اشیا کی مرمت کا حق اب چھیننا ہی پڑے گا


آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا عنوان ہے؟ مرمت کا حق کیا بلا ہے اور کس نے یہ چھینا ہے کہ اس کی واپسی کی بات کی جا رہی ہے۔ مرمت ہمارے اذہان میں تو کوئی ایسی چیز نہیں جس سے کوئی آپ کو روکتا ہو لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سامنے آئے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کی پیروکار کمپنیاں یہ حق مختلف طریقوں سے صارفین سے چھیننے میں مصروف ہیں اور آگاہ صارف اس حق کو واپس حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور بہت سی سطح پر یہ جنگ جاری ہے۔

گزشتہ زمانے میں مرمت ایک ضروری چیز سمجھی جاتی تھی اور چیزیں تب تک نہیں پھینکی جاتی تھیں جب تک ان کی مرمت ممکن ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں۔ آلات اب بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں اور ان میں سافٹویئر کے استعمال کی وجہ سے آپ یا کوئی عام ٹیکنیشن مرمت خود نہیں کر سکتا بلکہ آپ کو کمپنی کے اپنے مرمتی مراکز پر جانا پڑتا ہے جہاں پر کچھ بنیادی مرمت تو کر دی جاتی ہے لیکن اکثر نئی چیز خرید لینے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کمپنیاں جان بوجھ کر متروکیت کی منصوبہ بندی بھی کرتی ہیں تاکہ صارف نئی چیز خریدنے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ ایپل کمپنی پرانے آئی فون کو جان بوجھ کر آہستہ کرتی ہوئی پکڑی گئی تھی اور بعد میں انہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہم تو اس لیے آہستہ کر رہے تھے کہ کہیں بیٹری زیادہ کرنٹ نکالنے کی وجہ سے خراب نہ ہو جائے۔

لگتا ہیں ایپل والے سمجھتے ہیں کہ شاید صارفین روٹی کو چوچی کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی آپ سب کا تجربہ ہو گا کہ ہونڈا اور ٹویوٹا کی ورکشاپس کتنا زیادہ پیسہ مرمت کے لئے طلب کرتی ہیں جبکہ وہی چیز دوسرے مکینک کہیں کم میں کر دیتے ہیں۔ لیکن جوں جوں گاڑیوں میں کمپیوٹر بڑھتے جا رہے ہیں، ان کی مرمت صرف کمپنی کی اپنی ورکشاپ ( منہ مانگے داموں ) کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ اور یہ ورکشاپس بھی مرمت سے زیادہ تبدیلی پر یقین رکھتی ہیں۔

2012 میں میں نے کین وڈ کمپنی کی آٹو میٹک واشنگ مشین خریدی اور جو تھوڑے بہت مسائل آتے رہے وہ حل ہوتے رہے۔ 2018 میں مشین زیادہ خراب ہوئی اور اس میں ایک ایرر کوڈ سامنے آ گیا۔ میں نے کمپنی کے مددگار نمبر پر کال کی اور ٹیکنیشن گھر آیا اور کچھ چھیڑ چھاڑ کر کے فیس لے کر چلا گیا لیکن دوسرے دن پھر وہی معاملہ، پھر وہ آیا اور پھر فیس لے کر لیکن معاملہ دوبارہ شروع۔ مشین سروس سینٹر بھجوائی تو جواب آیا کہ آپ کی مشین کی موٹر جواب دے گئی ہے اور چونکہ یہ بہت پرانی مشین ہے لہذا اب اس کے پارٹس نہیں آ رہے تو آپ نئی مشین خریدنے پر غور کریں۔

اب پارٹس کی ضرورت نئی مشین کو تو نہیں پیش آئے گی، کوئی کار تو نہیں کہ ایکسیڈنٹ ہو جائے اور نئی کار کو پارٹس کی ضرورت پڑ جائے اور نہ ہی چھ سال کوئی بہت زیادہ عرصہ ہے۔ مرمتی مرکز والے تو پرانی پرانی اس طرح کر رہے تھے کہ میں گھر کے سٹور سے دادا ابو کی کوئی ملکیتی مشین اٹھا لایا ہوں۔ اب چونکہ میں مرمت جب تک ہو سکے، کروانی چاہیے پر یقین رکھتا ہوں لہذا مارکیٹ میں پتہ کیا اور ایک استاد کا معلوم ہوا کہ وہ کین وڈ کا ماسٹر ہے، اس کے پاس مشین بھجوائی تو پندرہ سو کا ایک سنسر اس نے تبدیل کیا اور تین ہزار مزدوری لی اور دو سال گزر گئے ہیں کہ ساٹھ ہزار کی نئی مشین کا خرچہ بچ گیا ہے۔

اب یہ کچھ اس مکینک نے تجربہ سے سیکھا تھا کیونکہ کمپنی نہ ہی اپنے پراڈکٹس کی انجینئرنگ ڈایاگرامز کسی کو دیتی ہے اور نہ ہی کوئی رپیئر مینول۔ پاکستان میں تو پھر بھی ایسے کاریگر مل جاتے ہیں جو جوڑ توڑ اور جگاڑ سے چیزیں ٹھیک کر لیتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں تو خراب چیز کو صرف پھینکا ہی جا سکتا ہے کیونکہ مرمت تبدیلی سے مہنگی پڑتی ہے۔

آج کل کمپنیاں باقاعدہ طور پر پارٹس میں سافٹویئر کے لاک لگا رہی ہیں تاکہ مارکیٹ کے کاریگر خود سے کھول کر مرمت نہ کر سکیں یا ایک مشین سے دوسری مشین میں پرزے تبدیل نہ کر سکیں۔ ایک امریکی کاشتکار کائلی شوارٹنگ نے بجائے ہزاروں ڈالر خرچ کر کے (ٹریکٹر کو لاد کر دوسری ریاست میں مرمتی مرکز میں لے جانے کے ) ، خود سے پارٹ لگایا اور سافٹویئر لاک کو ہیک کر کے توڑ دیا۔ معلوم ہونے پر ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ’جان ڈری‘ اس کے خلاف عدالت میں چلی گئی، حالانکہ امریکی قانون اپنی ملکیت میں موجود آلات کو ہیک کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے۔

لیکن چونکہ سافٹویئر قانون کے مطابق کمپنی کی ملکیت ہوتا ہے اور خریدار اس کا لائسنس یافتہ صارف، تو عدالت میں کمپنی نے موقف اختیار کیا کہ ٹریکٹر میں چونکہ سافٹویئر لگا ہوا ہے جو کہ اس ٹریکٹر کی روح ہے لہذا درحقیقت وہ کاشتکار صرف ٹریکٹر کا لائسنس یافتہ آپریٹر ہے اور اصل مالک کمپنی ہی تھی اور یہ ہیکنگ ایک جرم ہے۔

اب آج کل کون سی ایسی چیز ہے جس میں سافٹویئر نہیں ڈالا جا رہا؟ ہر چیز میں تو سافٹویئر گھسایا جا رہا ہے جہاں پر پہلے ہارڈویئر کی مدد سے چیز بہترین چلتی تھی۔ شاید اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ یہ لالچی کمپنیاں اس لیے اس طرح کی حرکتیں کر رہی ہیں کہ اگر ایک نیا پرزہ یا کیمرہ لگانے پر آئی فون دس اگلے ماڈل میں تبدیل ہو جائے اور وہ پرزے بھی اوپن مارکیٹ میں فروخت ہوں تو اگلا ماڈل کون خریدے گا اور ایپل کے منافع میں کس طرح اضافہ ہو گا؟ کمپنیاں مسلسل ایسے ڈیزائن بنا رہی ہیں کہ خرابی کی صورت میں چیز ٹھیک ہی نہ کی جا سکے اور لاکھوں کی چیز تبدیل کرنا پڑے اور منافع میں اضافہ ہو۔

اب مرمت کے حق پر تمام دنیا میں بات ہو رہی ہے اور حکومتوں اور صارفین کی کاوشوں سے معیار مقرر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ چیزیں اس طرح ڈیزائن کی جائیں کہ مرمت آسانی سے ہو سکے۔ یورپی یونین نے اس معاملے میں پہلا قدم اٹھایا ہے اور ایک نیا معیار لاگو کیا ہے جس میں گھریلو اشیا بنانے والی کمپنیاں کم از کم دس سال تک فریج، واشنگ مشین، اوون وغیرہ کے پارٹس فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور باقی سب معلومات پیشہ ور کاریگر حضرات کو فراہم کریں گی لیکن صارفین جو اپنی چیزوں کے وارنٹی ختم ہوتے ہی خراب ہو جانے پر سیخ پا ہیں، یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو خود یہ چیزیں حاصل کرنے اور مرمت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ ایک نیا معیار زیر غور ہے جس میں یورپ میں بیچی جانے والی تمام اشیا کے ڈیزائن کرتے وقت تین چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ (الف) ان کی مرمت آسانی سے کی جا سکے۔ (ب) ان کے حصے آسانی سے تبدیل یا دوبارہ استعمال ہو سکیں یا وہ خود کسی اور بڑی مشین میں بطور حصہ استعمال ہو سکیں۔ (ج) ان کو بغیر مکمل نئی چیز بنائے اپ گریڈ یا بہتر کیا جا سکے یعنی کہ ان میں آئندہ بہتری کی گنجائش رکھی جا سکے۔

اس کے لئے آر آر یو کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے یعنی کہ رپیئر، رپلیس اور اپ گریڈ۔ امریکہ میں بھی مرمت سکھانے والی ویب سائٹ آئی فکس اٹ نے صارفین کی ایک قرارداد بنائی ہے کہ گورنمنٹ قانون سازی کے ذریعے مندرجہ ذیل حقوق صارفین کو فراہم کرے۔ (الف) اپنی ملکیت میں موجود چیز کھولنے کا حق۔ (ب) اپنی ملکیت میں موجود چیز میں تبدیلی یا مرمت کرنے کا حق۔ (ج) اپنی ملکیت میں موجود چیز میں موجود سافٹویئر کو توڑنے کا حق۔

اس کے علاوہ اور گورنمنٹ ان چیزوں کو یقینی بنائے۔ (الف) عام مکینک کی مرمتی معلومات تک رسائی (ب) مرمت کے قابل ڈیزائن (ج) کمپنی کے قائم شدہ مراکز کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی مرمت کا ہو سکنا۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ کسی بھی مکینک کو مانگنے پر انجینئرنگ ڈایاگرامز اور مرمت کی کتابیں اور سافٹویئر کمپنیاں فراہم کریں تاکہ کمپنی کے اپنے مرمتی مراکز کی مرمت پر اجارہ داری قائم نہ ہو اور مقابلے کی فضا پیدا ہو تاکہ صارفین کو بہتر قیمتوں پر مرمت کی سہولت مل سکے۔

پاکستان میں بھی اب یہ ہر گھر کی کہانی ہے کہ ادھر وارنٹی ختم ہوئی اور ادھر چیز خراب ہو گئی۔ یہ کمپنیاں باقاعدہ طور پر ایسے پارٹس ڈیزائن کر رہی ہیں جو صرف وارنٹی پیریڈ تک مشکل سے کام کریں اور وہ اس بات پر تیار ہیں کہ بے شک انہیں سو میں سے دس کو وارنٹی پیریڈ میں تبدیل کرنا پڑے اگر دوسری طرف وارنٹی ختم ہونے کے بعد چالیس پچاس فیصد اشیا صارفین کو خرابی کی وجہ سے نئی خریدنی پڑیں تو وہ منافع میں ہی رہیں گے، صارفین بے شک خوار ہوتے رہیں، ان کی بلا کو پرواہ۔

مرمت کا حق دینے سے بچنے کے لئے کمپنیاں بھی بہت خرچہ کر کے لابنگ میں مصروف ہیں تاکہ ایسے قوانین یا تو پاس نہ ہو سکیں یا وہ نرم کیے جا سکیں کہ عملاً ان کا کوئی فائدہ نہ رہے۔ امریکا کی ریاست نبراسکا کا مرمت کا حق کا بل ایپل نے شور مچا کر اس طرح ختم کروایا کہ اس سے پورے امریکہ کے فون کھولنے والے مجرم نبراسکا آ جائیں گے جو کہ بعد میں جھوٹ ثابت ہوا لیکن بل ناکام ہو گیا۔ صارفین کی انجمنیں بھی اب ان کمپنیوں کا مقابلہ اس طرح کے نعروں سے کر رہی ہیں کہ کیا آپ کوئی ایسی کار لینا پسند کریں گے جس کے ٹائر آپ تبدیل نہ کروا سکیں یا سائیکل جس کی چین نہ بدل سکیں تو الیکٹرانکس میں کیوں ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں۔

کیوں نہ اس کمپنی کی چیز خریدیں جو وعدہ کرے کے وہ ہمیں چیز کو مرمت کرنے کے تمام اوزار، کتابچے اور سافٹویئر فراہم کرے گی۔ ان کے مطابق اگر آپ چیز خریدتے ہیں تو آپ اس کے مالک ہیں لیکن اگر آپ اسے کھول کر ٹھیک نہیں کر سکتے کہ کمپنی کا سٹکر لگا ہوا ہے تو یہ کس قسم کی ملکیت ہے؟ صرف سٹکر اترنے پر وارنٹی کیوں ختم؟ یا تو کوئی غیر معیاری مرمت نظر آ رہی ہو؟ امریکہ میں حالیہ صدارتی مہم میں امیدوار الزبتھ وارن نے مرمت کے حق کی حمایت کی اور کامیابی کی صورت میں اس پر قانون سازی کا وعدہ کیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں حالانکہ وہ تمام امیدواروں میں سب سے قابل تھیں۔

مرمت کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ رہی ہے کہ کچرا بہت بڑھتا جا رہا ہے اور اگر چیز خراب کر کر کے ہم پھینکتے رہے تو مشہور ہالی وڈ کارٹون فلم ”وال ای“ کی طرح دنیا صرف کچرے کے ڈھیروں پر مشتمل ہو گی اور کسی ذی روح کے لئے اس میں رہنے کی جگہ نہیں بچے گی۔ ایک آئی فون بنانے میں جو معدنیات استعمال ہوتی ہیں ان کے لئے کئی سو ٹن پتھر کانوں میں سے کھود کر نکالنے پڑتے ہیں اور ان کی صفائی میں جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں اس سے آلودگی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن کچرے میں گئے آئی فون سے ان معدنیات کو واپس آسانی سے نہیں نکالا جا سکتا کہ دوبارہ استعمال کر لیں۔ اس سلسلے میں سیدھی معیشت (بنائیں، استعمال کریں اور پھینک دیں ) کی بجائے ماضی کی طرح دائروی معیشت کی بات ہو رہی ہے کہ ایک چیز استعمال کے بعد دوسرے کا حصہ بن جائے اور کچرے میں اضافہ نہ ہو کیونکہ پہلے زمانے میں ہر چیز کو خرابی کے بعد دوبارہ کسی اور طرح استعمال کر لیا جاتا تھا اور کچرا تو خال خال ہی بچتا تھا۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی پیروکار ان کمپنیوں نے اس طرح چیزیں بنائی ہیں کہ وہ صرف کچھ عرصہ چلتی ہیں اور پھر صرف کچرا ہی بن سکتی ہیں اور ان کا دوسرا کوئی استعمال نہیں ہو سکتا۔ پہلے چیزیں نسل در نسل چلا کرتی تھیں اب سالوں میں تبدیل کرنا پڑتی ہیں اور الیکٹرانک کچرے میں اس وجہ سے بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ آج تو عام صارف کو وہ آلودگی نظر نہیں آ رہی لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اور ایک دن تو یہ آلودگی کا سمندر گھر کے دروازے سے ٹکرائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments