آپ کی خیریت نیک مطلوب ”چاہتا“ ہوں


گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے میرے کزن نے جو کہ میرا دوست بھی ہے، چند دن پرانا اخبار میرے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ کالم پڑھو۔ میں نے کالم پر ایک نظر ڈالی اور اخبار فوراً پچھلی سیٹ پر یہ کہہ کر پھینک دیا کہ یہ کالم میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں جس میں کالم نویس نے ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور دوائیوں کے خرچوں سے بچنے کے لیے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کم کھانا کھائیں تاکہ وہ بیشتر بیماریوں سے بچ سکیں۔ میرا کزن کچھ دیر خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا۔

میرا اندازہ ٹھیک تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا کہ تم ہر وقت سیاسی موضوعات اور جنگ عظیم اول و دوئم کی تفصیلات لکھ کر لوگوں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے عوام کے مسائل پر لکھا کرو۔ اس نے عوام کی معاشی مشکلات اور وبا سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ عوام کو صحت کے حوالے سے آج کل بڑے مسائل کا سامنا ہے جس کا سب کو احساس ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ میں کوئی ڈاکٹر یا حکیم تو ہوں نہیں اور نہ ہی مجھے اس موضوع میں کوئی دلچسپی ہے۔

میرا کزن بہت سیدھا سادہ آدمی ہے لیکن وہ بہت جذباتی بھی ہے۔ دوران سفر جب کبھی اس کے ساتھ بحث ہوتی ہے تو وہ غیر ارادی طور پر گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک بڑھا دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ خراب سڑک پر گاڑی کی سپیڈ آج پھر سو کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے۔ اس نے اب گاڑی چلاتے ہوئے باقاعدہ میری طرف منہ پھیر کر پوچھا کہ کیا تم عوام کی خیریت نیک مطلوب نہیں چاہتے؟ میں اس کے اس رویے کا عادی ہوں۔ میں نے اسے نارمل کرنے کے لئے اس کی تعریف کی اور کہا کہ آپ ان چند لوگوں میں سے ہو جو صحیح معنوں میں عوام کا درد رکھتے ہیں۔ میں نے نہ صرف اس کی تعریف کی بلکہ جلد سے جلد عوام کی صحت کے حوالے سے لکھنے کا وعدہ بھی کیا۔ وہ مسکرایا اور اس کا نورانی چہرہ کھل اٹھا۔

دوست سے کیے گئے وعدے کو نبھانے کے لئے اگلے ہی دن سے کام شروع کیا۔ میں نے اخبار میں لکھے گئے کالم کو پھر دو مرتبہ پڑھا۔ کالم میں لکھے گئے ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور دوائیوں سے بچنے کے لیے ”کم خوراکی“ کا نسخہ اتنا مجرب، آزمودہ اور حتمی تھا کہ اس پر مزید کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ دو چار حکیموں سے مشورہ کر کے کرونا وائرس کے لئے یونانی، ہومیو پیتھک اور ہربل دوائیوں کو ملا کر کوئی نسخہ تجویز کیا جائے۔

میں نے قریبی قصبے میں واقع یونانی، ہومیو پیتھک اور ہربل حکیموں اور ڈاکٹروں میں سے تین کے ایڈریس حاصل کیے اور تینوں سے علیحدہ، علیحدہ ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے انتہائی مفید لیکن متضاد مشورے دیے۔ میں نے کچھ نوٹس لکھ لیے تاکہ کوئی اہم بات بھول نہ جاؤں اور بعد میں لکھنے میں آسانی رہے۔ اس کے بعد میں نے ایک دوسرے حکیم سے ملنا تھا جو علاج بل غذا کا ماہر تھا۔ میں آسانی سے اس کے چھوٹے سے مطب پہنچ گیا لیکن حکیم صاحب کی ٹوٹی پلاسٹک کی کرسی کو خالی پایا۔

مطب سے متصل ایک حجام کی دکان تھی۔ میں نے سوچا کہ حجام سے حکیم صاحب کا پوچھوں کہ وہ کہاں ہے۔ باریش حجام جس نے موٹے فریم کی عینک لگائی تھی، اپنے ہم عمر گاہک کو جو بیساکھی کے سہارے دکان تک پہنچا تھا کو کرسی پر بٹھانے میں مدد کر رہا تھا۔ میں نے سلام کیا اور حکیم صاحب کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ وہ دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے اور مجھے بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں کچھ دیر قدرے بے خیالی میں اخبار کی شہ سرخیوں پر نظر دوڑاتا رہا۔

حجام گاہک کو بار بار ”پروفیسر صاحب“ کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔ ان کی گفتگو سے مجھے لگا کہ پروفیسر صاحب ان کے مستقل گاہک ہیں۔ وہ کبھی کرونا وائرس اور کبھی حکیم صاحب کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ دونوں موضوعات میرے لیے دلچسپی کے حامل تھے۔ میں نے اب اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر ان کی باتوں کو غور سے سننے کی کوشش کی۔ حجام نے کہا کہ اصل مسئلہ کرونا نہیں بلکہ عوام کے خراب معاشی حالات ہیں۔ ایسے میں ذہنی بیماریاں اور گھریلو جھگڑے تو لازمی ہوں گے اور یہی بات میں حکیم صاحب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے لگا کہ میرے آنے سے پہلے وہ حکیم صاحب کے متعلق کچھ گفتگو کر چکے ہیں۔ حجام اپنی گفتگو میں بار بار ذہنی بیماریوں کی بات کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے ان کی گفتگو میں شامل ہو جاؤں لیکن وہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے کہ وہاں کوئی تیسرا شخص موجود ہی نہ ہو۔

میں نے ایک مرتبہ پھر حجام سے حکیم صاحب کے متعلق پوچھا کہ وہ کب تک آئیں گے۔ حجام نے موٹے فریم کی عینک کو ماتھے پر اٹھا کر پہلی مرتبہ کئی لمحوں تک بڑے غور سے میری طرف دیکھا جیسے وہ میرے جسم اور صحت کا اندازہ لگا رہا ہو اور کہا کہ میں نے انہیں سبزی اور چائے لینے بھیجا ہے۔ بس وہ آتے ہی ہوں گے اور اگر آپ کو زیادہ جلدی ہے تو میں کام ختم کر کے خود تمہیں ان کی دکان سے طاقت کی دوائی نکال کر دے دوں گا۔

مجھے اندازہ تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوراً کہا نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں۔ میں طاقت کی دوائی لینے نہیں آیا بلکہ میں تو صرف ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے حجام کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی اور مجھے لگا کہ حکیم صاحب سے ”بالمشافہ ملاقات“ پر میرے اصرار سے اب اس کا گمان یقین میں بدل گیا ہے۔ اس دوران وہ عینک کو آنکھوں پر جما کر اپنا کام دوبارہ شروع کر چکا تھا۔ میں نے حجام کی غلط فہمی دور کرنے کی پھر کوشش کی اور کہا کہ دراصل میں اپنی نہیں بلکہ عوام کی صحت کے متعلق ان سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔

اس مرتبہ نہ صرف حجام نے بلکہ پروفیسر صاحب نے بھی گردن موڑ کر میری طرف حیرت سے دیکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب وہ دونوں مجھے بیوقوف سمجھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی اور مجھے لگا کہ حجام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ مجھے فوراً دکان سے اٹھنے کا کہے یا مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ میری خوش قسمتی کہ حجام نے غنیمت جانا کہ اب اسے کچھ دیر کے لئے ایک کے بجائے دو سننے والے مل گئے ہیں۔

حجام اب بھی بہ ظاہر پروفیسر صاحب سے مخاطب تھا لیکن اب وہ بولتے ہوئے نظریں اٹھا کر میری طرف بھی دیکھ لیتا تھا۔ اس نے موضوع کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب کو چاہیے کہ وہ میرے نسخے پر پورا پورا عمل کریں کیونکہ تمام ذہنی بیماریوں کا وہی علاج ہے جو میں نے حکیم صاحب کو بتا دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں گے۔

یہ سن کر کہ جس حکیم سے میں نے بائیس کروڑ عوام کی صحت کے متعلق مشورہ کرنا ہے اس وقت خود حجام کے زیر علاج ہے جس کی تمام تر تفصیلات وہ ایک سر جھکائے، ہمہ تن گوش پروفیسر کو بیان کر رہا ہے تو میں حیرت سے اپنی جگہ سے اچھل پڑا لیکن میں نے ساتھ ہی بینچ کے دستے کو مضبوطی سے تھام کر اپنے آپ کو سنبھالا دیا۔ میں نے پروفیسر صاحب جو مکمل خاموشی سے حجام کی باتیں سن رہا تھا سے پوچھا کہ سر آپ کیا پڑھاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے منہ سے کچھ سننے کی حسرت، حسرت ہی رہی کیونکہ ان کے جواب دینے سے پہلے ہی حجام نے کہا کہ پروفیسر صاحب تاریخ پڑھاتے ہیں۔

حکیم صاحب جس سے میں ملاقات کا متمنی تھا، کی اہلیت کا مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر حکیم صاحب ایک گھنٹے سے حجام کے لئے چائے لینے گیا ہوا ہے، حکومت گزشتہ پندرہ دنوں سے تیل لینے گئی ہے، تاریخ کے بال سنوارے جا رہے ہیں، تاریخ کا پروفیسر خاموش بیٹھا ہے، میرا دوست مجھ جیسے شخص جسے میڈیکل سائنس کا کوئی تجربہ نہیں، سے صحت کے مسائل پر مضمون لکھوانا چاہتا ہے اور میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے صحت کی الف، ب کاعلم نہیں، محض اسے خوش کرنے کے لئے لکھنے پر راضی ہو جاتا ہوں جبکہ حجام طاقت کی دوائیاں تقسیم کر رہا ہے تو مجھے عوام پر رحم کھا کر صحت کے حوالے سے کچھ لکھنے کے بجائے ان کے لئے صرف یہ پیغام دینا چاہیے کہ میں ان حالات میں بھی آپ کی خیریت نیک مطلوب ”چاہتا“ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments