عقل عیار نہیں، معیار ہے


ایک بار میری اہلیہ نے شادی سے پہلے کا ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ وہ ان دنوں بی اے کا امتحان دینے کے لیے راولپنڈی میں مقیم تھی۔ ایک خاتون گھر میں کام کرنے آتی تھی۔ ایک دن کیا ہوا کہ اس خاتون نے گلی میں کھڑے کھڑے امام مسجد کی بہت بے عزتی کی اور اس کو خوب برا بھلا کہا۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو میری اہلیہ نے اسے کہا تمھیں یہ پتہ کیسے چلا کہ مولوی قصوروار ہے۔ اس نے بڑے آرام سے کہا، مینوں سفنا آیا سی۔ (میں نے خواب دیکھا تھا۔)

یہ بات سن کر مجھے بے اختیار ایک کتاب میں پڑھا ہوا صدیوں پہلے فرانس میں رونما ہونے والا واقعہ یاد آ گیا۔

یہ سن 1630 کا وقوعہ ہے۔ پیرس کے قریب ایک قصبے لودوں کے کانونٹ کی راہبات نے ایک نوجوان پادری پر الزام عاید کیا کہ وہ شیطان مجسم ہے اور اس نے اپنے اثرات بد سے تمام کانونٹ کو آلودہ کر دیا ہے۔ اس غریب کو گرفتار کرکے اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں جو شواہد پیش کیے گئے وہ کچھ اتنے واضح نہیں تھے۔ اس مقدمے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ کیا اس پادری کے پاس یہ طاقت تھی کہ وہ کانونٹ کو اپنے شیطانی اثرات سے آلودہ کر سکے؟ جو شخص ایسی طاقت رکھتا ہو، اس پر قابو پانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ وہ گرفتار کرنے والوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ کیا ان اثرات بد کو کسی قابل قبول شہادت سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ راہبات کی گواہی بھی بس اتنی تھی کہ وہ ان کے خوابوں میں آ کر انھیں گمراہ کرتا ہے۔ یہ سوال بھی اہم تھا کیا شیطان بائبل پر حلف اٹھا کر گواہی دے سکتا ہے؟ اس سوال پر سوربوں یونیورسٹی کی تھیالوجی کی فیکلٹی سے بھی فتوی لیا گیا تھا۔

یعنی اس وقت خواب کو بھی شہادت تسلیم کر لیا جاتا تھا اور اس کی بنیاد پر کسی شخص کو گرفتار کرکے اس پر مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکتی تھی۔ اس کے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے خواب کی بنیاد پر کیے گئے ایک عمل کو سخت تنقید کا ہدف بنایا تھا۔

اتفاقات اور اسباب میں خلط مبحث

خوابوں پر یقین کرنے کے علاوہ مختلف اتفاقات کو ملا کر ان سے نتیجہ اخذ کرنا اور اس کو درست سمجھنا انسانوں کی قدیم عادت ہے اور آج بھی اس کا چلن اتنا ہی عام ہے۔

 زمانہ قدیم سے سورج اور چاند گرہن کو منحوس کہا جاتا تھا اور یہ خیال آج تک مقبول ہے، حالانکہ بابل کے ستارہ شناس کوئی چار ہزار برس قبل گرہن کا اصل سبب دریافت کر چکے تھے اور کسی حد تک اس کی پیش گوئی کرنے کے قابل بھی ہو چکے تھے۔ لیکن مذہبی پروہتوں نے عوام کو اس کی وجہ سے آگاہ نہ کیا اور پیش گوئیوں کو اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح دمدار ستاروں کو کئی صدیوں تک منحوس سمجھا جاتا تھا۔ “سیزر کی موت کی پیش گوئی ایک دمدار ستارے نے کی تھی۔ شیکسپئر کہتا ہے: “جب بھکاری مرتے ہیں تو دم دار تارے دکھائی نہیں دیتے؛ شاہوں کی موت پر آسمان شعلے برسانے لگتا ہے”۔ (معاشرے پر سائنس کے اثرات۔ اردو ترجمہ بشیر احمد چشتی)

غیر متعلق بات کو سبب قرار دینے کے ایسے ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے رسل نے ظریفانہ تبصرہ کیا ہےَ۔

“لندن میں پلیگ اور آگ (1666)  کے بعد دارالعوام کی ایک ذیلی مجلس نے ان حادثات کی وجوہات کی تفتیش کی۔ عام طور پر اس کی وجہ خدا کی ناراضگی خیال کی گئی، حالانکہ اس ناراضگی کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ مجلس نے فیصلہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ٹامس ہابس کی تصانیف ناپسند تھیں۔ چنانچہ یہ حکم صادر کر دیا گیا کہ اس کی کوئی کتاب انگلستان میں شائع نہ کی جائے۔ یہ کارروائی موثر ثابت ہوئی۔ اس کے بعد لندن میں کبھی پلیگ نہیں پھیلی، نہ کبھی آگ لگی۔” (ایضاً)

امریکہ کے اخبار میں ایک “تحقیق” شائع ہوئی جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ امریکی صدر رونلڈ ریگن، جو 1980 میں منتخب ہوا تھا، اپنی دوسری ٹرم مکمل نہیں کر پائے گا۔ اس کے ثبوت میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ سن 1840 کے بعد ایسا کوئی بھی امریکی صدر اپنی مدت صدارت مکمل نہیں کر سکا جس کا انتخاب ایسے برس ہوا ہو جس کا اختتام صفر پر ہوتا ہو۔ ولیم ہیریسن سے ابرہام لنکن، جیمز گارفیلڈ، وارن ہیڈنگ، فرینکلن روزویلٹ اور جان کینیڈی سمیت کوئی بھی اپنی مدت صدارت مکمل نہیں کر سکا کیونکہ ان سب کا انتخاب صفر پر ختم ہونے والے سال میں ہوا تھا۔ لہٰذا ریگن بھی اپنی دوسری مدت صدارت مکمل نہیں کر پائے گا۔ صفر پر ختم ہونے والے سال کے علاوہ بھی ان سب کے مابین متعدد دیگر مماثلتوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ صدر ریگن نے اپنی دوسری ٹرم بھی مکمل کی تھی بلکہ اس کے بعد سن 2000 میں منتخب ہونے والے جارج بش جونیر نے بھی بہت سے نیک لوگوں کی دعاوں کے باوجود اپنی دونوں ٹرمز مکمل کیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1840 کا سال بطور خاص کیوں منتخب کیا گیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سے پہلے ایسے ہی برس منتخب ہونے والے دو صدور ٹامس جیفرسن اور جمیز منرو کا انتخاب بھی صفر پر ختم ہونے والے سال میں ہوا تھا لیکن دونوں کی وفات دوران صدارت نہیں ہوئی تھی۔ جب تک یہ وضاحت نہ کی جائے کہ 1840 میں کون سی کائناتی تبدیلی واقع ہوئی تھی جس نے مدت صدارت پر اثرانداز ہونا تھا، یہ مفروضہ اپنی ابتدا ہی سے فکری بد دیانتی پر مبنی شمار ہو گا۔

Bertrand Russell

سند پرستی

جب انسان نے علم کی شاہراہ پر سفر شروع کیا تو اصحاب علم نے خود کو بہت بلند مقام پر فائز کر لیا اور خود کو علم کی صداقت کا معیار بھی بنا لیا۔ جس بات کو وہ صحیح قرار دیتے وہ صحیح اور جس کو غلط کہتے وہ غلط قرار پاتی۔ تعلیم کا مقصد شاگرد کو استاد کی اطاعت کرنا سکھانا تھا۔ شیخ صلاح الدین صاحب نے اپنے ناول “خوشبو کی ہجرت” میں ایک جملے میں اس رویے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے: “گرو کی آگیا کا پالن کرنا چیلے کا دھرم ہے۔”

حق و صداقت کا معیار افراد تھے۔ اس لیے ان افراد پر سوال اٹھانا گناہ کے مترادف تھا۔ ان کی بات بظاہر غلط بھی دکھائی دے تو اس کو غلط نہیں کہنا چاہیے کیونکہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ اگر کوئی بات خلش پیدا کرے تو ہر ممکن توجیہہ کر کے اس بات کو حق کے مطابق قرار دیا جائے۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے شیخ اکبر ابن عربی کے دفاع میں تحریر کردہ اپنی کتاب میں کسی کا یہ قول نقل کیا ہے، “ہر صاحب عقل پر یہ بات حرام ہے کہ اولیاء اللہ میں کسی کے ساتھ بھی بد گمانی رکھے اور اس پر واجب ہے کہ ان کے اقوال و افعال کی تاویل کرتا رہے ۔۔۔ اور پھر جب تاویل کرے تو ان کے کلام کی ستر وجوہ تک تاویل کرے (تا کہ جس طرح بھی ہو ان پر سے اعتراض کو ہٹا دے)۔”

اب میں ایک بہت بڑے ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی کے، جو خود کو الف ثانی کا مجدد بھی قرار دیتے تھے، چند جملے نقل کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے حکما و فلاسفہ کو بیوقوف و احمق قرار دیا اور ان کے علوم کو لایعنی اور بے ہودہ کہا کیونکہ وہ آخرت میں کسی کام نہ آئیں گے۔ خیر ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ لیکن اس ضمن میں انھوں نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ “حضرت عیسی کی دعوت جب افلاطون کو، جو ان بدبختوں کا رئیس ہے، پہنچی تو اس نے کہا کہ ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔ ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں جو ہم کو ہدایت دے۔” اس بنا پر اس کو بے وقوف اور کمینہ قرار دیا۔ (بحوالہ، شیخ محمد اکرام، رود کوثر، ص 170)

اسے افلاطون کی بد قسمتی ہی کہا جائے گا کہ وہ حضرت عیسیٰ سے کوئی ساڑھے تین سو سال پہلے وفات پا چکا تھا، اس لیے ہدایت سے استفادہ نہ کر سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانی تفاوت کو کس طرح دور کیا جائے کیونکہ حضرت صاحب کی بات تو غلط ہو نہیں سکتی؟ لیکن ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ بہت سے اولیا اللہ نے افلاطون کی بہت تعریف کی ہے اور اسے افلاطون الالہٰی قرار دیا ہے۔ اب وہ کمینہ اور احمق تھا یا انتہائی اعلیٰ مقام معرفت پر فائز تھا؟ دونوں میں سے کون سی بات درست ہے؟ یا کسی وقت ایک حالت میں ہوتا تھا اور کسی دوسرے وقت دوسری حالت میں۔ ان معاملات کو میں رسوخ فی التاویل رکھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔

البتہ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تعلیمی نظام میں سند کا تصور آج تک ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ لوگ اس کو ایک بنیادی اصول قرار دینے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ سن 1980 میں امریکن فلوسوفیکل ایسوسی ایشن کے ترجمان جریدے، فلاسفی آف سائنس، میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے چند جملے بطور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔

“ہر شعبہ علم میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جن کے نتائج فکر کو اس میں سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے ماہرین کو تلاش کرے اور ان سے استفسار کرے۔۔۔دور جدید کے علمیات کے اصول وضع کرنے والوں نے ہماری تعلیمی زندگیوں میں ان ماہرین کی اہمیت کو نظر انداز کیا ہے۔۔۔ ہر تعلیم یافتہ اور فہیم شخص کا اصل امتیاز یہ ہے کہ وہ مختلف موضوعات پر مقام سند پر فائز لوگوں کو تلاش کرتا، ان سے استفادہ کرتا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔۔۔ تعلیم اسی صورت موثر ہو سکتی ہے جب وہ لوگوں کو شعبہ ہائے علم میں مقام سند پر فائز لوگوں کا احترام کرنا سکھائے۔۔۔ اتھارٹی کا پاس لحاظ کرنا تعلیم یافتہ افراد کا عام وتیرہ ہی نہیں، بلکہ اصولی اعتبار سے یہی درست طریقہ ہے۔”

منطق کی نصابی کتابوں میں منطقی مغالطوں کا بیان کرتے ہوئے سند کے مغالطے کا بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن اکثر مصنفین یہ ثابت کرنے پر زور لگاتے ہیں کہ بہرحال کچھ افراد کو ہر شعبہ علم میں سند ماننا ہی پڑتا ہے۔

انفرادی پسند ناپسند سے قطع نظر، جدید دور میں علم کی تیز رفتار ترقی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اسے شخصی تصدیق سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ کسی علمی رائے کے حق یا مخالفت میں فیصلہ صرف ایسے شواہد کی بنا پر کیا جاتا ہے جن کی آزادانہ جانچ پرکھ ممکن ہو۔ تاہم اس اصول کا اطلاق منطق اور ریاضی کے علاوہ صرف طبعی علوم پر کیا جا سکتا ہے۔ باقی شعبہ ہائے علم میں قیل و قال کی بہت کچھ گنجائش موجود ہے۔ شخصی سند کا تصور اگرچہ بہت حد تک ختم ہو چکا ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں کی یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مارکس اور فرائڈ کو معیار حق مانتے ہیں۔

شواہد کی جانچ پرکھ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نام نہاد عقلی اصولوں نے بھی حایل کیے رکھی ہے۔ عقل کے درست دائرہ کار کو نہ سمجھنے کی بنا پر عقلی دلائل سے امور واقعی کو طے کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

 انسان کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں، اس کا فیصلہ ان کو گن کر ہی کیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی عقلی اصول کی بنا پر۔ روایتی طور پر چونکہ عورت کو مرد سے کم تر سمجھا گیا ہے اس لیے ارسطو نے کہا کہ عورت کے دانت مرد سے کم ہوتے ہیں۔ اس پر رسل کا کہنا ہے کہ ارسطو نے دو شادیاں کی تھیں، لیکن اسے کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ اپنی بیگمات کا منہ کھول کر ان کے دانت ہی گن لیتا۔

علم ہیئت میں یہ عقلی اصول بہت پہلے طے ہو چکا تھا کہ زمین کے گرد گرش کرنے والے سیاروں کی تعداد صرف سات ہو سکتی ہے، کم نہ زیادہ۔ اب اسی عقلی اصول کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی منہاج کے باوا آدم سر فرانسس بیکن کی دلیل ملاحظہ کیجیے:

جانداروں کے کاسہ سر میں سات دریچے ودیعت کیے گئے ہیں جن سے خیمہ جسم میں ہوا داخل ہوتی ہے تاکہ ان کو روشنی، حرارت اور نشو و نما فراہم کرے ۔ جہان اصغر کے یہ سات اعضا کون سے ہیں : دو نتھنے، دو آنکھیں ، دو کان اور ایک منہ ۔ چنانچہ اسی طرح افلاک یعنی جہان اکبر میں دو ستارے مبارک، دو نامبارک، دو تابندہ ہیں اور عطارد متذبذب اور غیر طے شدہ ہے ۔ اس مماثلت، اور ایسی بہت سی دیگر مماثلتوں مثلاً سات دھاتوں سمیت جن کا شمار بہت مشکل ہے، ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سیاروں کی تعداد لازماً سات ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آج سکول کا بچہ بھی اس دلیل کو سن کر ہنس پڑے گا۔ اس کے لیے کاسہ سر کے سات سوراخوں اور سات سیاروں میں مماثلت کو سمجھنا مشکل ہو گا لیکن ایک وقت تھا جب اس قسم کے دلائل کو بسہولت تسلیم کر لیا جاتا تھا۔

جب گیلی لیو نے پادریوں کو اپنی دوربین سے سیارہ مشتری کے چاند دیکھنے کی دعوت دی تو ان لوگوں نے انکار کر دیا۔ یہ انکار کسی تعصب اور تنگ نظری پر مبنی نہیں تھا۔ وہ دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ سیاروں کی تعداد عقلی طور پر ثابت ہو چکی ہے اور وہ سات سیارے ہمیں پتہ ہیں تو پھر دوربین سے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

یہ بات صرف انیسویں صدی کے آخری ربع میں واضح ہوئی کہ منطقی دلائل سے خارجی دنیا کی حقیقتوں کا اثبات نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں اس بات کو برٹرینڈ رسل اور آئن سٹائن نے زیادہ وضاحت سے بیان کیا کہ منطقی دلائل کا کہاں اطلاق ہو سکتا ہے اور کہاں نہیں۔ زمین گول ہے یا فلیٹ؟ ان میں سے کسی بھی آپشن کو اختیار کرنے میں منطق ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ “زمین گول ہے اور گول نہیں” تو منطق صرف اتنا بتا سکتی ہے، ان دونوں باتوں کو بیک وقت درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں بیانات میں لازماً ایک صادق اور دوسرا کاذب ہے۔ لیکن کونسا صادق ہے اور کونسا کاذب، یہ فیصلہ کرنے میں ہمیں منطقی نہیں بلکہ تجربی دلائل کی ضرورت پڑے گی۔ آئن سٹائن کہا کرتا تھا کہ جو جملے صادق ہوتے ہیں وہ ہمیں کائنات کے بارے میں کوئی خبر نہیں دیتے، اور جو کائنات کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ بدقسمتی سے سچ نہیں ہوتے۔

انسانوں میں کچھ ایسے خصائص پائےجاتے ہیں جن کا مجموعی نام عقل یا معقولیت ہے، اس میں حافظہ، منصوبہ بندی اور تنظیم، کسی اشتہا کی تسکین کو التوا میں ڈالنا، استدلال اورجمع تفریق سے کام لینا، بامعنی اور پرمغز ابلاغ کے لیے زبان کا استعمال کرنا، مسائل کا ادراک کرنا اور ان کو حل کرنے کی سعی و جہد کرنا شامل ہے۔

معقولیت کا سب سے موثر اظہار اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی عقل کو کچھ مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ علم کسی مقصد کو حاصل کرنے کا زیادہ موثر طریقہ ہے بہ نسبت جہالت کے۔ چنانچہ ہماری معقولیت کا بہترین اظہار اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ اس عمل میں شواہد کی جانچ پرکھ کرنا، متعلق کو غیر متعلق سے الگ کرنا، واقعات کے اصل اسباب کو دریافت کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ علم کا مقصد بھی افہام و تفہیم کو فروغ دینا ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں پر غلبہ پانا۔

عقل کوئی ایسا جوہر نہیں جو تمام انسانوں میں برابر مقدار میں پایا جاتا ہو۔ یعنی اصل سوال یہ نہیں کہ انسان عاقل ہے یا نہیں بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کی بہ نسبت عقل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ انسان اور دیگر حیوانوں میں فرق یہ ہے کہ انسان تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی وہ غلطی کرتا اور اس سے سبق سیکھتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اس صلاحیت میں بھی متفاوت ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو تجربے سے کچھ نہیں سیکھتے اور بار بار انھی غلطیوں کو دہراتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments