اس سے پہلے کہ ہمیں مے ڈے، سنائی دے


عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس وقت کرونا کے لحاظ سے دنیا کے دس خطرناک ترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے، پاکستان میں اس وقت کرونا کے متاثرین کی شرح 24 %تک پہنچ چکی ہے جو ایک خطرناک ترین شرح ہے اگر ایک کروڑ افراد کا ٹیسٹ کیا جائے تو ان میں سے چوبیس لاکھ لوگ کرونا مثبت نکلیں گے جبکہ یہ شرح پانچ فیصد سے کسی بھی صورت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

یہ ہماری سراسر غلط فہمی ثابت ہوئی کہ کرونا کو ہم نے عید کی چھٹیوں پر گھر بھیج دیا ہے اور ہم اس کی عدم موجودگی میں نئے کپڑے پہن کر خوب اچھل کود لیں، حالانکہ ہمیں علم ہونا چاہیے تھا کہ کرونا دیار چین سے آیا ہے اس کا عید سے کوئی واسطہ نہیں اس نے دن رات کام کرنا ہے اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ کمبخت یہاں پہ ہی تھا، کہیں گیا ہی نہیں، ہمارا قومی مزاج بھی مایوس کن ہے کہ ایک طرف ہمارے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے اور ہم آگ بجھانے کی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے گھر کے صاف کپڑوں پر کالا تیل ڈال کر انہیں گندا کے لوگوں کو دکھا کر نہ جانے کون سی حس کو تسکین پہنچانا چاہتے ہیں۔

موت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور ہم کسی پرانے دور سردیوں کی تصاویر کو نکال کر انہیں مختلف پیٹرول پمپس پر ایڈٹ کر کے جھوٹ بولنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ جب ہمارے ملک میں کرونا داخل ہوا تو ہم نے اس کی پرواہ کیے بغیر ہم امداد سامان کی تقسیم کے سلسلے میں سیاست کا شکار ہو کر قومی یکجہتی کا ثبوت نہ دے سکے۔ ہمارا یہ اندازہ بھی شاید اتنا موثر ثابت نہیں ہوا کہ چین کے وائرس میں اور پاکستان کے وائرس میں فرق ہے، جس سے لوگ بے فکر ہو گئے اور آج اموات کی شرح ایک خطرناک حد میں داخل ہوتی جا رہی ہے، جب وائرس ہمارے ملک میں داخل ہوا تو ہم بالکل غیر سنجیدہ رہے، ہم خوش ہوتے رہے کہ یہ تو غیر مسلموں کو نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔

ہم شاید یہ سوچنا بھول گئے کہ یہ غیر مسلم خود رو نہیں بلکہ یہ بھی باری تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ ہم رات کو اذانیں دے کر دن کو اسی طرح ملتے ملاتے، کھاتے پیتے جپھیاں ڈالتے گلے لگاتے کرونا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی سہولت فراہم کرتے رہے اور امداد تھیلوں پر فوٹو شاپ کر کے لوگوں سے داد وصول کرتے رہے۔ ہمیں یہ خیال نہیں آیا کہ بڑی عالمی طاقتیں جن کے پاس مالی وسائل کی بہتات تھی، جو چاند اور مریخ پر نئی بستیاں بسانے کی دوڑ میں تھے، جن کے پاس صحت اور صفائی کا معیار اعلیٰ ترین سطح پہ تھا، کرونا کے آگے بے بس ہو کر ڈھیر ہو چکی ہیں۔

سنامکی کا ٹوٹکا بھی غور طلب ہے کہ پہلے سے کمزور قوت مدافعت کے باوجود سنامکی کے استعمال سے موشن کی صورت میں جسم سے مزید پانی کی کمی کی وجہ سے قوت مدافعت کے مزید کم ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے جس سے مزید خرابی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری مزاج نہ ہونے کی وجہ سے ہم عادی ہیں کہ جب تک ہمیں ڈنڈے کے زور پر نہ روکا جائے ہم اپنا دماغ استعمال نہیں کریں گے، ابھی پندرہ دن کے مکمل کرفیو کی فوری ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ وائرس کی ٹرانسمیشن کم کی جا سکے، ورنہ یہ نہ ہو کہ ہمیں کسی بھی وقت کہیں سے بھی ”مے ڈے“ کی کال سنائی دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments