ہم پاکستانی


کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دور حکومت ( 1958 ء تا 1969 ء) میں پاکستان ترقی کی راہ پر خوب گامزن تھا۔ ایسی ترقی جس کا راز جاننے کے لئے آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جانے والے ممالک ملایشیا، تھائی لینڈ اور چائنا وغیرہ کے سرکاری وفود آیا کرتے، وہ ایوب خان کے متعارف کردہ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ سازی اور انفراسٹرکچر کے معلومات اکٹھی کر کے اپنے ملک میں ایسی ہی ترقی کی خواہش لئے واپس تشریف لے جاتے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس عشرے کو ”عظیم عشرے“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ایکسپرٹ اس ترقی کے پیچھے مختلف آراء پیش کرتے ہیں، لیکن میرے نزدیک اس وقت کے پاکستانی عوام بشمول حکمرانوں کے اپنے ملک سے حب الوطنی اور ایک دوسرے سے بھائی چارے کی فضا ہی وہ راز تھا جس نے اس عشرے کو عظیم عشرے کے نام سے موسوم کیا۔

دھیرے دھیرے جب عوام اور حکمران جماعت دونوں اپنے ملک اور ایک دوسرے کو لوٹنے لگے، تو پاکستان کے آنے والی باقی سارے عشرے، عظیم عشرے بننے کے لئے ترسنے لگے۔ آج کل لاکھوں میں بھی وہ ایک پاکستانی بشمول میرے، کا ملنا مشکل ہے جو اپنے آپ سے زیادہ پاکستان اور اپنے دوسرے پاکستانی بھائی کی ترقی چاہتا ہو۔

ایک مزدور سے لے کر افسر، ایک ریڑھی والے سے لے کر بزنس ٹائکون تک، ایک گاؤں کے چھوٹے سے ممبر سے لے کر وزیر اعلیٰ تک، ایک پولیس سپاہی سے لے کر آرمی کے جنرل تک، وزیر اعظم سے لے کر صدر تک سب کے سب پاکستانیوں کو صرف اپنا آپ اور اپنی فیملی عزیز ہے۔ قومی مفاد کو ذاتی خواہش پر ترجیح دینا انتہا درجے کی بیوقوفی اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔

آج کل تو پاکستان اور پاکستانیوں کی حالت اور سوچ انتہائی بری ہے۔ ایک سرکاری ملازم چاہے ایک معمولی سا کلرک ہو یا ایک بڑا افسر کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے۔ سارے پاکستانی سرکاری اور غیر سرکاری سب اپنے دوسرے پاکستانی بھائیوں کو لوٹنے کے عادی بن چکے ہیں۔ یہ ان کا ایک الگ قسم کا نشہ بن چکا ہے۔

یہاں تک کے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا سامان بیچنے والا بھی اپنے پاکستانی بھائی کو زیادہ قیمت پر ایک چیز بیچنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ سرکاری ملازمین رشوت اور کاروباری حضرات ناجائز منافع خوری کو اپنا حق سمجھنے لگ چکے ہیں۔ ان دونوں کے بیچ میں رہنے والوں کی زندگیاں انہوں نے اجیرن کی ہوئی ہیں۔ یہ دونوں طبقے ہر وقت اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ کیسے باقی لوگوں کے جیب میں پڑے نوٹ ان کے اپنے جیبوں میں لایا جائے۔

پاکستان کا سرکاری اور غیر سرکاری ہر ادارہ اس قسم کے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہمارا رونا دھونا اس بات پر ختم ہوتا کہ پاکستان میں چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز ہی نہیں، اگرچہ ہے پر ان دونوں طبقوں میں موجود لوگ جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، کہاں لاگو کرنے دے رہے ہیں۔ ان کے بیچ چکی میں پسنے والے غریب لوگ اتنا تنگ آچکے ہیں کہ ہر جائز اور ناجائز راستے کی تلاش میں ہر روز نکلتے ہیں تاکہ اس ملک سے فراری حاصل کر سکے۔ کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض غیر کے بارڈر پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جن کے خون کا حساب ان دونوں طبقوں کے رشوت خور اور منافع خور لوگوں نے بہ روز محشر دینا ہوگا۔

میرا ماننا ہے کہ ہر وہ شخص جو قانون کی پاسداری نہیں کرتا، اپنی ڈیوٹی ٹھیک طرح سے سر انجام نہیں دیتا، جو راشی اور منافع خور ہے، پاکستان کی ترقی میں رکاؤٹ ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم پاکستانیوں سے اگر ڈیوٹی کے بارے میں پوچھا جائے تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یار بس سارا دن بیٹھے رہتے ہیں کوئی کام نہیں ہوتا، فیس بک اور یوٹیوب دیکھتے ہوئے اور موبائل پر گیم کھیلتے کھیلتے ڈیوٹی ختم ہو جاتی ہے۔ مطلب کام نہ کرنا اچھا اور کام کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ وہی پاکستانی جب کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے تو دن رات ایک کیا ہوا ہوتا ہے اور باقی سب ملکوں کے لوگوں سے زیادہ کام کرنا پسند کرتا ہے۔ مطلب پاکستان میں رہتے ہوئے سرکاری اور غیر سرکاری سب ملازمین ڈیوٹی چور ہیں، جس پر اپنے ضمیر کو ملامت کرنے کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔

خاکسار بھی شارجہ میں خاک ( ریت ) چھانٹتے چھانٹتے چھ سال گزار چکا ہے۔ غریب الوطنی کے اس عرصے میں پاکستانیوں سے زیادہ کام اور قانون کی پاسداری کرنے والا میں نے کوئی اور ملک کا باشندہ نہیں دیکھا تھا۔ وہی تمیز سے رہنے والے لوگ واپس آتے ہوئے جہاز کا ائر پورٹ پر لینڈ کرنے کے لئے پاکستان کی زمین کو چھونے سے پہلے ہی ساری اخلاقیات بھول جاتے اور اٹھ کر جانوروں کی طرح اپنے سامان کی طرف لپک جاتے، ائر ہوسٹسس بیچاری سمجھاتے سمجھاتے تھک جاتیں کہ جہاز کو تو روک لینے دو۔ وہی پرانی پاکستانیت جو اتنے عرصے تک دبا کے رکھا تھا یک دم جاگ جاتا، ہر قسم قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہنس کر کہتے چلے جاتے کہ پاکستان ہے چلتا ہے۔

اگر کہیں آپ کی طبیعت خراب ہو جائے تو اسپتال اور کلینک میں موجود سفید پوش ڈاکو مطلب ڈاکٹر آپ کے رشتہ داروں سے علاج کے لئے قرض پر لئے ہوئے پیسے لوٹ لیتا ہے۔ تھانوں میں بیٹھے پولیس مصیبت کے وقت اپنے ہاتھ گرم کر لیتے ہیں۔ کسی مقدمے کی قانونی چارہ جوئی کے لئے اگر عدالتوں کا رخ کیا جائے تو وہاں موجود وکیل اور جج حضرات بغیر کوئی فیصلہ سناتے ہوئے عشروں تک آپ کو لوٹتے رہتے ہیں، آخر تھک ہار کر خود ہی کیس واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کوئی چیز لینے بازار کا رخ کریں تو دکاندار آپ کو جتنا چونا لگا سکتا ہے، لگا لیتا ہے۔ جعلی چیز اصل کی قیمت پر تھما دی جاتی ہے۔ اگر روحانی علاج کے لئے کسی پیر یا عامل کا رخ کیا جائے، تو وہ بھی اپنی دو نمبری سے جیب خالی کر لیتا ہے۔

ہمیں ترقی اور مدد نہیں چاہیے صاب، بس ہمیں اس ملک میں بغیر لوٹے جینے دو۔ بڑی مشکل سے کمایا ہوا پیسہ ہمارے پاس رہنے دو۔ ہمیں رشوت دینے پر مجبور مت کرو، ہم سے ناجائز منافع مت کماؤ۔ سکون سے جیو اور جینے دو۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بھائی بھائی ہیں۔ یہی ہماری ترقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments