کیرالہ کی چودہ سالہ دیویکا


یکم جون کو انڈیا کی ریاست کیرالا کی ایک چھوٹی بستی میں ایک کچے گھر کے پاس سے چودہ سالہ بچی کی لاش ملی۔ پولیس کو اطلاع ملی تو فوراً لاش کو قبضہ میں لیا گیا اور تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ دوسری جانب کیرالا کی ریاست میں کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد بلآخر یکم جون کو آن لائن کلاسز کا آغاز کر لیا گیا۔ حکومت اور تعلیمی ادارے اپنے کامیاب پالیسی کے گن گا رہے تھے کہ آن لائن کلاسز کے ذریعے سے ریاست تعلیم کو گھر گھر پہنچانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن ان کا یہ دعوی اس وقت ننگا ہو کر سامنے آ گیا، جب نامعلوم بچی کی لاش کے بارے میں پولیس کی ابتدائی رپورٹ سامنے آ گئی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس چودہ سالہ بچی کا نام دیویکا تھا اور اس کی موت خودکشی کے باعث واقع ہوئی۔

دوسرے بچوں کی طرح دیویکا کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ یکم جون ہی وہ بدنصیب دن تھا جس دن دیویکا کے نئے تعلیمی سال کی پہلی کلاس ان لائن ہونے والی تھی۔ دیوکا کا تعلق ایک غریب محنت کش خاندان سے تھا۔ اس کو سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں تھی جس کے ذریعے سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی اپنی پہلی ان لائن کلاس لے سکے۔ دیویکا نے اپنے غریب والد سے کئی بار گھر کا پرانا ٹی وی ٹھیک کرنے اور سمارٹ فون دلانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کا غریب باپ اس کے یہ خواہشات پورے کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ احساس محرومی کی شکار دیویکا نے یکم جون کو مٹی کا تیل چھڑک کر اپنے آپ کے ساتھ ساتھ سرمایہ درانہ سماج اور ریاست کے جھوٹ کو بھی نذر آتش کر دیا۔

آج کل کے حالات اور اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نہ اس طبقاتی معاشرے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے امیر و غریب پر معاشی تباہ حالی کے اثرات یکساں ہیں اور نہ ہی تمام طلباء کو ان لائن کلاسز میں رسائی کے لیے یکساں سہولیات میسر ہیں۔ ان لائن کلاسز کا یہ مسئلہ سب سے زیادہ پاکستان، بنگلادیش اور انڈیا جیسے غریب ممالک میں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں، تو یہاں پر کئی نجی تعلیمی اداروں اور HEC ہایئر ایجوکیشں کمیشن نے ان لائن کلاسز کا اجراء کر لیا یے۔

ان لائن کلاسز کے لیے تیز رفتار انٹرنیٹ کنیکشن کا ہونا نا گزیر ہے، جو یہاں پر بہت سے لوگوں کے لیے ایک ”Luxury“ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پختونخوا کے مغربی اضلاع (فاٹا) میں انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضرورت، حکومتی خواہشات کے مطابق، کئی سالوں سے بند پڑی رہی۔ اسی طرح پخونخواہ کے جنوبی اضلاع اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں بھی 3 G 4 G ناپید ہو چکا ہے۔ اگر اسی صورتھال میں ان لائن کلاسز جاری رکھیں گئی تو یہ دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

انٹرنیٹ کے فراہمی کے علاوہ بہت سے طلباء کو ان لائن کلاسز میں دیے جانے والے لکچرز پر بھی اعتراض ہے۔ بہت سے طلباء کے مطابق آن لائن لیکچرز اس لیے بھی موثر نہیں کیونکہ سٹوڈنٹ اور ٹیچر کے مابین باہمی بات چیت کافی حد تک محدود رہتی ہے۔ طلباء کے پاس اکثر انلیمیٹیڈ انٹرنیٹ کی سہولت بھی میثر نہیں ہوتی اور اکثر طلباء تو ”سوشل“ پیکجز پر گزارا کر کے صرف فیسبک، واٹسیپ اور دیگر سوشل ویب سائٹس تک ہی رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ان طلباء کو آن لائن کلاسز لینے کے لیے آن لیمیٹیڈ انٹرنیٹ اور اضافی اخراجات کے بوجھ کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔

اصل میں ان لائن لیکچرز کی افادیت اور انٹرنیٹ پیکچز کے اخراجات وہ مسائل ہیں جن کو ہم وقتی طور پر نظر انداز کر سکتے ہیں، کیونکہ انتہائی حالات میں انتہائی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، اور وقتی طور پر طلباء تعلیم کی خاطر قربانیوں کے لیے تیار بھی ہیں۔ لیکن دور دراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم فراہمی اور ناکس انفاسٹرکچر کے ہوتے ہوئے آن لائن کلاسز جاری رکھنا طلباء کے حقوق اور ان کے مستقل کے ساتھ کھیلنے کے برابر ہوگا۔

حکومت اگر کورونا وبا کے انے سے پہلے انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضرورت کو دور دراز کے علاقوں اور فاٹا کے کونے کونے تک پہنچا دیتا، اور سماج میں امیر و غریب کی تفریق مٹا دیتا تو آج طلباء اور ایچ ای سی کو یہ مشکل دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اگر حکومت نے ان لائن کلاسز کا اجراء کرنا ہی تھا، تو کئی مہینے کی تاخیر سے کلاسز شروع کر کے طلباء کا قیمتی وقت کیوں ضائع کیا گیا۔ ہمیں اپنی ان ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کا سوچنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments