قبر میں گلاب کے گجرے پروتی لڑکی اور حقیقی زیادتی



ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک صاحب نظر حضرت کا گزر کسی قبرستان سے ہوا۔ قبرستاں کا خوف گوشے گوشے میں طاری تھا، موت کی ایسی ویرانی تھی کہ اشجار سے پرندے تلک اڑ چکے تھے۔ اطمینان نوچ دینے والے سکوت کے باوجود حضرت کی آنکھوں نے دل چسپ و عجیب منظر دیکھا۔ شہر خموشاں کی ہولناکی میں بھی کچھ حیران کن دل فریبی موجود تھی۔ صاحب حضرت فرماتے ہیں کہ ایک قبر چاک تھی، جس میں ایک نوجوان لڑکی عروسی جوڑا پہنے دراز تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ قبر پر نہیں سیج پر بیٹھی سہاگن ہو۔ قبر کا جغرافیہ بھی خاصا اطمینان بخش تھا جس کے اطراف بڑے بڑے گلاب کے پھول کھلے تھے۔ لڑکی دنیا سے بے خبر اپنی دھن میں مگن گلابوں کے ہار پروئے جا رہی تھی۔

بیک وقت حیرت اور خوف میں مبتلا کرنے والا یہ منظر سمجھ سے بالا تر تھا۔ کوئی دلہن تپتی دوپہر میں قبروں کے ویرانے میں کیونکر گلاب پروئے گی؟ تجسس نے انگرائی لیتے ہوئے ان کو لحد میں بیٹھی لڑکی سے استفسار کرنے پر مجبور کیا آیا ایسی کون سی دقت تھی جو وہ وہاں موجود تھی۔ لڑکی نے بنا کسی شکن اور حیرت کے جواب دیا کیا گھر میں کس کو دقت محسوس ہو سکتی ہے، یہ قبر تو اس کا آشیانہ ہے اور وہ اس شیرازے کی مالکن۔ حضرت جھنجھلا سے گئے، فرماتے ہیں کہ بیٹی تم نے زندگی میں ایسی کون سی نیکی کما لی تھی جو ایسا خوش نما اجر پا رہی ہو؟ لڑکی دھاگے میں گلاب پروتے ہوئے بولی کہ جب وہ زندہ تھی، ایک روز کسی نے اس کے ساتھ بد کاری کی اور پھر گناہ کو مٹانے کی خاطر مجھ پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی، میرے گلے سڑے وجود کو یہیں دفنا گیا۔ بس تب سے آج تک وہ یہیں موجود تھی۔

یہ کہانی آج سے کئی برسوں قبل ایک معروف اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں پڑھی تھی۔ کہانی لکھنے والے نے تمام تر روحانی تبرکات جیسے ایک ساتھ جھونک دیے ہوں۔ زیادتی کے بعد قبر میں ملنے والے اجر اور سکوں کی جس دل نشیں انداز میں یاداشت رقم کی گئی، پڑھنے والا کا دل باغ باغ ہو جائے۔

اچانک یہ قصہ یاد آیا جب یکم مئی 2020 آٹھویں رمضان کی سحر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادتی و قتل کا مرتکب شخص حیدر آباد پولیس کے اہلکاروں کو کوڑے اور گندگی سے اٹے اس کونے کی طرف لے جا رہا ہے جہاں سات سالہ بچی کو زیادتی کے بعد دفن کیا گیا۔

درج بالا کہانی میں زیادتی کا کیسا دل کش نقشہ کھنچا گیا ہے، معاذ اللہ۔ ریپ کی اس سے جاذب نظر تصویر اور کوئی ہو نہیں سکتی۔ گویا ظلم کو بھی رومانوی آنچلوں سے لپیٹ کر بدترین مظالم کو چپ کی ڈوریوں میں سی دیا گیا۔ اپنی قبر پر سولہ سنگھار کیے ، گلابوں سے مہکتی قبر کی سیج پر سہاگن بنی لڑکی جس کی موت کی وجہ مجرمانہ ہو، اس جبر کی داستان کو بھی رومانویت کے روحانی معنی دے کر راقم ظالم کے ظلم اور مجرم کے جرم کو جلا بخشتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی داستان گوئی کو مظلوم کے زخموں پر مرحم رکھنا نہیں، فکری اعتبار سے ریپ اپالوجی کا نام دیا جاتا ہے۔ ریاست اور سماج میں ایسے رویوں کا پروان چڑھنا جرائم کو پروان چڑھانا کہا جائے تو مناسب رہے گا۔

انسانی تہذیب میں داستان گوئی انوکھی بات نہیں، جس کو سچ دکھا کر سنا اور سنایا جاتا ہے۔ میرا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ اس قصے میں کس قدر صداقت ہے۔ اس سے بحیثیت فرد ہمارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہم نے زیادتی جیسے فعل اور جرم کو بھی رومان پروری میں ڈھال دیا ہے۔ روحانی طور پر عزت لٹنے اور قتل کو کس درجہ انسانیت کے تحت رومان میں تبدیل کر رہے ہیں؟ زیادتی کا شکار ہونا، ریپ کی سنگینی کے باعث مر جانا، لوگوں کی نظروں میں انسانی وقعت کھو دینا ایسا کوئی ایمان افروز عمل نہیں ہے کہ عورتیں آرزوئیں کریں کہ ان کو بھی (خاکم بدہن) ایسی موت نصیب ہو کہ قبر میں ریشمی لباس پہننے کو مہیا ہوں، گلابوں کی چھاؤں میں آرام گاہ میسر آئے۔ کیا ہم اسی قابل رہ گئے ہیں کہ ظلم، طاقت اور ہوس کی شکار عورتوں کو روحانی دلاسا دے سکیں کہ دنیا میں سکون نہیں ملا تو کیا گلہ، قبر تو تمھاری پھولوں سے لدی ہوگی، دنیا میں کوئی تمہیں قبول نہ بھی کرے تو لحد میں ضرور لال جوڑا پہن کر اپنے ساتھ ہونے والے قہر کی سیج پر دلہن بن بیٹھو گی۔

ہمارے یہاں عورت کی ذات پر ہونے والے طاقت کے دوش پر ہوس آلود جبر کا اعتراف اتنا معدوم رہا ہے کہ اس فعل کا نام بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ زنا بالجبر کی اصطلاح بھی مجرم کے عمل سے منسوب ہے۔ ’زیادتی‘ جیسے گونا گوں مطلب الفاظ بھی جرم کی شدت بیان کرنے سے عاری رہتے ہیں۔

ایسی داستانوں کا ریاستی امور میں کوئی عمل دخل ہوتا ہے نہ انسانی رویوں کی درستی کے کام آتی ہیں۔ یہ سراسر جرم کی بود و باش کا دوسرا نام ہے۔ جہاں زیادتی کرنے والے کے انجام کا تذکرہ تک نہ ہو، سزا جزا کا موثر طریقہ نہ وضع کیا جائے وہاں متاثرہ انسان کو روحانی و رومانوی حوصلہ دینا جرم کی حوصلہ افزائی کے علاوہ کچھ نہیں۔

راقم زیادتی کی دلہن کے روپ میں گلابوں سی مہکتی تصویر تو نقش کرتے ہیں مگر قبر میں پہنچانے والے متشدد کے انجام کا کوئی اتا پتا نہیں بتاتے۔ دنیا کو بتانا ہے تو زیادتی کے مرتکب شخص کا انجام بتائیں، کیا ریاست نے تندہی سے اپنے فرائض انجام دیے، قاضی اور پہرہ داروں نے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا، معاشرے میں دوبارہ ایسے سانحات نہ ہونے کے لئے کون سے اقدام کئے۔ صرف یہی نہیں، ان امور کی ترویج بھی فرض ہے کہ متاثرہ عورت کی بات پر کتنوں نے یقین کیا؟ اس کے کردار پر عدالت میں، خاندان میں لوگوں نے سندیں نہیں بانٹیں، اس کے ہونے کو پاکی پلیدی کی دلیل میں غرق تو نہیں کیا؟ کیا پولیس نے مزید ہراساں کیا؟ عدالت میں قاضی نے شرمسار کرنے والے سوال نہیں کیے؟ اس کی منگنی نہیں ٹوٹی؟ طلاق نہیں ملی؟ اس نے رویوں سے تنگ آکر اپنی جان نہیں لی؟ تیرہ سالہ بچی ماں نہیں بنی؟ لڑکی کا مجرم کے ساتھ زبر دستی نکاح تو نہیں ہوا؟ ایسے سوالوں کے مفصل جواب ہی مظلوں کے زخموں پر دوا ثابت ہو سکتے ہیں۔

اگر داستان رقم کرنا ہے تو ان پہلوؤں کو ذہن نشیں رکھ کر کی جائے تو مفید نتائج سامنے آسکتے ہیں نا کہ زیادتی جیسے انتہائی عمل کی رومانوی تشہیر کر کے۔

زیادتی کی شکل دل فریب نہیں دل دہلا دینے والی ہوتی ہے۔ حیدرآباد پولیس کی بنائی ویڈیو میں زیادتی کی اصل شکل دیکھنے کو ملتی ہے تار تار ہوا لباس، زخموں سے چور شکست خوردہ بدن، مٹی سے اٹی نعش، گالوں پر جمے آنسو اور خون کے دھبے، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، بے توقیر ہوئے وجود کی برہنگی اور تماشائی سماج۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments