نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن


دو دن پہلے بلوچستان کی ایک بیٹی حسیبہ قمبرانی جب اپنی ایک ویڈیو میں اپنے لاپتہ بھائیوں کے لیے اس ریاست سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ تو اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیونکہ جس درد بھرے لہجے، بہتے آنسوؤں اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ وہ فریاد کر رہی تھی۔ اس سے کسی بھی انسان کا کلیجہ منہ کو آ سکتا ہے۔ مگر معصوم حسیبہ کو شاید یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس ریاست سے وہ انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے، اس کو نہ تو اس کے آنکھوں کے آنسو نظر آئیں گے اور نہ ہی اس کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیں گی۔ کیونکہ وہ ریاست اندھی اور بہری ہے۔

اور اس اندھی اور بہری ریاست میں حسیبہ جیسی اور بھی کئی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں جن کو اس طرح سے اپنے پیاروں کے لا پتہ ہونے پر جب نہ چاہتے ہوئے باہر آنا پڑتا ہے تو ان کو لوگوں کی کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ حسیبہ کی طرح باقی سب لوگ بھی اس ریاست سے صرف اپنے پیاروں کے لیے اتنا سا انصاف مانگتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی جرم مرتکب ہوا ہو تو ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات قائم کیے جائیں اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو ان کو جینے کا حق دے دیا جائے۔ اس حوالے سے مگر اس مفلوج ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ریاست کے بیانیے کے مطابق شاید بلوچستان کے یہ سب لاپتہ لوگ ہی ملک دشمن اور غدار ہوں گے۔ لیکن ریاست کا یہ بیانیہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ کبھی اس کے مطابق پنجاب کے شہر راولپنڈی کے کچھ نوجوانوں کو صرف پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کے جرم میں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ جنھیں بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت پر رہائی ملتی ہے۔ یا جس کے مطابق کبھی خیبر پختونخوا کے علاقہ مردان کے اقبال لالہ ملک دشمن قرار پاتے ہیں جن کے بد نصیب بیٹے مشعال خان کو توہین مذہب کے الزام میں ایک ہجوم کی طرف سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

ایسا ہی کچھ ریاست کی طرف سے سندھ کے علاقہ خیر پور کی شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف توہین مذہب اور غداری کے مقدمہ قائم کرنے سے دیکھنے کو ملا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ جیسے پروفیسر صاحب کے گھر پر دھاوا بولا گیا اور ان کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے ایسے لگا شاید وہ یونیورسٹی میں پڑھانے والے استاد اور کتابیں لکھنے والے مصنف نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک دہشت گرد تھے۔ ویسے کاش پروفیسر صاحب سچ میں کوئی خطرناک دہشت گرد ہی ہوتے تو شاید ان کو ریاست کی طرف سے بہترین قسم کی مہمان نوازی کے بعد فرار کر وادیا جاتا۔ مگر افسوس وہ تو بس اس جاہل سماج میں شعور بانٹنے کا جرم کر رہے تھے۔

یا پھر وہ ایک اور جرم کے مرتکب بھی ہوئے۔ وہ جرم تھا سندھ دھرتی کے ایک بہت بڑے لکھاری عطا محمد بھنبھرو کی وصیت کے مطابق ان کی آخری رسومات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا ۔ بے شمار کتابیں لکھنے والا سندھ دھرتی کا عظیم بیٹا عطا محمد بھنبھرو چار جون کو اپنی دھرتی سے یہ کہتے ہوئے الوداع ہوا کہ ”اس کی موت کے بعد اس کو قبر میں اوندھے منہ لٹا کر اس کی قبر کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے“ کیونکہ ان کے مطابق دریائے سندھ جہاں جہاں سے گزرتا ہے وہ سارے علاقے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ساری عمر وطن پرستی کا پرچار کرنے والے عطا محمد بھنبھرو کے ساتھ تو یہ بھی ظلم ہوا کہ اس کے بیٹے کو اس لیے اغوا کر کے ماردیا گیا کہ شاید اس کا نام راجا داہر تھا۔ اور اس پر بھی ریاست خاموش تماشائی ہی بنی رہی۔

ہاں مگر تب ریاست ضرور حرکت میں آئی جب پروفیسر ساجد سومرو نے عطا محمد بھنبھرو کی وصیت کو پورا کرنے کا جرم کیا تو ریاست کی طرف سے اس پر توہین مذہب کے ساتھ توہین ریاست کا مقدمہ بھی قائم کر دیا گیا۔ اور یہی نہیں جب اس ظلم پر سندھ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے یہ کہہ کر آواز اٹھائی کہ توہین مذہب کے قانون اور ریاست کے رویے میں تبدیلی ناگزیر ہے تو ان کو بھی جمیعت علمائے اسلام (ف) سندھ کے عہدیداروں کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ان پر بھی توہین مذہب کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ اور اس پر بھی ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ بلکہ کچھ بعید نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ پر ریاست کی طرف سے یہ مقدمہ دائر کر بھی دیا جائے۔ ویسے ان کا جرم شاید اس دفعہ کے عورت مارچ میں سکھر کی ریلی منعقد کروانا تھا۔ جس کی سزا ان کو اب اس طرح سے دی جا رہی ہے۔

حالانکہ ڈاکٹر عرفانہ ملاح صرف وہی بات کر رہی ہیں جو سپریم کورٹ کے ججز نے آسیہ مسیح کیس کی سماعت کے دوران کی کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال اپنا ذاتی عناد نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے غلط استعمال پر بھی ویسے ہی سزا ملنی چاہیے جیسے اس کے مرتکب افراد کو ملتی ہے۔ یہ بات کہنے کی پاداش میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی نے اپنی جانیں گنوائیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا کہ توہین مذہب کا قانون بننے کے پہلے 37 سال کے دوران صرف بیس کیس رجسٹرڈ کیے گئے مگر جب ضیاء الحق نے اس میں موت کی سزا شامل کرنے کی ترمیم کی تو 30 سالوں میں اٹھارہ سو سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوچکے۔

سینکڑوں لوگوں کو عدالت جانے سے پہلے ہی مار دیا گیا اور کئی جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ بھی ہیں۔ جو 2013 سے اپنے اوپر لگائے گئے بظاہر جھوٹے توہین مذہب کے الزام کی وجہ سے جیل میں سڑرہے ہیں۔ ان کا مقدمہ لڑنے والے وکیل راشد رحمان کو بیدردی سے مار دیا گیا۔ اب جنید کو انصاف ملنا تو درکنار اس کا مقدمہ لڑنے کو کوئی وکیل تیار ہی نہیں ہے۔ اور اس ریاست کے اداروں نے جب اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قانون سازی کروانی ہو تو فوراً کروا لیتے ہیں مگر اس معاملے پر مذہبی جنونیوں کے ڈر کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی جاتی جو کہ بہت مایوس کن ہے۔ چاہے اس کے غلط استعمال کی وجہ سے جتنے مرضی لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجائیں ریاست کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔

تو اپنے گمشدہ بھائیوں کے لیے انصاف مانگتی ہوئی حسیبہ قمبرانی ہو یا اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بات کرنے والا اقبال لالہ، یا توہین مذہب کے بظاہر جھوٹے الزام کی وجہ سے انصاف مانگتا ہوا جنید حفیظ ہو یا پھر عطا محمد بھنبھرو کی وصیت پوری کرنے والا پروفیسر ساجد سومرو یا ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والی ڈاکٹر عرفانہ ملاح۔ ان سب کے لیے نا صرف یہ ریاست اندھی اور بہری ہے۔ بلکہ یہ سب ریاست کے مجرم بھی ہیں اس لیے ان کو سزا بھی ضرور ملے گی۔ فیض احمد فیض صاحب نے ہماری اس ریاست اور وطن کے ان حالات کو کیا خوب صورت طریقے سے یوں بیان کر دیا ہے :

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم وجاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments