پاکستان کا کرونائی بجٹ 2020۔ 21


وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے گزشتہ روز پی ٹی آئی حکومت کا 7.14 ٹریلین کا دوسرا بجٹ اپوزیشن کے شور شرابے میں پیش کر دیا۔ جس کا حجم 2019۔ 20 کے بجٹ کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے اور اس میں 3,500 بلین خسارہ دکھایا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اس بجٹ کو کرونائی ہنگامی بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت کورونا کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کی حکومتوں کو خراب معاشی صورت حال اور بے روزگاری کے طوفان جیسے گمبھیر چیلینجوں کا سامنا ہے۔

حکومت اسے عوام دوست ریلیف بجٹ قرار دے رہی ہے کیونکہ حکومت کے مطابق اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بجٹ کا خاص پہلو یہ ہے کہ دفاعی بجٹ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے پر اب حکومت کے لئے انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ قیمتوں اور افراط زر پر کنٹرول اور کمی کے لئے ٹھوس اقدامات کر کے عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ ورنہ عام آ دمی کے لئے حالات اور بھی مشکل ہوسکتے ہیں۔

حکومت نے اس بجٹ میں اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں بڑی کمی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو یہ خوش آئند پہلو ہوگا۔ اس بجٹ کے دیگر اہم نکات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ درآمدی سگریٹ، بیڑی، سگار، جوتا، کپڑا موبائلز، ڈبل کیبن اور سپورٹس یوٹیلٹی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجاویز منظور ہونے کی صورت میں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ انرجی ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

مقامی تیارکردہ موبائلز، جوتوں، کپڑوں پر سیلز ٹیکس اور آٹو و موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی موٹر سائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجاویز منظور ہونے کی صورت میں ان کی قیمتیں کم ہونے جا رہی ہیں۔ ہو ٹل انڈسٹری کو موجودہ حالات کے باعث معاشی سہارا دینے کے لئے ٹیکس کی شرح ستمبر تک 1.6 فیصد سے کم کر کے 0.17 کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح بچوں کے سپلیمنٹس اور ڈائٹ فوڈز پر درآمدی ٹیکس ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

فنکاروں کے لئے امدادی رقم 25 کروڑ سے بڑھا کر ایک ارب کر دی گئی ہے اور احساس پروگرام کے فنڈز 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب کر دیے گئے ہیں۔ اس بجٹ میں کورونا سے نمٹنے کے لئے 1200 ارب رکھے گئے ہیں اور کرونا کٹس اور دیگر ساز و سامان کو درآمدی ڈیوٹی فری قرار دے دیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا بجٹ 60 ارب سے بڑھا کر 64 ارب، صحت عامہ کے لئے 75 ارب، ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے 10 ارب، کامیاب نو جوان پاکستان پروگرام کے لئے 2 ارب، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے لئے 1.5 ارب، یوٹیلٹی سٹورز کے لئے 50 ارب، سائنس انفار میشن ٹیکنالوجی کے لئے 20 ارب، ریلوے کے لئے 40 ارب، ای سکولز کے لئے 5 ارب، وفاقی ہسپتالوں کے لئے 13 ارب، مزدور طبقے کے لئے 200 ارب، ورکرز ویلفیئر فنڈز کے لئے 3 ارب، پانی کے شعبے کے لئے 70 ارب، پبلک سیکٹر کے لئے 605 ارب، سماجی شعبوں کے لئے 250 ارب، مواصلات کے لئے 37 ارب، تعلیم میں جدت و ترقی کے لئے 30 ارب، توانائی خوراک اور دیگر شعبوں کے لئے 180 ارب، زرعی شعبہ کے لئے 10 ارب، NHA اور سی پیک کے لئے 118 ارب رکھے گئے ہیں۔

جبکہ دفاعی بجٹ کو چیف آف آرمی سٹاف کی درخواست پر سابق سطح پر منجمد کرتے ہوئے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جو کہ اس بجٹ کا بہت نمایاں پہلو ہے۔ وزیر صنعت و پیداوار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر کی وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا اور اس بجٹ میں جی ڈی پی کا ٹارگٹ 2.1، جبکہ 2223 ارب کے غیر ملکی قرضے حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ جبکہ مہنگائی کی شرح 9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پٹرولیم کی مصنوعات پر وفاقی حکومت کی طرف سے 37 ارب کی سبسڈی دی گئی۔

یہ بھی اعلان کیا گیا کہ پنشن کے خطیر اخراجات کم کرنے کے لئے نیا نظام بنایا جائے گا۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو موجودہ مشکل حالات میں یہ بجٹ متوازن نظر آتا ہے۔ بجٹ عام طور پر اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے جس کو ماہرین اقتصادیات بھی آسانی سے نہیں سمجھ پاتے۔ اس کے اسرار و رموز وقت کے ساتھ ہی کھلتے ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے یہ پہلو بہت اہم ہو گا کہ وفاقی حکومت کس طرح سے بجٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کراتی ہے اور کرونا کی موجودہ صورتحال ہماری معیشت اور معاشرت کو آنے والے دنوں میں کس حد تک اور کب تک متاثر کرتی ہے۔

بظاہر ایسا لگ رہا کہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز اور تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے کچھ ماہ کے بعد ضمنی بجٹ کی شکل میں نئی سفارشات پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس بجٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا دار و مدار اس امر پر ہوگا کہ حکومت عوامی ریلیف کی فراہمی، کرونا و ٹڈی دل سے جنگ، مہنگائی و افراط زر پر کنٹرول، روزگار کی فراہمی اور معیشت کی بہتری وغیرہ جیسے اقدامات کتنی تیزی اور کامیابی سے اٹھاتی ہے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کو جنگی بنیادوں پر ان سارے چیلنجز سے انتہائی مستعدی اور کامیاب حکمت عملی سے نمٹنا ہو گا ورنہ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ مشکل حالات اور بحرانوں میں ہی قیادت کا امتحان ہوتا ہے اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی قیادت کو بھی ایسے ہی امتحان کا سامنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امتحان سے کس طرح سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ اور یہ بات اسے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس امتحان کا نتیجہ اس کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments