ماسی شریفاں پولیس کے ساتھ کیوں آئی؟


جس زمانے میں نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والے ہر بچے نے ہوش سنبھالا وہ دور پنجابی فلموں کے عروج کا زمانہ تھا۔ باجرے دی راکھی، اور میرا لونگ گواچا جیسے گانوں کو الاپتی انجمن اور مسرت شاہین ہر گھر کی رونق تھی۔ انٹرنیٹ سے بے خبر عوام کے پسندیدہ گانوں کی پذیرائی ہاری کے گھر میں کبھی کبھار پکنے والے بکرے کے گوشت کی طرح کی جاتی۔ ایک گھر سے مغنیہ کی پاٹ دار آواز سنتے ہی جیسے ساری گلی کو خبر ہو جاتی اور کچھ ہی سیکنڈ میں سارا محلہ اس آواز سے گونج رہا ہوتا۔

اس زمانے میں میرا واحد مشغلہ گھر میں موجود گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں بیٹھ کر ہر آنے جانے والے کو دیکھنا تھا۔ سکول کے بعد میرا سارا وقت اس بے ثمر مشغلے میں گزر جاتا۔ گلی ایک طرف سے بند اور رنگ برنگ کرداروں سے گویا اٹا اٹ بھری پڑی تھی اور میں ہر کردار کو پڑھنے کی شوقین۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں میرا سارا وقت اس کھڑکی سے ناک ٹکائے گزر جاتا۔ یوں تو بہت سے لوگ ہوں گے لیکن میرا پسندیدہ کردار ماسی مریم شریفاں تھی۔ شریفاں اور اس کا خاوند جگت ماسی اور چاچا تھے۔

ماسی شریفاں کے کردار میں میری زیادہ دلچسبی اس کے حلیے کی وجہ سے تھی۔ اس زمانے میں جب عورتیں سیدھی سادی شلوار قمیض پہنتی، ماسی کسی پنجابی فلم کی ہیروئن بنی لاچے اور قمیص میں گھوما کرتی اورمجھے پختہ یقین تھا کہ ماسی اور چاچا بغیر کسی جھجک کے ایک دوسرے کے کپڑے پہنتے ہوں گے کیونکہ دونوں کا ڈریس کوڈ ایک ہی تھا۔ دونوں اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے لیکن رہہن سہن فقیروں سے بھی بدتر۔ ڈھور ڈنگر کے نام پر اللہ جھوٹ نہ بلوائے کوئی پندرہ بیل، گائے اور درجنوں مرغیاں و بکریاں گھر سے ملحقہ احاطے میں ڈکراتے اور ممیاتے پھرتے۔ ساری پوری گلی میں سب سے بڑا اور اتنا ہی ویران ماسی کا گھر ہر وقت ناخوشگوار مہک سے ہمکتا رہتا۔ میری والدہ کبھی کبھار مجھے کھانے کی کوئی چیز ماسی کو دینے کے لئے بھیجتی تو میں گھر داخل ہونے سے ہہلے سانس بند کر لیتی اور اکثر برتن واپس لئے بغیر ہی واپس بھاگ لیتی۔

ماسی کا پسندیدہ مشغلہ لگی دوپہروں میں لوگوں کے صبر کا امتحان لینا تھا۔ وہ اپنی لاٹھی کسی بھی چنیدہ گھر کے دروازے پر مار کر خاتون خانہ کو آواز لگاتی اور تب تک کواڑ پیٹتی رہتی جب تک اندر سے کسی کی آواز نہ آجاتی۔ تب چاچی نہایت تاسف بھرے انداز میں دریافت کرتی،

مڑ سو گئے او؟ اور پھر خود ہی مایوسی سے کہتی اچھا چلو سو جاؤ۔ اور اپنے گھر واپس چلی جاتی۔ شاید وہ اپنے گھر کی ویرانی سے تنگ آ کر باہر آجاتی تھی۔ ماسی کے مقابلے میں چاچا مجھے زیادہ اچھا لگتا جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اپنی زمینوں سے گاجریں لانے کے بعد وہ ان گاجروں کو درجنوں بچوں اور پانی کی موٹر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا۔ بچے ہاتھوں، پاؤں کی مدد سے ساری دوپہروشام پانی اور گاجروں کے ساتھ کھیلتے اور گاجریں بھی دھل جاتیں اور پھر چاچا ان کو منڈی لے جاتا۔

ماسی اور چاچا لاولد تھے۔ بچی ہونے کے باوجود میں لاشعوری طور پر واقف تھی کہ خاوند بڑا اور بیوی چھوٹی ہوتی ہے لیکن یہ فارمولا ماسی اور چاچے تک پہنچتے ہی پھس ہو جاتا۔ ماسی جھریوں بھرے چہرے والی بھدی سی بے لوچ آواز والی بڑھیا تھی جبکہ چاچا جوانی اور بڑھاپے کی سرحدوں کے درمیان کہیں معلق تھا۔ یہ ایک عجیب معمہ تھا جو مجھ سے حل نہ ہو پاتا۔ ماسی کی اکثر محلے کی کچھ خواتین سے جنگ جاری رہتی وہ بھی شاید لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ تھا۔

دونوں اطراف سے ننگے الفاظ کی گولہ باری جاری رہتی اور میں نہایت ذوق و شوق سے ایسی لڑائیاں کھڑکی میں بیٹھ کر دیکھا کرتی۔ ایسے مواقع پر میری چھوٹی بہن ساتھ آکر بیٹھ جاتی یہ بہن اس وقت عجب فسادی طبعیت کی مالکہ تھی وہ نہایت بدمزہ ہوتی جب کوئی تیسرا آکر فریقین کو گھر بھیج دیتا۔ اس کو باقاعدہ اس تیسرے بندے سے نفرت ہو جاتی جس نے اچھے خاصے لائیو شو کا ڈبہ گول کروا دیا ہو۔ ماسی کی لڑائی چلتی اور اس وقت تک چلتی جب تک ماسی اپنی مشہور زمانہ بڑھک نہ مارتی۔ مڑ میرے نال چاں چاں نہ کر میں ایوین نہیں آئی پولساں نال آئی آں۔

اور بس دوسرے فریق کی زبان کو ایسا تالہ لگتا گویا پوری رفتار سے چلتی سلائی مشین کا ناکہ ٹوٹ گیا ہو۔ عورتیں منہ ہی منہ میں بے غیرت جیسے الفاظ ادا کر کے گھر میں واپس چلی جاتیں اور ماسی کے منہ میں جیسے یہ بے غیرت کا لفظ شیر ینی کی طرح گھل جاتا۔ وہ دیر تک کمر پر ہاتھ رکھے گلی کے بیچوں بیج فتوحانہ انداز میں تنی کھڑی رہتی۔ میں حیرت زدہ سوچتی کہ یہ پولیس کا کیا چکر ہے اور آخر ماسی چاچے سے بڑی کیوں ہے۔ اس بات کا خلاصہ بھی جلد ہی ہو گیا۔

ایک شام ماسی ہمارے گھر آئی۔ دودھ، دہی، پسینے کی بدبو سے لپٹی روتی ماسی کو دیکھتے ہی میرے بہن بھائی منہ بناتے ادھر ادھر ہوگئے لیکن میں جس نے ماسی کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا اپنی امی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔ میری امی نے اشاروں کنایوں میں اور آخر کار آنکھیں نکال کر بہتیرا کوشش کی کہ میں اٹھ کر چلی جاؤں لیکن میرے اندر ایسے موقعوں پر ایک عجیب چالاکی بھری معصومیت آجاتی تھی اور میں ایسا کند ذہن بچہ بن جاتی جسے اشاروں کی سمجھ ہی نہ آتی۔ اس دن بھی میں نے یوں ہی کیا اور جم کر بیٹھی رہی۔ وہ دن الجھنوں کے سلجھنے کا دن تھا۔

پتہ چلا کہ چاچا بیشک اولاد سے محروم تھا لیکن ماسی کے پورے پانچ بچے تھے جو پہلے خاوند سے تھے۔ ہفتہ پہلے ماسی کی بیٹی کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تھی اور ماسی کو اسے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ وہی بیٹی تھی جس کے ہونے والے شوہر کے ساتھ ماسی نے عین اپنے خاندان کی ناک کے نیچے عشق لڑایا تھا۔ چاچا جو اس زمانے میں بیس بائیس سال کا جوان ہوتا تھا ماسی کے گھر اس کی بیٹی کا رشتہ دیکھنے گیا تھا لیکن وائے قسمت ماسی کی کمسن بیٹی تو کیا پسند آتی اس کی بجائے اونچی لمبی کھڑے ناک نقشے والی پختہ عمر ماسی پر چاچا ریجھ گیا یا ماسی کا دل آ گیا یہ ہنوز معمہ ہے۔

عشق کا گھوڑا منہ زور ہوتا ہے اور لگاموں کے بغیر بھی بڑی سیدھ میں دوڑتا ہے۔ ہاہاکار تب مچی جب ماسی رات کے اندھیرے میں چاچے کے ساتھ بھاگ نکلی۔ پہلے خاوند سے طلاق لینے کا خیال غیر ضروری سا تھا کیونکہ وہ طلاق تو نہ دیتا البتہ ٹوٹے ضرور کر دیتا۔ اور ویسے بھی ماسی، چاچے نے دل میں سوچا ہو گا کہ آگہی عذاب ہے اور دین کا خیال بس نکاح کے کلموں کی حد تک رہے تو زندگی آسانی سے گزرتی ہے۔ سو کلمے انہوں نے پڑھ لئے اور ساتھ رہنے لگے۔ ایک آدھ دن بعد پولیس کے ہمراہ ماسی کا سابقہ خاوند آیا تو محلے والوں کو پتہ چلا کہ ماسی کیا چن چڑھا کر آئی ہے۔ ڈاڈھی قسم کی خاتون تھی سو کسی طرح پولیس کو بھی سنبھال لیا۔ اور ساری زندگی کے لئے یہ داغ تمغے کی طرح سینے پر سجا لیا۔

چاچے کے عشق میں جھومتی جھامتی ماسی نے خاندان، گھر، معاشرے مذہب کسی چیز کی پرواہ نہ کی۔ دنیا کو جوتی کی نوک پر رکھ کر ڈنکے کی چوٹ پر عشق کیا اور رج کے کیا یا شاید عورت کے عشق اور محبت میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ہر زمانے میں عورت نے محبت چھپ کر لیکن عشق کھلے بندوں بے پرواہ ہو کر کیا ہے۔ بہرحال ماسی پانچ بچے پیدا کر چکی تھی اس لئے بچے پیدا کرنے کی کسی بھی قسم کی ہڑک سے اس کا دور دور کا واسطہ نہ تھا۔ لیکن برا ہو چاچے کا جو اب عشق کے خمار سے باہر آ چکا تھا۔

ماسی کو اب آ کر احساس ہوا کہ مرد کا عشق موسمی بخار کی طرح ہوتا ہے جو جتنی تیزی اور شدت کے ساتھ چڑھتا ہے اسی طرح اتر جاتا ہے۔ لیکن ماسی اپنا کیا کرتی جو ابھی سالوں بعد بھی گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی تھی عشق کے دائمی بخار کی مریضہ، ہمہ وقت ہلکا ہلکا تپتی ماسی اب اس بڑھاپے میں بچے کہاں سے پیدا کرتی سو اپنے لیے ایک عدر سوکن کی تلاش میں تھی۔ روایتی مشرقی ذہنیت کی حامل ماسی نے سوچا ہو گا کہ اپنی پسند کی چھانٹ کے بعد لانے والی سوکن میں مناسب کاٹ کی جا سکے گی۔ چاچا احسان مند ہو گا اور نیچے لگ کر رہے گا بیچاری ماسی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ بیوی کا احسان مرد کے لئے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی گھر میں روز پکنے والی دال۔ ماسی تو اپنے دکھڑے رو کر چلی گئی اور ساری گلی کے لئے نیا عذاب پیدا کر گئی۔

اس دن کے بعد سے چاچا سر تاپیر بدل گیا کہاں لڑکھڑاتے قدم اور کہاں گھوڑے جیسی دلکی چال، خضاب میں رنگے بال، ہلکی سی ہونق آمیز بانکپن چھلکاتی مسکراہٹ، ہونٹوں پر گانے۔ گلی کے لونڈے لپاڑے بھی چاچے کو دیکھ کر سیٹیاں مارتے اور وہ غریب اور اکڑتا چلا جاتا۔ مجھے چاچے کی شادی میں ذرا دلچسبی نہ تھی بلکہ اندر ہی اندر میں دل سے دعا گو تھی کہ اس مرد کو کبھی کوئی لڑکی نہ ملے۔ سب سے بڑی افتاد جو آئی وہ چاچا کا ٹیپ ریکارڈر تھا۔ آج بھی دل سے اس ٹیپ ریکارڈر کے لئے بددعائیں نکلتی ہیں ادھر رات ڈھلتی اور مخلوق خدا سونے کی تیاری کرتی اور چاچے کے ارمان گویا عود کر آجاتے۔ متھے تے چمکن وال تو جیسے بنا ہی اس کے لئے تھا۔ میری نیند اس زمانے میں بھی ستر سالہ بوڑھوں والی تھی۔ ادھر چاچے کا ٹیپ ریکارڈر چلتا اور میں اپنی دادی کے سرہانے بیٹھ کر رونا شروع کر دیتی۔ میری مکمل کوشش ہوتی کہ میرے والد جائیں اور چاچے کا ٹیپ ریکارڈر توڑ کر آ جائیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ چاچے کا ٹیپ ریکارڈر اور ماسی کی رشتہ مہم چلتی رہی۔ ایسے ہی مہینوں گزر گئے اور چاچے کا جوش دھیما پڑنے لگا شاید اسے سمجھ آ گئی تھی کہ ماسی نے اسے دوسری شادی کے نام پر چونا لگایا ہے۔ وہ اب جھنجھلانے لگا اوراسی آس نراس کے عالم میں ماسی اپنی ساری فکریں چھوڑ کر دوسرے جہان سدھار گئی۔

جنازے پر کون آیا کون نہیں یہ بات اہم نہیں اہم یہ ہے کہ چاچے نے نہایت تسلی سے ماسی کو قبر میں اتارا اور اپنا احاطہ اور گھر میرے والد کو بیچ کر اپنے بھائی کے پاس چلا گیا۔ کھڑکی کے سامنے سے گزرنے والے دلچسب کردار کم ہوتے گئے یا شاید میں بڑی ہو گئی اس لئے میری توجہ اب بٹ گئی۔ پھر سننے میں آیا کہ چاچے نے شادی کر لی ہے اور اس کی اہلیہ نہایت جوان اور حسین ہے۔ مجھے لگا چاچے کی زندگی کو ایک مقصد مل گیا۔

کچھ برس بعد میرے والد سے ملنے ایک کھوسٹ سا بوڑھا آیا۔ میں اہنے والد کے کہنے پر پانی لے کر گئی تو پتہ چلا یہ تو چاچا ہے۔ عادت سے مجبور میں پھر وہیں بیٹھ گئی میں چاچے کی بیوی کے بارے میں سننا چاہتی تھی اور اتفاق سے میرے والد کو بھی شاید کچھ یاد آیا اور انہوں نے پوچھا۔ ”ہور سناؤ چاچا جی سنیا تسی ویاہ کر لتا سی؟“

چاچے کے چہرے پر بھولی سی مسکراہٹ آئی اس نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

”تے فیر تسی کلے کیوں آئے جے۔ ۔ ۔ اونہاں نال لے آنا سی“ ۔ ابو نے میرے دل کی بات کر دی۔ میں جو اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں بھرے اشتیاق سے دونوں کو دیکھ رہی تھی چاچے کی طرف مڑی۔

چاچے نے ایک گہری سانس بھری اور بولا
”مڑ او تے کسے نال بھج گئی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments