کلکتہ میں جلاؤ گھیراؤ اور کندھے پر سوار بچہ ۔۔۔1946 کا میرا وہ دن


کلکتہ میں جلاؤ گھیراؤ۔ ۔ ۔ اور کندھے پر سوار بچہ۔ انیس سو چھیالیس کا میرا وہ دن۔ ۔ ۔
کوئی آٹھ دس سال قبل ایک اجتماع میں لمبی سی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اچانک میرے سامنے بیٹھے صاحب اپنے ساتھ والے سے فرمانے لگے۔ ۔ ۔ پتہ لگا۔ چوہدری انور احمد کاہلوں آج لندن میں وفات پا گئے۔

” وہ کون تھے“
اوہ۔ وہ مشرقی پاکستان میں شاید ایک شپنگ کمپنی کے چیئرمین تھے۔ اکہتر میں سب چھوڑنا پڑا۔ اب لندن میں تھے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے اونچی آواز میں نکلا۔ ”انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ۔ ۔ اوہ میں نے تو ان کے کندھے پہ سواری کا مزا لیا ہوا ہے۔ ۔ ۔

وہ کیسے۔ سب متوجہ ہو گئے۔ مختصراً عرض کر سکا کہ اورینٹ شپنگ لائنز کلکتہ کے انگریز مالک پوری کمپنی اپنے اس ممبر کی ملکیت میں دے واپس چلے گئے تھے اور تقسیم کے وقت یہ مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ میرے والد مرحوم کے کلکتہ کے ان دوستوں میں سے تھے۔ ۔ ۔ جن سے دوبارہ ملنے کی تمنا ان کو آخر دم تک رہی۔ اور یہ میرے بچپن کی بات ہے۔ ۔ ۔

کھانا ادھورا چھوڑ باہر لان میں آکر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ اور انیس سو چھیالیس کے اس دن کی فلم ذہن میں چلنے لگی۔ کہ بچپن بہت یادیں بھلا ہی نہیں پا رہا۔

قیام پاکستان سے قبل چنیوٹ برادری کا مرکز کلکتہ آگرہ کانپور اور مدراس ہوا کرتے تھے۔ میرے والد بھی اپنے بچپن کے دوستوں کی پیروی میں کلکتہ جا بسے تھے۔ اور ہر سال کے معمول کی طرح والدہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کے ساتھ کلکتہ میں تھیں۔ مجھے یاد ہے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے والد اس دن ہم تینوں بھائیوں کو ساتھ لے کر کچھ پیدل پھر ٹراموے اور پھر کچھ پیدل چل کر مسجد پہنچے تھے۔ نیچے دکانیں اور اوپر مسجد تھی۔

چند منٹ بعد ہی کچھ ہلچل سی محسوس ہونے لگی جوان چوکنے ہو کر سیڑھیوں کھڑکیوں پہ پہریداروں کی طرح جو حفاظتی چیز بھی ہو سکتی تھی لے کر کھڑے ہو گئے۔ گھبراہٹ چہروں پہ عیاں تھی۔ پانچ سالہ اس بچے کو بس کسی خطرے کی بو تھی۔ ہندو مسلم فساد شروع ہونے کی خبروں کا اعلان کر دیا گیا۔ مختصر خطبہ کے دوران ہی باہر نیچے شور و غل اور نعروں کی آوازیں آنے لگیں۔ نماز شروع ہوتے ہی نیچے چیخ و پکار شروع تھی۔ اگلی صف میں والد کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا کہ سامنے کھڑکی سے ایک سر نمودار ہوا۔

نیچے سے پکڑو مارو اور ہندوؤں کے بنگالی اردو میں مخصوص نعروں کا شور تھا۔ سر ذرا اوپر ہوتے ہی بچاؤ بچاؤ کا شور کرنے لگا۔ پہرہ دیتا جوان آگے بڑھا۔ اس اندر کھینچنے کی کوشش کی۔ وہ دیوار پہ لگے نکاسی پائپ کی سہارے آیا تھا۔ اس کی دھوتی بلوائیوں کے ہاتھ تھی۔ اور وہ نیچے کھینچتے۔ جانے نہ پائے۔ مار دے کے نعرے لگاتے تھے۔ ایک دو جوان اور بڑھے۔ دھوتی کھل کے بلوائیوں کے ہاتھ رہ گئی تھی۔

کھڑکی کے ساتھ لگے بیٹھے صرف بنیان میں ملبوس نیچے دودھ فروش کا جان بچ جانے والا کانپتا وجود آج بھی بھولا نہیں۔ ۔ ۔ نیچے ہندو ہلؔہ ( بلوائی مار کٹائی کرتا غنڈوں کا جلوس) لوٹ مار میں مصروف تھا۔ ختنے مسلم کی پہچان تھے۔ ۔ ۔ اندر سب نمازی سہمے لیٹے تھے۔ کھڑکیاں بند۔ جوان جان ہتھیلی پہ رکھے تیار۔ جانے کیسے اطلاع آئی۔ ۔ ۔ ممکن ہے کوئی فون وہاں ہو۔ کہ شہر فساد کی زد میں ہے۔ جہاں ہندوؤں کا زور چلتا ہے مسلمانوں کو مارتے کاٹتے املاک لوٹتے جاتے ہیں۔ اور پر امن ہندو ان کے پیچھے چلتے گھروں کو جاتے ہیں اور جہاں مسلمانوں کا بس چلتا ہے مسلمان غنڈے بلوائی جلوس کی شکل میں ہندؤؤں کو کاٹتے مارتے ان کی جائیدادیں لوٹتے جلاتے جاتے ہیں اور جب یہ مسلم ہلؔہ آئے تو ان کے پیچھے جانا محفوظ ہوگا۔ ۔ ۔

ہندو ہلؔہ نکلے کچھ دیر ہوئی تھی کہ شور مچا۔ مسلم ہلہ بغلی سڑک سے گزر رہا تھا۔ ویسے ہی لوٹ مار۔ مار دو جلا دو۔ کے نعرے لگاتے۔ ۔ ۔ تصدیق ہونے کے بعد اجازت دی گئی۔ ۔ ۔ بوڑھوں بچوں کے ساتھ جوانوں کی ڈیوٹی گھر تک پہنچانے کی لگی۔ والد صاحب کے ساتھ دو تین جوان تھے۔ ۔ ۔ والد صاحب شدید دمہ کے مریض تھے۔ ہمارے ہاتھ جوانوں نے تھامے تھے۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے ہم خاصی دیر مسلمان ”بلوائی غنڈوں کی حفاظت“ میں چلتے رہے۔ رستہ لٹی جلی دکانوں۔ لاشوں کسکتے زخمیوں سے بھرا تھا۔ جس میں وہ جن کی حفاظت میں ہم پیچھے رواں تھے۔ اضافہ کرتے جاتے تھے۔ ۔ ۔

دونوں بڑے بھائی چل سکتے تھے۔ میں خوف زدہ بھی چھوٹا بھی۔ جب تھک جاتا تو انور کاہلوں، مضبوط جسم کے لمبے تڑنگے ( والد صاحب سے خاصے کم عمر مگر خاصی دوستی اور احترام۔ کے حوالے میں پہچانتا تھا ) مجھے کندھے پہ بٹھا لیتے۔ کبھی میں ان کی گردن پر دونوں ٹانگیں ان کے سینے پہ لٹکائے اور کبھی ایک کندھے پر ایک ٹانگ آگے ایک پیچھے کر کے بیٹھا۔

جب مسلم ہلؔہ رستہ تبدیل کر گیا تو جوان ہمیں چھوٹی تنگ گلیوں سے گزارتے ہماری رہائش۔ شاید بھوانی پور کا علاقہ تھا۔ چھوڑ کر۔ والد صاحب اور ہم بچوں کی دعائیں لیتے واپس ہو لئے۔ ۔ ۔
یہ تو بڑے ہو کر پتہ چلا کہ بہار کے فسادات کے بعد سب سے بڑے فسادات اور لوٹ مار کلکتہ کے یہ فساد تھے۔ ۔ ۔ باقی ہندوستان میں شاید اس کے بعد شروع ہوئے۔

عزیزو۔ یہ پاکستان اس آسانی سے وجود میں نہیں آیا تھا۔ جس آسانی سے ہم اسے تباہ کرنے پہ تلے ہیں۔ ۔ ۔

والد صاحب مرحوم کی طرح میری بھی خواہش اس بہادر ہمدرد فرض شناس شخص سے ایک بار پھر ملنے اور شکریہ ادا کرنے کی رہی۔ مگر گر میرے پرانے کاغذات میں 1955 کا ان کے ہاتھ کا لکھا والد صاحب کو ایک خط ان کی یادگار موجود ہے۔
اکثر شب تنہائی میں۔ کچھ دیر پہلے نیند سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یادیں۔ بس یادیں۔ ۔ ۔ یہ یادیں۔ ابھر آتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments