مذہبی طبقے کو کیا کرنا چاہیے؟


سوشل سائنس علوم کا وہ شعبہ ہے جس کا تعلق انسانی معاشرے سے ہے۔ یورپی نشاۃ ثانیہ ریفارمیشن انلا ئٹمنٹ (روشن خیالی اور انڈسٹریل ریولوشن جیسی تحریکات، سوشل سائنسز کی وجود کا سبب ہے۔ یورپی تاریخ میں نشاۃ ثانیہ چودہویں سے سترہویں صدی کے دور کو کہا جاتا ہے۔ اس دور میں کلاسیکی فلسفے پہ دوبارہ بحث چھڑ گئی۔ اس کے علاوہ جمالیاتی حلقۂ عمل، فنون، موسیقی، مجسمہ سازی اورادبی حلقے میں اس دور کے لوگوں نے اپنے فنی جوہردکھاے جو کہ انلائٹمنٹ ریفارمیشن اور صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔

سولہویں صدی کے اوائل میں فرسودہ عیسائیت کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرنے میں وہاں کے اہل دانش کا بہت بڑا کردار رہا۔ یورپ کے موجودہ چمک دمک اور بام عروج میں مارٹن لوتھر نامی پادری کا کردار تھا جس نے روایتی پادریوں کی دقیانوسی تعلیمات پر سوال اٹھائے۔ زندگی چونکہ مسلسل تغیرات اور حالات کے تقاضوں کے ساتھ بدلنے کا نام ہے، متروک عیسائی تعلیمات میں اتنی لچک نہیں رہی کہ وہ دور کے ساتھ آگے چلے۔ یہی دور تھا جس میں مختلف مفکرین نے اپنی سمجھ کے مطابق معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماجی مسائل کے حل کے لے مختلف قسم کی نئی تعبیرات پیش کیں جو کہ بعد میں مختلف ڈسپلنز کے آشکار اہونے کے باعث بنیں۔ جس میں عمرانیات، معاشیات، سیاسیات، بشریات اور تاریخ وغیرہ سر فہرست ہیں۔

عمرانیات کے حوالے سے سب سے پہلے اگسٹ کامٹ نے بات کی کہ اک ایسی ڈسپلن ہونی چاہیے جس میں انسانی سماج کا مطالعہ ہو۔ اگسٹ کامٹ نے انسانی سماج کے ارتقاء کا تین مدارج پر مشتمل مشہور نظریہ بھی پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق انسانی سماج کے ارتقاء کا سب سے ترقی یافتہ درجہ تیسرا درجہ ہے جس کو وہ اپنے تھیوری میں پوزیٹو سٹیج کہتا ہے۔ اس مرحلہ پہ آکر انسانوں کا ہر چیز کے بارے میں مکمل سائنٹفک نقطہ نظر ہوتا ہے اور مذہب اپنی گرفت کھو دیتا ہے۔ اس کے بعد کارل مارکس نامی مشہور جرمن معیشت دان آئے جس نے فرسودہ عیسائی مذہب کو سرمایہ دار کی پشت پہ دیکھا تو مذہب کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ مذہب کا استحصالی کردار دیکھ کر مذہب کومطعون کیا اور افیون تک کہہ گیا۔ اسی طرح اور کئی مفکرین ہیں جنہوں نے سماجی ارتقاء کے لیے مذہب کو درمیان سے نکالناضروری سمجھا۔

پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت سوشل سائنسز کے صرف دو شعبے تھے۔ جن میں سے ایک معاشیات اور دوسرا تاریخ کا شعبہ تھا۔ 1960 ء میں عمرانیات اور سوشل ورک بحیثیت ایک ڈسپلن متعارف ہوئے۔ 1983 میں سوشل سائنسز کے مختلف شعبے تیس سے تجاوز کرگئے اور موجودہ دور میں مختلف یونیورسٹیز میں سوشل سائنسز کے ان گنت شعبے ہیں۔ جہاں پہ ہزاروں کے تعداد میں طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ مغربی لٹریچر پڑھ کر سوشل سائنسز کے طالب پہ یہ راز فاش ہوجاتا ہے کہ مذہب نے ہمیشہ طبقاتی کشمکش میں ظالم کا ساتھ دیا تھا۔

فرسودہ عیسائی مذہبیت نے انسان کو فطرتاً برا قرار دیا تھا، اس کے علاوہ عیش پرستی کی ذہنیت پشت پہ کھڑی تھی، فرقہ واریت اور دھڑے بندی کو فروغ دیا تھا۔ مذہب ہی نے انسان کو جامد اور غیر ترقی پذیر قرار دیا تھا اس کے ساتھ ساتھ مذہب تمدنی ترقی کے ساتھ جانے سے قاصر تھا۔ مذہب نے ہزاروں برائیوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ مذہب اور حاملین مذہب نے انسان کو جینے کاحوصلہ دینے کی بجائے انسان کے اردگرد ڈر کا جال بچھایا تھا۔ مذہبی طبقہ نے انسانی عقل کو مقفل کرکے، تسخیر کائنات کی تعلیم دینے کی بجائے ان کے قوائے عمل کو بیکار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حادثاتی و واقعاتی نتائج کے انتظار میں رہنے کی وجہ سے ان کا سماجی عقل وشعور سلب کرنے میں بھی مذہب کا بنیادی کردار رہا۔

فرسودہ عیسائی مذہب کے کردار کو دیکھ کر اذہان میں چند سوالات لا محالہ جنم لیتے ہیں کہ موجودہ دور میں مذہب کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے؟ ہمارے مذہب میں تمدن کے ارتقاء کے لئے کتنا لچک موجود ہے؟ مذہب صرف ڈراتا ہے یا جینے کا حوصلہ دیتا ہے؟ یہ وہ ذہنی کیفیت ہوتی ہے کہ نوجوان ذاتی جستجو سے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے اور درست رہنمائی کی عدم دست یابی کی وجہ عدم اطمینان کا شکار ہو کر مذہب ہی سے بے زار ہو جاتا ہے۔

پیٹ کی بھوک تو کچھ کھا کے مٹ جاتی ہے مگر ذہن کی بھوک کافی اذیت ناک ہوتی ہے، آج کے دور میں اک نوجوان اگر کسی مذہبی پیشوا کے پاس جاتا ہے تو نماز، زکوۃ، حج، روزہ، وضو، غسل، میراث، احکام میت، احکام سفر، آلات جدیدہ کے احکام، شادی بیاہ کے مسائل وغیرہ کے حوالے سے تو انتہائی تفصیل سے رہنمائی ملتی ہے مگر جب دین کی عمرانی، سیاسی، معاشی اور تاریخی حوالے سے رہنمائی درکار ہوتی ہے تو جواب ندارد۔

مولانا شوکت اللہ انصاری کے مطابق یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بے دینی کا پیدا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں کے مذہبی پیشواؤوں نے وہاں کے معاشرتی سوالات کو توجہ نہیں دی۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے یونیورسٹی گریجویٹس میں مذہب سے بیزاری پائی جاتی ہے۔

ضرورت اب اس امر کی ہے کہ مذہبی طبقہ اس دور جدید کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر دین اسلام کے احکامات کو عقل وشعور کی بنیاد پر پیش کرکے عصر حاضر کے نوجوان کو عقلی طور پر مطمئن کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے اور جہا ں کہیں افراط و تفریط موجود ہے وہاں پر ایک معتدل راہ اپنا کر نوجوانوں کو اجتماعیت کے ساتھ جوڑنے اور ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ بہتر اور پائئدار مستقبل کا نظریہ و عمل ہی زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

مذہبی طبقے کو چاہیے کہ نوجوان کو سنیں، سمجھیں، سمجھائیں، اور ساتھ لے کر چلیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ نوجوان طبقہ اب بھی ایسے موڑ پر ہے جہاں سے واپسی ممکن ہے بس صرف ایک بلاوے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments