نظریات زدہ معاشرہ


پاکستان کا خاصہ جبکہ بلوچستان کا مخصوص طبقہ نظریات زدہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل کا شکار ہے۔ پہلے پہل پاکستان کے نظریات زدہ طبقہ جسے زیر بحث لانے سے پہلے ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اس تحریر میں جہاں بھی نظریات زدہ کی بات ہوگی وہاں مذہب بطور دین یا آفاقی اصولوں کی بات ہرگز بھی نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ پاکستان کی کثیر تعداد ترکی نظریات زدہ بنتی جا رہی ہے تو اسے اسلام بطور دین والے نظریہ سے نہ جوڑا جائے بلکہ ترک بطور قوم یا کلچر لیا جائے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں برصغیر کے لوگوں پر غلامی کی جو چھاپ برطانیہ نے لگائی ہے آج تک اس کی تازگی برقرار ہے۔ بلکہ مزید اس چھاپ کو پالش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کا مختلف طبقہ مختلف نظریات زدہ ہے۔ کچھ لوگ ہمیشہ سے سعودی نظریات زدہ رہے ہیں۔ جیسے کسی بھی چیز کے درست و غلط ہونے کا پیمانہ ہمیشہ سعودی کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کا نظام حکومت دیکھا جائے تو وہ بادشاہت ہے مگر پاکستان کا وہ سعودی نظریات زدہ بادشاہت کو جمہوری و اسلامی اصولوں کے مطابق درست نہیں سمجھتا۔

جبکہ سعودی شیخ ان کے نزدیک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے ہی ایک طبقہ ترکی نظریات زدہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ترکی مسلمانوں کا ملک ضرور ہے مگر سیاسی طور پر مسلمان ملک نہیں ہے۔ ترکی واضح طور ایک سیکولر ملک ہے جس کے خلیفہ طیب اردگان کی اہلیہ جہاں بھی جاتی ہیں غیر محرموں سے ہاتھ ملاتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کا ایک طبقہ جو ترکی پر من و عن ایمان لاتا ہے جبکہ ترکی کے سیکولرازم کو قبول نہیں کرتا۔ آپ آج پاکستان میں سیکولر نظام کی بات کریں تو بعید نہیں کہ وہی ترکی نظریات زدہ طبقہ آپ پر کفر کے فتوے تک صادر کردے گا۔ مگر چونکہ وہ ترکی نظریات زدہ ہے اس لئے ترکی کے سیکولرازم میں بھی انہیں مصلحت نظر آئے گی۔

ایسے ہی ایک طبقہ یورپ زدہ ہے جو بات بات پر یورپ کی مثالیں دے گا۔ اس کی نظر میں اگر انسانیت کی معراج، عدل و انصاف کی اوج ، دو نمبریوں سے پاک لوگ، دنیا کی جنت وغیرہ ہے تو وہ یورپ ہی ہے۔ آپ جب بھی کسی مسئلہ پر بات کریں گے تو وہ فوراً سے یورپ کو بطور مثال پیش کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ حل بھی وہی بتایا جائے گا جو یورپ نے نکالا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے اپنے مسائل کا جو حل نکالا ہے ضروری نہیں کہ ہر حل پاکستانی معاشرے کے لئے بھی بہتر ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے معاشرے کے آدھے مسائل غیرت کی نظر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یورپ اس معاملے میں بالکل بے غیرت ہے۔ کیونکہ گوروں میں ماں، بہن، بیٹی، بیوی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ وہ انسانی جسم کی ہر ضرورت کو فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل تک ہو جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر جرائم کا تناسب یورپ سے زیادہ ہے۔ مگر پھر بھی یورپ نظریات زدہ طبقہ ہر ترقی کا راز اور مسائل کا حل یورپ کو ہی بنا کر پیش کرتا ہے۔

اب آتے ہیں بلوچستان کے چند نظریات زدہ لوگوں کی طرف کہ بلوچستان میں ویسے تو سرداروں، نوابوں کو کسی قسم کے نظریات کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ نظریہ ہمیشہ عام آدمی کے لئے ہوتا ہے جب کہ سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ کے لئے سب سے بڑا نظریہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام ہی ہے۔ جو ایسے سرداروں اور نوابوں کی نسلوں تک کے لئے کافی ہے۔ انہیں کسی نظریہ کہ نہیں صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی ہے۔ جبکہ چند سردار و نواب جو فرانس، روس، جرمنی، برطانیہ، وغیرہ جیسی ریاستوں میں رہ کر آئے ہیں وہ اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور لے کر آئے ہیں۔

ایسے سردار و نواب آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر رہ گئے جو نہ مکمل بلوچ سماج کو ساتھ لے کر چل سکے اور نہ ہی اپنے ادھار پر لائے نظریات کی وہ ترویج کرسکے کہ جس سے معاشرے کی ترقی و خوشحالی یقینی ہوجاتی۔ ایسے سردار و نواب گو کہ آٹے میں نمک برابر ہیں مگر وہ بس کسی نظریہ کی زد میں آکر ساری زندگی آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر گزار دیتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی میں بلوچستان کا نوجوان طبقہ بھی مختلف نظریات زدہ ہوچکا ہے۔

کوئی کامریڈی کی اوج پر ہے تو کوئی فیمنسٹ کی معراج پانے کے چکر میں ہے۔ کوئی مارکسزم کو نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے تو کوئی پدرسری کو خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہا ہے۔ الغرض جتنے بھی نظریات ہیں سب ادھار پر لئے گئے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں ان نظریات کو ڈھالنے کی کوشش کی جا رہے ہیں جس کا جغرافیہ، معاشرتی اقدار، آب و ہوا سب موجد نظریہ ریاست سے یکسر مختلف ہے۔ اب ایسے میں زبردستی نظریہ کو پروان چڑھانے کی ناکام کوشش کرنے سے بگاڑ ہی پیدا ہوں گے جو ہو بھی رہے ہیں۔

المختصر ہمارا معاشرہ نظریات زدہ ہے حقائق پسند اور اصولی نہیں۔ ایک چیز ایک معاشرے کے مزاج پر سو فیصد پورا اتر رہی ہے لازمی نہیں کہ وہی چیز کسی دوسرے معاشرے کے لئے بھی اتنا ہی سودمند ہو۔ ممکن ہے وہ چیز دوسرے معاشرے کے مزاج پر ایک فیصد بھی پورا نہ اتر سکے۔ ایک چیز جو کسی خطہ کے لئے سودمند ہے ممکن ہے وہ کسی دوسرے خطہ کے لئے مضر ہو۔ ہر جگہ کے لوگ اپنے جغرافیہ، رسم و رواج، معاشرتی اقدار، معاشی معاملات، خاندانی نظام وغیرہ کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور اپنے معاشرے کے لوگوں کی زندگی کے لئے وہی چیزیں ترتیب دے سکتے ہیں جو اس معاشرے کی ضروریات ہیں۔

اور اگر زبردستی وہ چیزیں نافذ کرنے کی کوشش کی جائیں جسے معاشرے کا مزاج قبول ہی نہیں کرتا تو وہ فرد نہ صرف اپنا بلکہ اس معاشرے کا بھی خاطر خواہ نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے نظریات زدہ لوگ ادھار پر لائے نظریات کی ترویج کرتے کرتے عوام کو ایک ایسے نہج پر لا کھڑا کرچکے ہیں جہاں سے آگے جانا بھی مشکل ہوچکا ہے اور پیچھے جانے کے لئے بھی سفر طویل ہے۔ ہمارا معاشرہ نظریات زدہ ہونے کی وجہ سے بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments