بنیادی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا


کرونا کے بحران میں جو شعبہ سب سے زیادہ برے طریقے سے سامنے آیا وہ ریاستی و حکومتی تناظر میں صحت کا شعبہ ہے۔ صحت کا شعبہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جو ریاست اور حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری کے زمرے میں آتاہے۔ لیکن ریاست اور ماضی یا حال کی تمام حکومتوں نے شعبہ صحت کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آج ہم بنیادی طور پر ایک بڑے جرم کے طور بھگت بھی رہے ہیں۔ اس وقت کرونا کے بحران کے تناظر میں جو حالات ہمارے ہسپتالوں اور ا س میں موجود سہولتوں کی ہے یا جو ڈاکٹرز سمیت دیگر عملہ وہاں خدمات انجام دے رہا ہے ان کو جو شدید مشکلات کا سامنا ہے وہ کافی تکلیف دہ امر ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ جو لوگ بھی کسی مرض کی بنیاد پر سرکاری ہسپتالوں کی طرف رخ کر رہے ہیں ان کے لیے کوئی بڑی جگہ ہی موجود نہیں۔ خاص طور پر وینٹی لیٹرز کی کمی کے بحران نے کئی لوگوں کو زندگی سے موت کی طرف دھکیلا ہے۔

اس وقت ہر بندہ کسی نہ کسی بڑی سفارش کی تلاش میں نظر آتا ہے کہ کوئی اسے یا اس کے خاندان کے فرد کو ہسپتال داخل کروا دے یا وہاں جو بھی سہولتیں ہیں اسے مل سکیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں نے گلہ کیا ہے کہ پیسے کے باوجود غیر سرکاری ہسپتال بھی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہے۔ اس وقت بھی کرونا کے بیشتر مریض گھر پر ہی اپنا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ گھر کو ہی ہسپتال سے بہتر سمجھ رہے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ تو کبھی بھی سرکاری ہسپتال کا رخ نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ان ہسپتالوں یا ڈاکٹروں پر کوئی بڑا اعتماد ہے اور اس کی امید کا محور غیر سرکاری ہسپتال بن جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ وسائل نہیں رکھتے وہ کہاں جائیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے وہ واقعی ایک بڑا ظلم ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری بڑے ڈاکٹرز موجود ہی نہیں ہوتے اور جونیئرز پر تمام مریضوں کو چھوڑ کر بڑے ڈاکٹرز نے خود کو نجی شعبوں تک محدود کر لیا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکیں۔

ہسپتالوں میں دیکھیں تو اول آپ کو سہولتیں نہیں ملیں گی اور اگر سہولتیں موجود ہیں تو وہ کسی نہ کسی وجہ سے کام نہیں کر رہیں یا ان میں تکنیکی مسائل ہیں۔ ٹیسٹوں کے نام پر جو بڑا کاروبار صحت کے شعبہ میں ہورہا ہے وہ خود ایک بڑا جرم بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک بڑا سرکاری ڈاکٹرز کیا وجہ ہے کہ اس نظام میں اپنے سرکاری ہسپتال میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں اور کیوں اس نے خود کو نجی کلینک تک محدود کر لیا ہے اور کون ایسے ڈاکٹروں کا احتساب کرسکے گا کہ وہ اپنی سرکاری ذمہ داری میں کیونکر غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

18 ویں ترمیم کے تحت سمجھا جا رہا تھا کہ صوبائی حکومتیں صحت کے شعبہ میں اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے بعد زیادہ فعال اور انقلابی کام کریں گی۔ لیکن ہم صوبوں میں 18 ویں ترمیم کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکے۔ صوبائی حکومتوں نے نہ صوبائی سطح پر کوئی بڑا کام صحت کے شعبہ میں کیا اور نہ ہی اضلاع کی سطح پر اپنے ضلعی نظا م میں ضلعی اور تحصیل ہیڈ کو اٹرز کے ہسپتالوں کی حالت زار کو بدلا۔ آپ ضلعی یا تحصیل سطح کے کسی بھی بڑ ے ہسپتال میں چلے جائیں اور جاکر خود منظر کو دیکھیں تو آپ کو خوف آئے گا کہ ہم کیسے مریضوں کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں اور کیوں زندہ لوگوں کو جان بوجھ کر یا اپنی غفلت کی وجہ سے موت کی طرف دکھیل رہے ہیں۔

آپ ضرور سڑکیں، پل، بڑی بڑی عمارتیں، موٹرزویز، میٹروز، اورنج ٹرین بنائیں یہ بھی اہم کام ہیں لیکن شعبہ صحت کو پامال کر کے اس کی قیمت پر ایسے منصوبوں کا بننا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ آپ صرف پچھلے تیس برس کی حکمرانی کو دیکھ لیں کہ ملک میں، صوبوں میں اور اضلاع کی سطح پر پہلے سے موجود نئے ہسپتال کتنے بنے ہیں اور کتنے ہسپتالوں میں وہ تمام تر جدید سہولیات موجود ہیں جو آج کی دنیا میں ہر انسان کو ملنا اس کا بنیادی حق ہے۔ ہسپتالوں کے معاملات میں ایک بڑے سیاسی، قانونی آڈٹ کی ضرورت ہے جو سب کو بتاسکے گا کہ کیسے ہمارے حکمران طبقات ایک بڑے مجرمانہ کردار کا شکار ہوئے ہیں اور کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب اس ملک کا طاقت ور طبقہ جو کسی بھی شعبہ سے ہو اسے اپنے اور اپنے بچوں کو علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کی بجائے غیر سرکاری ہسپتال یا باہر سے علاج کی سہولت میسر ہو تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر پریشان ہو۔ عام یا غریب آدمی کا علاج کیسے ہورہا ہے اس کی کوئی پروا ہمیں ان طاقت ور طبقات کے نظام میں بالادست نظر نہیں آتی اور یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ہسپتال جدید دنیا میں فرسودہ نظام کی عملی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ صحت کے شعبہ کی بہتری کے لیے ہمیں ایک بڑ ی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے پہلے معاملات کو سدھارنے اور مستقبل کی بہتری کے تناظر میں شعبہ صحت میں ایک بڑی سرجری کی بھی ضرورت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک سب ہی جوابدہ ہوں۔

یہاں ضرورت ا س امر کی ہے کہ حکومتی اور نجی شعبوں کی جانب سے عملی طور پر کمزور طبقات کے لیے صحت کے شعبہ میں ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کے تناظر میں ہیلتھ کارڈز، انشورنس، مختلف نوعیت کے پیکجز اور خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں کو سہولتوں سے لیس کرنا ہی عوام کے مفاد میں ہے۔ یہ سوچ کے لوگ پیسوں کی وجہ سے علاج نہیں کر واسکتے یا سرکاری ہسپتالوں میں ان کو مناسب انداز میں نہیں دیکھا جا رہا اور لوگ علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، کافی تکلیف دہ امر ہے۔

جن لوگوں نے بھی شعبہ صحت کو محض ایک کاروبار کا شعبہ بنالیا ہے ان کی ہر سطح پر جوابدہی ہونی چاہیے۔ نجی شعبوں میں صحت کے شعبہ کو ضرور ترقی کرنی چاہیے اور ا ن کو بھی اس میں مواقع ملنے چاہیے۔ لیکن اس کام میں حکومتوں کی ریگولیٹری کا نظام زیادہ شفاف اور نگرانی کا ہونا چاہیے اور ان نجی شعبوں کو خود سے من مانی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

ہمارے پالیسی ساز ادارے، افراد، عوامی نمائندوں کی فوج در فوج، وزیروں، مشیروں کی فوج، پارلیمنٹ قومی، صوبائی اسمبلیاں، سینٹ جیسے اداروں کی موجودگی میں اگر ہم نے موجودہ طور طریقوں کی بنیاد پر صحت کا شعبہ چلانا ہے تو اس ملک کا اور ملک کے نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ سب لوگ جو عوامی ٹیکسوں کی بنیاد پر اپنے نظام کو چلاتے ہیں اس صحت کی بربادی کے نظام کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان صحت کے شعبہ سمیت جو بھی خلیج یا بداعتمادی موجود ہے اس کی وجہ ہمارے حکمرانوں کی بری حکمرانی کے نظام سے جڑی کہانیاں ہی ہوتی ہیں جو حکمرانی کے نظام پر سوالیہ نشان لگادیتی ہیں۔

عملی طور پر کرونا کے بحران کا بڑا سبق یہ ہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی سمیت اضلاع کی سطح پر ہمیں صحت کے شعبہ میں عملاً ایک ایمرجنسی پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حکومت طے کرتی ہے کہ اس کی بنیادی ترجیح اس وقت صحت کا نظام ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اس نظام میں زیادہ سے زیادہ وسائل رکھے جائیں گے۔ اس وقت ہمیں دیگر بڑے میگا منصبوں میں جانے کی بجائے صحت کو اپنی اہم ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔

غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کر کے ترقیاتی اخراجات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر شبہ صحت کے نظام میں پروفیشنل ڈاکٹرز، پالیسی ساز لوگوں پر مشتمل ”ہیلتھ بورڈز“ بنائے جائیں اور ا ن کو زیادہ سے زیادہ با اختیار اور خود مختاری دی جائے کہ وہ اس نظام کی اصلاح میں ایک بڑا کردار ادا کریں۔ نجی شعبوں کی نگرانی کا نظام بھی ان ہی بورڈز کی مدد سے چلایا جانا چاہیے۔

اسی طرح ملک میں صحت کے معاملات کے تناظر میں ”بنیادی صحت کی تعلیم“ کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام تعلیم کے نظام کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔ لوگوں کو یہ بنیادی تعلیم یا شعورہونا چاہیے کہ وہ خود سے بھی اپنی صحت کے معاملات میں لاپرواہی نہ کریں اور خود بھی ان معاملات میں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کہ ایک اچھا صحت مند انسان ہونے کے بنیادی تقاضے کیا ہیں اور اس میں ہمارا اپنا کردار کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہم خود کو صحت مند رکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments