سرکار تبدیلی کے حق میں نہیں


بادی النظر میں چینی سکینڈل کا اونٹ دو رخ بیٹھ سکتا ہے۔
الف‘حکومت اتحادیوں کو بچائے
دوم مخالفین کو رگیدنے پر ساری توانائی صرف کردے
فی الفور جو مقصد حاصل کیا جاتا نظر آرہا ہے وہ اتحادیوں کے تحفظ کا تاثر رکھتا ہے. ہو سکتا ہے بجٹ اجلاس یا بجٹ کی منظوری تک عمران وعثمان بزدار حکومتیں یہی وطیرہ اپنائیں مگر بعد ازاں جولائی کے آغاز میں اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی پر مجبور ہو جائیں۔
استثنائی صورتحال کا پہلو نمایاں ہونے کی وجوہ حکومتی بیانات کا لب ولہجہ ہے۔ بجٹ سازی کے مراحل معاشی بد حالی کے ہاتھوں پہلے ہی بھیانک شکل اختیار کرچکے ہیں آئی ایم ایف نے جو شرائط بجٹ کیلئے ارشاد فرمائی ہیں عمران حکومت نے انہیں بھی من وعن تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا تواس مرحلے پر اگر کسی بھی سبب سے حکومت گر جائے تو آنے والی حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پر رویہ مختلف ہوسکتا ہے؟ یہ پہلو استثنیٰ کی وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ داخلی سطح پر بھی حکومتی سرپرست مذکورہ نازک صورتحال میں بجٹ کی منظوری میں بوجوہ دلچسپی رکھتے ہیں لازمی طور پر بالواسطہ سطح پر سہی وہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر اختلاف سے اجتناب پر مجبور ہوں گے اس مجبوری کو نیم دلانہ رضا مندی بھی کہا جا سکتا ہے۔ بجٹ کی منظوری، چاہے بجٹ کی نوعیت کیسی بھی ہو، ریاستی اداروں کی ضرورت ہے چنانچہ مختصراً جو سیاسی منظر نامہ اس وقت ابھر رہا ہے وہ بجٹ کی ہر حال میں منظوری کی اولیت کی عکاس کررہا ہے۔ عالمی اور مقامی طاقتیں یہی سوچ رکھتی ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے قرض کی قسط مع سود کی ادائیگی یقینی بنانے کیلئے سر گرم رہتے ہیں انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے روک دیا ہے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی سخت شرائط عائد کی ہیں مذکورہ دو مالی مدات کی ادائیگی کے بعد بجٹ کا سب سے اہم حصہ دفاعی اخراجات کیلئے وسائل مہیا کرنا حکومت کی ترجیح ہوتی ہے۔ جبکہ حکومت ختم ہوتے مالی سال کیلئے محصولات کے اہداف حاصل کرنے میں بری ناکام رہی ہے۔ 900 ارب روپے کے محصولات جمع نہیں ہوسکے۔ اس پر مستزاد کرونا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ دریں حالات عوامی امنگوں‘ مطالبات اور ضروریات کے تقاضے پورے کرتا وفاقی مالی میزانیہ کیونکر مرتب ہوگا؟ یہی بنیادی بحران ہے چنانچہ اپوزیشن کیوں چاہے گی کہ موجودہ حکومت غیر مقبول بجٹ پیش کئے بغیر رخصت ہوجائے؟
بلا شبہ مالی سال 2020-21 کا بجٹ حکومت کیلئے عوام کے وسیع حلقوں کی نا پسندیدگی کا باعث بنے گا وہ سب خواب چکنا چور ہوسکتے ہیں جو حکومتی جماعت نے سونامی جیسی تبدیلی کے نام پر عامتہ الناس کی آنکھوں میں بسائے تھے۔ معاشی شرح نمو کا گرتا ہوا گراف عام آدمی سمیت صنعت وتجارت سمیت تمام طبقات کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگلے سال ترقی کی نمو 2% رہے گی مگر عالمی مالیاتی ادارے اسے منفی اشاریے میں دیکھ رہے ہیں۔ بے تحاشہ مہنگائی نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے تنخواہ دار طبقہ ان حالات میں ریلیف چاہتا ہے لیکن اطلاعات بتا رہی ہیں کہ عالمی مالیاتی سرمائے کے مہاجن عوام سے جینے کا حق چھین کر بس اپنے قرض اور سود کی واپسی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں حکومت کا کوئی ہم نوا یا حامی بھی بجٹ کے بارے خیر کے کسی پہلو یا امید کا کوئی چراغ روشن ہونے کی نوید نہیں سنا سکتا۔ تو کیا سیاسی ثقافت و لغت کے مخصوص تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا کہ نیا بجٹ پی ٹی آئی حکومت کا آخری بجٹ بھی ثابت ہوسکتا ہے؟
قیاس غالب ہے کہ بجٹ کے بعد عوام احتجاج کے لیے اٹھ سکتے ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کو بھی ان کی منشا کے برخلاف اپنے ساتھ بہا لے جا سکتے ہیں۔
بات چلی تھی چینی سکینڈل کو منطقی انجام کی طرف لے جانے کیلئے حکومت کی خواہش اور اقدامات کی نوعیت کے متعلق جس کے بارے میری تجزیاتی رائے ” اقتدار کی گم شدہ وراثت“ مضمون میں مفصل بیان ہو چکی ہے اور میں اب بھی اس کی اصابت پر قائم ہوں تاہم کچھ واقعات نے لمحاتی یا وقتی طور پر چند نئے تغیرات نمایاں کردیئے ہیں۔ مثلاً اسی ہفتہ میں جناب جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے یا خاندان کی پر اسرار انداز میں مکمل رازداری و خاموشی کے ساتھ لندن روانگی سے نئے سوالات اٹھتے ہیں۔ حکومت کی روبہ عمل احتساب بارے معاندانہ نام نہاد پالیسی کے تحت تو جناب جہانگیر ترین کا نام اب تک ای سی ایل میں ڈل جانا چاہئے تھا مگر ایسا ہوا نہیں۔ فرانزک رپورٹ میں ان پر سنگین الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں۔ اس کے برعکس ان کی روانگی سے یہی تاثر ابھرا ہے کہ حکومت شاید سردست اتحادیوں پر ہاتھ ڈالنے سے اجتناب کررہی ہے۔ علاوہ ازیں محترم شبلی فراز اور شہزاد اکبر کے بیانات بھی اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے 7 جون کو چینی بحران کا سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال دیا ہے وہ بحران کی نوعیت کو بھی بدلنے کی کوشش کررہے تھے ان کا یہ کہنا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنے دور حکومت میں چینی برآمد کرنے کیلئے 20 ارب روپے کی جو سبسڈی دی تھی، اس کا حساب دینا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ چینی بحران کو سبسڈی دیئے جانے کے قضئے یا الزام میں محدود کر دیا جایے تاکہ موجودہ دور میں دی گئی سبسڈی کا جواز مہیا ہوجایے حالانکہ سبسڈی دینے کے ذریعے ہر دور میں زرمبادلہ بھی کمایا گیا ہے لہذا اس بار دی گئی سبسڈی کو بھی جائز ثابت کرلیا جایے اور اگر مذکورہ عمل مجرمانہ یا قانونی اختیار سے متجاوز سمجھا جائے تو پھر قربانی کے بکرے کیلئے عثمان بزدار کی بلی چڑھائی جاسکتی ہے۔
بنیادی نکتہ جسے انکوائری کمیشن اور حکومت پس پشت ڈالنا چاہ رہی ہے وہ چینی کی قیمت میں اضافے کی وجوہات کے تعین کا تھا۔ چینی اس لیے مہنگی ہوئی کہ حکومت نے مسلسل اس کی برآمد کی اجازت دی جس سے مقامی مارکیٹ میں قلت اور مہنگائی پیدا ہوئی مذکورہ اجازت کس نے دی؟ کمیشن کو اس کا جواب دینا تھا جس سے صرف نظر کیا گیا اور کیا جارہا ہے کہ اس سوال کے جواب کا تعاقب ہو تو کھرا وزیراعظم کی ذات تک پہنچتا ہے ظاہر عمران خان اس سے بچنا چاھتے ہیں۔ دونوں حکومتی ترجمانوں نے یہ مضحکہ خیز بات بھی کہی ہے کہ 1990ء میں ایک سیاسی خاندان نے بھارت کو شوگر برآمد کی تھی۔ کیا چینی برآمد کرنا جرم ہے؟ یا بھارت کو بھجوانا گردن زدنی ہے؟ اگر بھارت کو چینی برآمد کرنا جرم ہے تو وہاں سے پیاز آلو‘چینی اور دیگر اجناس درآمد کرنا حب الوطنی یا قانونی عمل کیسے قرار پا سکتا ہے؟ لگتا ہے حکومت چینی بحران سے جند دنوں دنوں کیلئے نبرد آزما ہونے کی خاطر بحران میں وقت کی مقدار کا کثیر پانی ڈال کر چینی کو حل کرنے جا رہی ہے! مگر کیا وہ اس کی سیاسی قیمت چکانے کی متحمل ہوسکتی ہے؟
حکومت نے گندم اور اٹے کی قلت کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا کہا گیا کہ ملک میں گندم کی قلت نہیں پچھلے سال کا مناسب سٹاک بھی موجود ہے اور نئی فصل جو پک کر اتر چکی ملکی ضروریات کے لئے کافی ہے پھر گزشتہ روز (7‘ جون کو) حکومت نے نجی شعبے کو ڈیوٹی فری گندم درآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا یہ اقدام گندم کی قلت یا غذائی قلت کے سدباب کیلئے مناسب ہے تو بھی نجی شعبہ کو دی گئی اجازت گندم پر درآمد کنندگان کی بالا دستی کا باعث ہو گی وہ پہلے مرحلے میں سستے داموں درآمدی گندم فروخت کریں گے مقامی سٹاک ہولڈر کو نقصان ہوگا وہ فروخت سے گریز کرے گا تو منڈی میں قلت آئے گی اسکے برعکس قیمت گرانے کے بعد درآمد کنندگان مقامی مارکیٹ سے سستے داموں گندم خرید کر اپنی اجارہ داری قائم کر سکتے ہیں اور پھر من مانی قیمت وصول کریں گے۔ ٹیکسوں سے استثنیٰ انہیں پہلے ہی حاصل ہوگیا ہے جو سبسڈی دینے کی ہی دوسری شکل ہے۔
سیاسی صورتحال کا لاینحل پہلو اپوزیشن جماعتوں کا غیر سنجیدہ پن ہے وہ منتشر الخیال رستے پر گامزن ہیں باہمی تعاون ناپید ہے جبکہ مسلم لیگ کا اندرونی مخمصہ بھی تشویشناک ہے اب جبکہ میاں شہباز شریف کی مفاہمانہ سیاست کے غبارے سے ہوا بھی نکل چکی ہے تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ میاں نواز شریف کی سیاسی لائن پر واپس لوٹ آئے گی؟ نیز بلاول زرداری بھی اپنے والد گرامی کے سیاسی سائے سے باہر نکل پائیں گے؟ اور کیا دونوں جماعتیں عوامی جمہوری سیاست پر اب مشترکہ پیشرفت کریں گی؟ دیگر جماعتیں ان کی جانب اسی توقع وامید کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments