ص نے انہیں علم کا دروازہ قرار نہیں دیا تھا اگر آپ شہر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تب بھی دروازے سے ہو کر جانا پڑے گا اگر سیراب ہو کر واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تب بھی دروازے سے ہو کر آنا پڑے گا۔ میں جب نیا نیا لکھنے لگا تھا تو مجھ سے جملوں میں ربط نہیں بن پاتا تھا۔ استاد محترم سے مسئلہ بیان کیا بولے نہج البلاغہ کا مطالعہ کرو۔ اسی نہج البلاغہ میں مولا علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ اقتدار انسان کو بدلتا نہیں بے نقاب کر دیتا ہے۔

اہل عقل کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو 21 دن کے لیے اقتدار مل جائے تو وہ بدل جاتا ہے اس کا اخلاق بدل جاتا ہے اس کے دوست بدل جاتے ہیں اس کا مزاج بدل جاتا ہے وہ خود کو لارجر دین لائف دیکھنے لگتا ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ انسان سچ میں اچھا ہے اس کی قدر کرو۔

کوٹ ادو کی سیاست پہ نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے کئی کردار نظر آئیں گے جن کو اقتدار کیا ملا ان کی ٹون ہی بدل گئی۔ ہمارے یہاں کے اک سیاستدان کا قصہ مشہور ہے کہ ان کے ہاں اک جدی پشتی رئیس اور کولیگ سیاستدان تشریف لائے۔ ہمارے سیاستدان موصوف نے فون نکالا اور باورچی سے با آواز بلند بولے ہاں یار وہ جو فریج میں بٹیرے رکھے ہیں وہ نکال لو وہ جو کل ہرن کا گوشت بنوایا تھا اس کا بھی قورمہ بنا لو اور دریا کی مچھلی کو مصالحہ لگا لو اچھا چھوڑو دریا کی مچھلی رہنے دو وہی دو چیزیں کافی ہیں۔ عینی شاہدین کہتے ہیں بھلے ہم غریب سہی مگر اس طرح کا بھونڈا پن ہم نے بھی کبھی نہیں دکھایا۔ کیا خبر موصوف مہمان کو جتلانا چاہ رہے تھے یا حاضرین کو بتلانا چاہ رہے تھے کہ میں مہمان کو ہرن کا گوشت کھلا رہا ہوں۔

اک اور سیاستدان کو بھی اقتدار کیا ملا وہ ہی نہیں ان کے پورے خاندان کے مزاج نہیں ملتے۔ ان کے بھائی بند سرکاری ڈالے کو لیے دھول اڑاتے پھرتے ہیں یا نازک مزاج انا کو ٹھیس پہنچنے پہ انسانوں کی پٹائی کرتے پھرتے ہیں۔

لیکن سب ہی ایسے نہیں ہیں کوٹ ادو کے ہنجرا خاندان کو سیاست میں تین دہائیوں سے اوپر ہو چکے ہیں عرصہ 35 سال میں ایسا اک بار بھی نہیں ہوا کہ ہنجرا خاندان کا کوئی شخص اسمبلی کا حصہ نہ ہو۔

لیکن ان 35 سالوں میں ہنجرا خاندان کے اخلاق مہمان نوازی دوست نوازی اور رواداری میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔ جب سے ہوش سنبھالا شہر کوٹ ادو کو ہنجرا خاندان کے خلاف ہی پایا۔ طرح طرح کے الزامات اس تواتر سے دہرائے گئے کہ سچ کا گمان ہونے لگا۔ گزشتہ دور حکومت میں شہباز شریف نے مظفرگڑھ کا دورہ کیا تو اس پہ راقم نے ہنجرا خاندان کو مخاطب کرتا اک تند و تیز آرٹیکل لکھ مارا۔ کچھ دنوں بعد اک سیاسی تقریب میں ملک احمد یار ہنجرا سے ملاقات ہوئی مجال ہے جو ماتھے پہ اک شکن تک آئی ہو اسی تپاک سے ملے اور کھری صحافت کی تعریف کی۔

ہنجرا خاندان سرائیکی وسیب ہی نہیں پورے پنجاب میں چوہدریوں کی طرح ڈیرے داری میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا مروجہ اصول تو یہ کہتا ہے کہ ووٹ لے کر ایسا غائب ہونا ہے کہ پھر اگلے الیکشن پہ ظاہر ہونا ہے آج کل بھی اکثریت کا یہی معمول ہے لیکن ہنجرا خاندان کا ناقد ہونے کے باوجود میں اس بات کا کریڈٹ دیتا رہا ہوں کہ آپ دن ہو یا رات جس وقت بھی ہنجرا ہاؤس جائیں آپ کو ہنجرا خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد عوام کے دکھ سکھ بانٹتا ہوا ضرور ملے گا۔

ہنجرا خاندان کی سیاست کی بات کریں تو چونکہ زیادہ تر یہ خاندان ہی منتخب ہوتا رہا ہے تو بجلی سکول کالجز ہسپتال روڈز ریسکیو و دیگر انفراسٹرکچر انہی کی مرہون منت ہے مگر یہ بطور عوامی نمائندگان ان کا فرض تھا ان کی سیاست سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ مگر بطور عوامی سیاستدان ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

ملک اجمل ہنجرا مرحوم ہنجرا خاندان کے بزرگ تھے۔ 35 سالی اقتدار کے باوجود مرحوم نے مٹی سے جڑ کر عاجزی بھری زندگی گزاری۔ اقتدار ان کو ذرہ بھر نہ بدل سکا۔ ان کے حلقہ احباب میں عوام کے مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے لوگ شامل تھے۔ میرے والد صاحب ان میں سے اک ہیں۔ میرا پورا خاندان زندگی اینٹی ہنجرا سیاست کرتا رہا۔ مگر مجال ہے کہ ملک اجمل مرحوم کے رویے میں تنکے برابر بھی فرق آیا ہو۔ حتیٰ کہ میرے والد صاحب کی ملازمت بھی انہوں نے لگوائی۔ ہم اک مڈل کلاس فیملی سے آتے ہیں۔ میرے والد صاحب کوٹ ادو کے بس سٹینڈ پہ منیجر تھے۔ اک دن ملک اجمل مرحوم نے ان کو کہا کہ تمہاری تعلیم پوری ہے دیگر کرائی ٹیریا پہ بھی پورے اترتے ہو محکمہ انہار میں سیٹیں آئی ہیں اپلائی کرو والد صاحب نے اپلائی کیا اور ملازمت کا حصول ممکن ہو گیا۔

بھلے ہم نے زندگی بھر ہنجراؤں کو ووٹ نہ دیے ہوں مگر پہلے اگر میرے والد صاحب ان کی یار باشی کے قائل تھے تو آج راقم بھی ان کے حسن اخلاق کا معترف ہے۔

قلم مزدور ہونے کی وجہ سے علاقے بھر کے تمام سیاستدانوں سے تعلق واسطہ رہتا ہے۔ سب سے ہی اچھا تعلق ہے مگر گرویدہ بنانے کا جو فن ہنجرا خاندان کو آتا ہے دیگر سیاستدانوں کو بھی یہ فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments