کورونا کے سائے میں سفر۔۔ دمشق سے اسلام آباد


دوستان گرامی کی خدمت میں اس بار اسلام آباد سے آداب۔ اگرچہ کرونا کے زیرِ سایہ گزرتے شب و روز پر مزید لکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن مرحوم – کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے یہ سابقہ لکھا ہے- آصف فرخی سے وعدہ تھا کہ ایک آخری باب قلم بند کیا جائے گا۔ اس یارِ مستعجل نے اس سے پہلے ہی گٹھڑی باندھ کر لاد چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے۔۔

احباب واقف ہیں کہ کورونا کی عالمی وبا کے پیشِ نظر دنیا بھر میں پروازوں کی آمد و رفت تعطل کا شکار ہے۔ جو اکا دکا پروازیں چل رہی ہیں وہ خصوصی مقاصد کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ اسی تعطل کے سبب اپنے لگے بندھے معمول کے برعکس اس بار اس خادم کا قیام دمشق طول کھینچ کر قریبا تین ماہ تک پہنچ گیا اورسختی اوقات کے زیرِ اثر فرائض منصبی میں لغزشیں سرزد ہونے لگیں تو ہماری افسر محترمہ رملہ خالدی نے مشورہ دیا کہ چند روز چھٹی لے لوں۔ عرض کیا کہ دمشق میں رہ کر چھٹی لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ خادم تو چھٹی پر گھر جاتا ہے تب بھی سرکاری کام کی جانب سے ایک روز بھی صرفِ نظر نہیں کر پاتا۔

دمشق سے کچھ فاصلے پر بیروت جانے والی شاہراہ پر “یعفور” نامی ایک پر فضا قصبہ ہے۔ بیرون ملک سے لوٹنے والے ہمارے ادارے کے اہل کاروں کے لیے یعفور میں واقع ایک ہوٹل کو مرکزِ حجر یعنی قرنطینہ ٹھہرایا گیا ہے۔ ہر اہل کار پر لازم ہے کہ وہ لوٹتے وقت شامی سرحد پر آمد کے وقت سے بارہ گھنٹے پہلے تک کسی منظور شدہ لیبارٹری سے کورونا کا امتحان کروائے۔ اگر نتیجہ منفی میں آئے تب بھی پانچ رات یعفور میں لازمی قیام درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ادارے نے بھی وہاں چند کمرے اس مقصد کے لیے مستقل مختص کروا رکھے ہیں، جو اکثر خالی پڑے رہتے ہیں۔ سو ایک پیشکش یہ کی گئی کہ چھٹی لے کر وہاں وقت گزارا جائے، لیکن یہ دعوت بھی شکریہ کے ساتھ رد کر دی گئی۔

ایک روز دو اجلاسوں کے درمیانی وقفے کے عام ترین مصرف یعنی سوشل میڈیا کی سیر کے دوران پتا چلا کہ شام کے سفارت خانہ پاکستان کا فیس بک کا صفحہ بھی وجود رکھتا ہے۔ ماضی کے اکثر تلخ یا کم از کم بے اعتنائی کے تجربات کے پیشِ نظر یہ خادم اندرون و بیرون ملک افسر شاہی سے دامن کشاں رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا واویلا بھی دیکھتا رہتا تھا کہ وبا کے دوران تارکین وطن کی رہ نمائی اور ان کی پاکستان منتقلی کے باب میں وزارت خارجہ کا رویہ تسلی بخش نہیں ہے۔ اس روز مگر نجانے کس ترنگ میں تھا کہ سفارت خانے کو اپنے مقیم دمشق ہونے کی اطلاع بھیج دی اور ساتھ ہی استفسار بھی کہ آیا وطن واپسی کا کوئی منصوبہ زیرِ غور ہے یا نہیں۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب چند گھنٹوں بعد ہی مقامی نمبر سے کال موصول ہوئی اور سفارت خانے کے اہل کار برکت علی صاحب نے شناختی کاغذات کی نقول طلب کیں اور ساتھ یہ بھی مشورہ دیا کہ دمشق میں موجود دیگر پاکستانی ہم کاروں سے بھی پوچھ لیا جائے۔

شام میں اقوام متحدہ کے افسر اعلی ہیں تو پاکستانی لیکن ایک تو ایسے نامساعد حالات میں ان کا دمشق چھوڑنا انہیں نامناسب لگا، دوسرے اہلِ خانہ کے یورپ میں مقیم ہونے کے سبب ان کی پہلی ترجیح پاکستان آنا نہ تھی۔ تین خواتین ہم کاروں نے بھی مختلف وجوہات سے شام میں ہی مقیم رہنا پسند کیا۔ البتہ عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر جمشید تنولی اور عالمی ادارہ خوراک کے سید ذوالفقار علی نے پاکستان لوٹنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس دوران پتا چلا کہ سفیر پاکستان ایئر مارشل [ریٹائرڈ] راشد کمال صاحب اپنی مدت تعیناتی ختم ہونے پر شام کے اعلی حکام سے الوداعی ملاقاتیں کر چکے تھے اور رخصت پر آمادہ تھے کہ وبا کے سبب پروازیں بند ہو گئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کے، اور حکومت پاکستان کے لیے قدرے خجالت آمیز صورت حال تھی۔

برکت علی صاحب مسلسل رابطہ کرتے رہے اور تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے رہے۔ ایک روز پتا چلا کہ پی آئی اے کی خصوصی پرواز اردن کے دارالحکومت عمان سے پانچ جون کو متوقع ہے اور شام میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو بھی موقع دیا گیا ہے کہ وہ اس پر سوار ہو جائیں۔ اس راہ میں بھی کئی رکاوٹیں حائل تھیں۔ اول تو یہ کہ شام، اور اس سے زیادہ سختی سے اردن نے وبا کے خدشے کے پیش نظر سرحد کو بند کر رکھا تھا۔ اس بندش کی شدت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہماری ایک اردنی ہم کار کے شوہر کی عمان میں ناگہانی وفات پر بھی اسے گھر واپس جانے کا اذن اردن کی جانب سے نہ مل سکا۔ دوم، وبا سے پہلے بھی اردنی سرحد کا پھاٹک صبح آٹھ بجے سے سہ پہر پانچ بجے تک ہی کھولا جاتا تھا اور پی آئی اے کی پرواز کا ابتدا میں بتایا گیا وقت صبح نو بجے تھا۔ اس قلیل وقفے میں ہوائی اڈے تک پہنچنا کسی طور ممکن نہ تھا۔ سوم، پی آئی اے کا ٹکٹ، جو عام حالات کی نسبت تقریبا ڈیڑھ گنا مالیت پر دستیاب تھا، صرف پاکستان میں ادائیگی کر کے خریدا جا سکتا تھا۔

خدا خدا کرکے شام اور اردن میں موجود پاکستانی سفارتی عملے کی مخلصانہ اور سر توڑ کوشش سے دونوں ممالک پہلے تو سرحد کو، صرف ہمارے قافلے کے لیے، خصوصی رعایت کے طور پر کھولنے پر رضامند ہوئے۔ بتایا گیا کہ اس باب میں اردن میں پاکستانی فوجی اتاشی کی دوڑ دھوپ کلیدی رہی۔ پھر پرواز کا وقت سہ پہر ڈیڑھ بجے کروایا گیا۔ ٹکٹ کی خریداری پاکستان میں موجود دوستوں کی معاونت سے ممکن ہو پائی۔ اس دوران برکت علی صاحب مسلسل رابطے میں رہے۔ پھر ایک اور اڑچن آن پڑی کہ ہمارا ادارہ مصر ہوا کہ راستے میں پڑنے والے شام کے صوبے درعا میں مخدوش حالات کے پیشتر ہمیں صرف بکتر بند گاڑی میں جانے کی اجازت ملے گی۔ خیر، جوں توں کرکے یہ خادم، دونوں ہم کاروں کے ساتھ صبح آٹھ بجے سرحدی چوکی پر پہنچا تو سفیر محترم اور بارہ دیگر حضرات و خواتین، جو سب کے سب دمشق کے پاکستانی سکول کے اہل کاروں اور ان میں سے کچھ کے بچوں پر مشتمل تھے، ہمارے منتظر تھے۔

شام کی وزارت خارجہ کے افسرِ تشریفات یعنی پروٹوکول آفیسر اور سفارت خانے کے افسران برکت علی صاحب اور ارسلان صاحب ہمیں سرحد پار کرنے میں معاونت فراہم کرنے کی خاطر وفد کے ہم راہ آئے تھے۔ پاسپورٹوں پر خروج کی مہریں لگتے لگتے گھنٹہ بھر گزر گیا تو ہم پا پیادہ اردن میں داخل ہوئے جہاں موٹے حفاظتی لباس میں ایستادہ ایک صاحب نے ہم سب اور ہمارے سامان پر جراثیم کش دوا کا ایسا بھرپور چھڑکاو کیا کہ سب با ہمہ مسرت چشم نم اور با ہمہ ناکردہ کاری، دامن تر ہوگئے۔ آگے اردن میں پاکستانی سفارت خانے کی جناب سے الگ بس کا انتظام تھا جب کہ ڈاکٹر جمشید کے ادارے نے ہمیں لینے الگ سے چھوٹی ویگن بھیج رکھی تھی۔

جیسا کہ احباب واقف ہیں، اس خادم کا علاقائی اجلاسوں کے لیے عمان آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ہر مرتبہ اجلاس میں بروقت پہنچنا بمشکل ہو پاتا ہے چونکہ عمان میں گاڑیوں کی بہتات ہے اور ہر سڑک پر شدید ازدحام رہتا ہے۔ ایسا ہی کھٹکا اس بار بھی دل میں تھا مگر اردن کی حدود میں داخل ہوکر انکشاف ہوا کہ ملک بھر میں دن رات کا سخت کرفیو نافذ ہے۔ پورے راستے میں ایک بھی گاڑی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگوں کے سوا کوئی متنفس نظر نہ آیا۔ ہمارے ساتھ ساتھ نیم فوجی ادارے کی گاڑی چلتی رہی جو ہمیں چیک پوسٹوں سے بلا دقت گزارتی رہی اور جو راستہ بالعموم دو ڈھائی گھنٹے میں طے ہوتا تھا اس میں سوا گھنٹے سے بھی کم لگا۔

ہوائی اڈے پر پہنچے تو وہی ہو کا عالم تھا جو راستے بھر نظر آتا رہا۔ معلوم ہوا کہ ایئر پورٹ خصوصی طور پر صرف پاکستان جانے والے مسافروں کے لیے کھولا گیا ہے۔ ہر جگہ بند تھی اور صرف ایک کافی شاپ ہمارے لیے کھلی تھی۔ جہاز میں کوئِی ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش تھی جن میں نصف کے قریب تبلیغی جماعت کے رضاکار تھے۔ گمان ہے کہ اس خصوصی پرواز کے چلانے میں حکومت پاکستان کی اس خادم جیسے عامیوں پر شفقت کا کم اور تبلیغی جماعت کی برکت کا زیادہ حصہ تھا۔

ان نیک لوگوں کی صحبت کے البتہ ضمنی اثرات بھی سارے راستے ہمیں بھگتنے پڑے۔ اول تو یہ کہ ہوائی اڈے کا واحد فعال غسل خانہ کسی چوبچے کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں سارے فرش پر ٹخنوں ٹخنوں پانی کھڑا تھا اور کاغذی رومال کے ٹکڑے ہر جانب بکھرے ہوئے تھے۔ ایک بیت الخلا کے دروازے کے نیچے سے بھل بھل پانی آرہا تھا۔ وہاں سے نکلنے والے باریش نوجوان سے، جو لہجے سے جنوبی پنجاب کا معلوم ہورہا تھا، لاونج میں اس کا سبب پوچھا تو بتایا کہ مغربی طرز کے کموڈ پر بیٹھ کر طہارت کی جانب سے وہم رہتا ہے، چنانچہ فرش پر اکڑوں بیٹھ کر متعلقہ مقامات پر مسلم شاور کی دھاریں ماری جاتی ہیں۔ کاغذی رومال بکھیرنے کے سبب نکاس کی نالی کے سوراخ بند ہوجاتے ہیں اور راہ نہ پا کر طبع رواں کے نالے، غالب کے بتائے ہوئے کلیے کے مطابق چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی بزرگوں کو منہ ہاتھ دھونے والے بیسن میں پانی کی تیز دھار تلے پاوں دھوتے اور اس کے نتیجے میں آس پاس کئی مربع گز تک پانی کا بھرپور چھڑکاو کرتے دیکھا۔

جہاز میں داخل ہوتے ہی ایک اور عجیب منظر منتظر تھا۔ فضائی میزبانی کا عملہ سر تا پا جاپانی ننجا طرز کے سفید حفاظتی لباس میں ملبوس مسافروں کو خوش آمدید کہنے کو دروازے پر موجود تھا۔ جہاز میں ہر سمت سے اٹھتی ہوئی فینائل کی بو سے یہ اطمینان ہوا کہ اسے حتی المقدور جراثیم سے پاک کیا گیا ہے۔ مسافر کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ صرف اس خادم کے برابر کی نشست محض اتفاق سے خالی تھی۔ دوران پرواز کچھ ہلکا پھلکا کھانے پینے کا سامان بھی دستانہ پوش ہاتھوں سے گتے کے مہر بند ڈبوں میں تقسیم کیا گیا۔

تبلیغی بھائیوں کی ہوائی اڈے سے شروع ہونے والی کارکردگی جہاز میں بھی جاری رہی۔ قطار بنا کر نماز عصر کے لیے وضو تازہ کیا گیا۔ یہ خادم تو مذہبی بحث کے معاملے میں حضرت اکبر الہ آبادی کا پیرو ہے، لیکن ایک اور مسافر جو شرعی امور میں کچھ دستگاہ رکھتے تھے، ایک تبلیغی بھائی سے بحث میں لگ گئے۔ انہوں نے جماعت میں ایک نسبتا معمر ساتھی سے گزارش کی کہ اگر وضو قائم ہے تو کافی رہے گا۔ اگر کوئی معذوری ہے تو اول تو پوری جماعت کو لاحق نہیں ہوگی اور دوم، ایسے حالات میں تیمم کی رخصت موجود ہے۔ بزرگ نے رسان سے جواب دیا کہ وہ تو ہے لیکن وضو کا الگ سے ثواب ہے۔ وضو تازہ کرکے نماز پڑھنے کی کوئی اضافی شرح مبادلہ بھی بتائی جو ٹھیک سے نہ سنی جا سکی۔

اس کے بعد بھائی لوگوں نے نشستوں کی درمیانی گزر گاہ پر قطاریں بنا کر پانچ پانچ چھے چھے کی جماعتوں میں نماز پڑھنا شروع کردی۔ جہاز کا عملہ اعلان کر کر کے تھک گیا کہ یہ عمل خطرناک ہے اور شرعی رخصت کے مطابق نشستوں پر ہی اشارے سے نماز ادا کرنے کی گزارشات ہوتی رہیں، لیکن یہ غازی، یہ پراسرار بندے کہاں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کو خاطر میں لاتے تھے۔ بحث کے شوقین مسافر نے معمر تبلیغی بزرگ کو چھیڑنے کی خاطر کہا کہ باجماعت نماز میں تو شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ اس پر بزرگ نے جھٹ سے بتایا کہ مجبوری کے عالم میں اس سے رخصت ہے۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

غسل خانہ جب چھپڑ یعنی تالاب بن گیا اور استعمال کے قابل نہ رہا تو جہاز کے عملے نے اسے بند کردیا۔ اتنے میں مغرب کا وقت آن پہنچا تو پاکستانیوں کی بالعموم اور تبلیغی بھائیوں کی بالخصوص اپج کا ایک اور نظارہ دیکھنے کو ملا۔ غسل خانہ بند تھا لیکن بھائی لوگ اضافی شرح ثواب پر کہاں سمجھوتا کرتے ہیں۔ چنانچہ اچانک جہاز کے طول و عرض میں تھیلوں سے مشروبات کی دو لیٹر والی بوتلیں برامد ہوئیں جن پر پھوار پھیکنے والی وہ کل لگی ہوئی تھی جو گھروں میں استری کرتے ہوئے وتر لگانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

اکرامِ مسلم کے تحت تبلیغی بھائیوں میں سے ایک اس بوتل سے چھڑکاو کرتا اور دوسرا اس چھڑکاو سے وضو کے فرائض پورے کرتا۔ یہ تو خیر گزری کہ کسی کو اس دوران استنجے کی ضرورت پیش نہیں آئی ورنہ خدا جانے کیا ترکیب آزماتے۔ نماز مغرب میں بھی وہی پرانا التزام، صف بندی سے شرعی رخصت کے زیرِ اہتمام دہرایا گیا۔ جہاز کے عملے کی گزارشات سے ان بھائیوں نے اتنا ہی اعتنا کیا جتنا بعض بد عقیدہ دوست تبلیغی گشت کے دوران گھر کی دہلیز پر دہرائے گئے دعوتی بیان سے کرتے ہیں۔

پرواز پاکستان کے وقت کے مطابق رات دس بجے کے قریب فیصل آباد کے ہوائی ڈگر پر اتری کہ یہی اس کی منزل مقصود تھی۔ جہاز سے نکلتے وقت ہر مسافر کو نمبر وار ٹوکن تھما دیئے گئے اور آمد کے لاونج میں بٹھا کر، اسی ترتیب کے مطابق پکار پکار کر مسافروں کا سطحی طبی امتحان کیا گیا اور حلق کے اندر سے لعاب کا نمونہ بھی لیبارٹری کی جانچ کے لیے حاصل کیا گیا۔ ساتھ ہی پتا، فون نمبر وغیرہ بھی لکھ لیے گئے اور یہ یقین دہانی کروا کر کہ نتیجہ اڑتالیس گھنٹے میں بذریعہ ایس ایم ایس مل جائے گا، گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ الگ بات کہ آج کوئی نوے گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کوئی اطلاع نہیں آئی اور ایس ایم ایس میں صرف پیزا کی دکانوں، سستے پلاٹوں، قوت مردمی اور رنگ گورا کرنے کی دواوں اور استعمال شدہ ایئر کنڈیشنر بیچنے والوں کے اشتہارات ہی آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments