بجٹ کے بعد سے باؤ کی کوئی خبر نہیں


پاکستان۔ وہ خوش قسمت ملک جسے قدرت نے بقول شخصے بارہ تو نہیں لیکن چار رتوں سے بہر حال ضرور نواز رکھا ہے۔ پودوں پر اور من میں پھول کھلاتی بہار ہمیشہ سے نئی امیدوں اور نویدوں سے لبریز دامن لیے دلوں کی شادمانی کا بندوبست کرتی ہے یا شاید (بصد افسوس) کیا کرتی تھی۔ روایات میں ملتا ہے کہ اس ملک کی خلقت کا تخم بھی بہار کے موسم میں ہی پھوٹا۔ بیج سے یاد آیا کسان بہار کے موسم میں ہی اپنی گندم کی فصل بارے حتمی تخمینہ لگا کر آئندہ مالی سال کا گوشوارہ مرتب کرتے ہیں یا شاید (بصد افسوس) کیا کرتے تھے۔

مالی سال سے یاد آیا بہار کے موسم سے ہی سرکار کے خادمین بھی تخمینے لگانا شروع کر دیا کرتے ہیں یا شاید (بصد افسوس) کر دیا کرتے تھے کہ امسال بعد از بجٹ نئی واسکٹ خریدنا نصیب ہو گی یا محض پشاوری چپل پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔ جوں جوں موسم میں حدت آتی جاتی، امنگوں کی گرماہٹ بھی بڑھتی چلی جاتی۔ یاروں کی منڈلی میں باؤ کے نام سے مشہور کلرک بادشاہ کے ساتھ تعلقات ازسرنو ترتیب دیے جاتے۔ کان میں پنسل اڑسے باؤ سابقہ تجربے کی بنیاد پر ماہرانہ رائے سے مستفید کرتا رہتا۔

آغاز جون سے ہی باؤ کی ماہرانہ پیشن گوئیوں میں شدت آنا شروع ہو جاتی۔ بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی باؤ کو یار لوگ غیر سرکاری طور پر اغوا کر لیا کرتے۔ باؤ کی گلوخلاصی تبھی ہوتی جب اعداد وشمار کی گنجلک گتھیاں سلجھانے کے بعد وہ حتمی اعلان کرتا کہ امسال کتنے روپے اور کتنے پیسے کا اضافہ ہوا۔ اگر تو یہ اضافہ حسب منشا ہوتا تو باؤ کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہو جاتے (کم از کم چند روز کے لیے ) بصورت دیگر اسے حکومتی ایجنٹ اور وزیر خزانہ کا نمائندہ سمجھ کر دل کی بھڑاس مٹا لی جاتی۔ پھر یوں ہوا کہ وقت کی دھول میں ’پیسہ‘ کہیں پس کر کھو گیا۔ پھر زمانے کے انداز بدلے گئے یعنی تبدیلی آ گئی اور سرکاری بندوں کے لیے گویا بجٹ ہی کہیں کھو گیا۔ اور باؤ؟ بجٹ کے بعد سے کہیں نظر نہیں آ رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نامعلوم افراد کے بنائے بجٹ کے ہاتھوں باؤ مسنگ پرسن ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments