اکیڈمی بنائیں، لاکھوں کمائیں


کیا آپ عشق میں ناکام ہو چکے ہیں؟ محلہ بدر کر دیے گئے ہیں؟ کیا محبوب جوتے مار کے چھوڑ گیا ہے؟ کیا رسوائی آپ کا مقدر ہو چکی ہے؟ کیا ناکامیوں نے گھر کا راہ دیکھ لیا ہے؟ تو بالکل بھی مت گھبرائیے۔ آپ کے ہر مسئلے کا حل ہے ہمارے پاس۔ بلکہ صرف آپ پہ ہی کیا موقوف، ”صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے“ ۔ آہا! ایک شاعر بھی ہمارے ہم نوا ہو گئے ہیں :

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر راہ رکھ دیا

ارے نہیں یہ کسی بنگالی بابا کا اشتہار نہیں ہے۔ ”پانچ منٹ میں کالم نگار بنیے“ کے بعد یہ ہماری دوسری پیش کش ہے۔ یہاں ہم آپ کو ہر ”کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کا “ ایک ایسا نسخہ بتانے جا رہے ہیں۔ جو کسی ’عامل‘ فاضل کے پاس نہیں ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنے کبوتروں والے کھڈے کو صاف کریں اور وہاں اکیڈمی ڈال لیں۔ نہیں، کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہماری بات مانیں اور دن ”دو“ گنی اور رات ”نو“ گنی ترقی کریں۔ ارے محاورے کی غلطی پر مت جائیں بلکہ ملک کی آبادی دیکھیں اور اپنے حالات دیکھیں۔

کیا کہا؟ ڈھیروں سوالات ہیں۔ پاؤ پاؤ کر کے پوچھتے جائیں۔ ”جگہ کہاں سے آئے گی؟“ ۔ جہاں سے آپ آئے۔ لگتا ہے آپ نے کبوتروں کے کھڈے والی بات سنی نہیں۔ البتہ اگر کوئی پرائم لوکیشن درکار ہے تو پھر چائنہ کٹنگ نام کی ایک چیز ہوا کرتی ہے۔ نہیں، یہ پراپرٹی ڈیلر اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اس کا علم ہاؤ سنگ سوسائٹی والوں کو ہوتاہے۔ چلیں وہاں تک پہنچ نہیں تو کوئی پٹواری تو ہو گا جاننے والا؟

” پڑھا لکھا ہونا؟“ بالکل ضروری نہیں۔ ہم اکیڈمی کا مالک بنانے جا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ پرائمری سکول ماسٹر کی سوچ ہی سے باہر نہیں آ پا رہے۔ پیار اور بیوپار کرتے وقت جس قدر دور ممکن ہو، دیکھنا چاہیے۔ پڑھے لکھے اخبار بیچا کریں، کتابیں پڑھا کریں، بجٹ پر بحث کیا کریں۔ بھلا اسمبلیوں اور اکیڈمیوں میں ان کا کیا کام!

” تجربہ؟“ کس چیز کا تجربہ؟ آپ اکیڈمی بنانے جا رہے ہیں، ایٹم بم نہیں۔ یہ تجربے وغیرہ سائنسدانوں کے کام ہیں، آپ کو کیا لینا دینا ایسی واہیات چیزوں سے؟

”فرنیچر، دیگر سامان؟“ کمال ہے۔ عقل کو ہاتھ مارو یار۔ کباڑیے کیا یہی سننے کے لیے علاقے میں عرصے سے کاروبار جمائے بیٹھے ہیں۔ دیگر سامان قریبی سرکاری سکول سے رات کو چوری کرلو۔ نہیں کوئی چوکیدار ووکیدار نہیں ہوتا وہاں۔ بلکہ اگر مزدوروں کی ضرورت پڑے تو محلے کے چرسی وہیں ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات لینا، وہ عام لیبر سے سستے پڑتے ہیں۔

”اساتذہ کی تنخواہ؟“ ارے بھولے بادشاہو! آپ کو وہ لطیفہ تو یاد ہوگا کہ ایک شخص نے ملازم رکھا اور اسے یہ کام دیا کہ ”داتا دربار سے خود کھا آیا کرو اور میرے لیے لے آیا کرو“ ۔ بڑا آسان سا کلیہ ہے۔ جسے ٹیچر بھرتی کریں، اسے پابند کریں کہ دس بیس بچوں کو ساتھ لے کر آئے۔

”ایڈورٹائزمنٹ؟“ بھئی، یہ کلیہ ہم نے کڑی تپسیا کے بعد حاصل کیا تھا۔ مگر اب آپ نے پوچھ لیا ہے تو بتا دیتے ہیں۔ ایسا کریں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین ٹیچرز ہائر کریں۔ وہ تنخواہ کم لیں گی۔ ان کی وجہ سے ایڈمشن زیادہ آئیں گے اور جو اکیڈمی کی چلتی پھرتی ایڈورٹائزمنٹ ہو گی، سو، الگ۔

نہیں، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ ہر ایرا غیرا اکیڈمی کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کافی ساری صلاحیتیں درکار بھی ہیں۔ گو پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں، پر گالیوں میں پی ایچ ڈی لازم ہے۔ اگر پہلے سے آتی ہیں تو کیا ہی کہنے! نہیں آتیں تو فوراً معروف سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا پیج جوائن کریں۔ یہاں سب سے کامیاب اکیڈمی والا وہ ہوتاہے جو دیسی لہجے میں انگریزی گالیاں بکنے کا ہنر جانتا ہو۔

والدین اور طلبہ سے ڈیل کرنے کے لیے خود اعتمادی سے فرفر جھوٹ بولنے کی مشق کیجئے۔ ایک ہی بارہ مصالحوں کی چاٹ سی تقریر یاد کریں اور وقتاً فوقتاً ہر آنے جانے والے کے سامنے دہراتے رہیں۔ جی ایک ہی تقریر۔ صحیح سنا آپ نے۔ نہیں بدل کے کیا کرنی ہے؟ اکیڈمی بنانی ہے، کوئی اقوام متحدہ میں مبصر نہیں لگنا۔ تقریر اور متعلقہ اعتماد کے لیے لاری اڈے بسوں میں پھکی، سرمہ، منجن فروشوں کی خدمات حاصل کریں۔

ٹیچرز کی ڈانٹ ڈپٹ کے لیے صرف گالیاں ہی ضروری نہیں۔ آواز کرخت اور بلند ہونی چاہیے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد بزدل ہوتے ہیں، انہیں کھینچ کر رکھنا چاہیے۔ تاہم زیادہ کھینچ کر ایک سے ”دو“ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اکیڈمی بن جائے تو نت نئے ناموں کے کورسز کا روزمرہ بنیادوں پر اجراء یقینی بنائیں۔ والدین کی جیبوں سے پیسے نکلتے رہیں تو وہ مطمئن رہتے ہیں کہ بچہ پڑھ رہا ہے۔ ہر ٹیچر سے اس کی قابلیت پوچھیں اور اس کے پڑھ رکھے مشکل مشکل مضامین کے آخر میں ’ڈپلومہ‘ اور چند ایک کے شروع میں ’ڈپلومہ ان‘ کا اضافہ کرتے جائیں، اور بس!

”اتنا آسان ہے تو خود کیوں نہیں بنا لیتے؟“ آہ! ہمیں اس سوال کی توقع تھی۔ ذرا اس سامنے بیٹھے آدمی کو تگڑی سی گالی دیں۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ گرو سے بدتمیزی کا کیا انجام ہوتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments