ساری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کیوں کرتی ہے


تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاری کے اثرات بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ اٹلی، سپین اور یو کے اس سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن اب وہاں کورونا پر تقریباً قابو پایا جا چکا ہے۔ امریکہ میں بھی حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اس کے بر عکس وطن عزیز میں کورونا بے قابو ہو چکا ہے۔ کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ڈھائی ہزار سے زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گزشتہ روز تقریباً چھ ہزار نئے مریض سامنے آئے اور سو سے زیادہ اموات ہوئیں۔ یاد رہے کہ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ ہر روز اس تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایسے میں ایک دوست سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے صورت حال پر پرمغز تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کورونا وائرس بھی ہمارے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ خیال محض ایک فرد کا نہیں بلکہ ہمارے کروڑوں پاکستانیوں کی یہی رائے ہے۔ آپ نے یہ تو سنا ہی ہو گا کہ ”لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے“ واقعی یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس کا خاتمہ ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں یہ عروج کی طرف رواں ہے۔

اصل میں دنیا ہم سے حسد کرتی ہے۔ ہم نہایت قابل اور ذہین ترین قوم ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ ظاہر ہے طاقت ور، ذہین اور قابل لوگوں سے ہر کوئی جلتا ہے اور ان کے خلاف سازشیں بھی ہوتی ہیں۔ تعلیم کے شعبے کو ہی لیجیے۔ حصول علم ہماری اولین ترجیح ہے۔ ممکن تھا کہ ہم تعلیم کے میدان میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم ہمارے ہاں آ کر اکتساب علم کریں۔ لیکن ایک سازش کے تحت انگریز ہمیں ایسا نظام تعلیم دے گئے جس کی وجہ سے ہم آج بھی غلام ہیں۔

بہتر سال سے ہم اپنا نظام تعلیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سازشوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے۔ صرف یہی نہیں انہی سازشوں کی وجہ سے ملک بھر میں یونی ورسٹیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔ امریکہ میں ساڑھے تین ہزار اور بھارت میں ساڑھے چار ہزار یونی ورسٹیاں ہیں۔ خیر ادارے بنانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہونہار طلبہ پڑھائی میں ان سے بہت آگے ہیں۔ تحقیق اور ایجادات وغیرہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن مارکس میں ہمارے طلبہ کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔

گزشتہ دنوں پی آئی اے کا طیارہ کراچی ائر پورٹ سے محض چند سیکنڈ کی دوری پر گر کر تباہ ہو گیا۔ پی آئی اے کا ہی ایک طیارہ 2006 میں ملتان سے ٹیک آف کرتے ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ 2010 میں ائر بلو کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا گیا تھا۔ 2012 میں بھوجا ائر لائن کا طیارہ پنڈی ائر پورٹ پر لینڈ کرنے سے پہلے تباہ ہوا۔ پی آئی اے کا ایک طیارہ 2016 میں حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا۔ دنیا بھر میں جہاز کا سفر محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہر تین چار سال بعد کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے پائلٹ بہت تجربہ کار ہوتے ہیں۔ جہازوں کی چیکنگ بھی باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ متعلقہ ادارے بھی پوری جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود جہازوں کی تباہی کے پیچھے کوئی بہت بڑی عالمی سازش ہے۔

ہم نے مطالعہ پاکستان میں پڑھا ہے کہ وطن عزیز زراعت، معدنیات اور ہر حوالے سے مالا مال ہے۔ یہاں انتہائی خوبصورت سیاحتی مقامات بھی ہیں۔ سمندر ہے، پہاڑ ہیں، صحرا ہیں۔ کیا نہیں ہے۔ ہم چاہیں تو سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنا کر اربوں ڈالر زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ مگر ہم پھوٹی کوڑی بھی کما نہیں رہے۔ وجہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ظاہر ہے اغیار ہمیں ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے اس لئے انہوں نے سازش کے تحت ہمیں روک رکھا ہے۔

دنیا بھر کے لوگ نہ جانے کیا الا بلا اور حرام جانوروں کا گوشت کھا لیتے ہیں جب کہ ہم تو اس لحاظ سے بھی ان سے ہزار درجے اچھے ہیں کہ ہم صرف حلال گوشت کھاتے ہیں۔ افسوس کہ یہاں بھی ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ سازش کے تحت مٹن کی جگہ گدھے، بٹیر کی جگہ لالیاں (گرسل) حتیٰ کہ کوے کی بریانی تک کھلا دی گئی۔

ایسا لگتا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک ہمارے جذبہ ایمانی سے خوف زدہ ہیں۔ اس لئے ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ تاکہ ہم اپنے بلند ترین مقام سے گر جائیں۔ سازش کر کے ہمارے ذہنوں کو قابو کر لیتے ہیں تا کہ ہم کرپشن کی طرف مائل ہو جائیں۔ ادویات میں ملاوٹ کریں۔ رمضان میں اشیائے خورد و نوش مہنگی کر دیں، حادثہ ہو جائے تو مرنے والوں اور زخمیوں کی جیبیں خالی کر دیں، ناجائز قبضے کر لیں، رشوت لیں۔ کس کس بات کا رونا روئیں۔

اب یہ جو کورونا وائرس والی سازش ہے۔ اس سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔ یوں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں۔ سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائیں۔ ماسک لگا کر ہر کسی سے منہ چھپاتے پھریں۔ ہم نے کون سا ایسا کوئی گناہ کیا ہے جو کسی سے منہ چھپائیں۔ ہم اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے ماسک نہیں پہنیں گے۔ اول تو کورونا نام کی کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔ اگر ہے تو یہ سازشی کیا جانیں کہ ہم کتنے جینئیس ہیں۔

ہمارے پاس اس نام نہاد بیماری کا علاج کرنے کے سو طریقے ہیں۔ لہسن چبایا جائے یا سنا مکی کی چائے پی جائے تو سو فی صد کورونا سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نہ کریں تو اپنے پیر صاحب سے تعویز لے لیں اس کے بعد بغیر ماسک کے گھومیں پھریں۔ کندھے سے کندھا ملائیں، شاپنگ کریں، بازاروں میں گھومیں، خوب رش کریں کورونا کا باپ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے آخر ساری دنیا ہمارے خلاف ہی سازشیں کیوں کرتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments