سہیل وڑائچ اور میرے چند دوست


سجاد حیدر یلدرم نے اپنے دوستوں کا ذکر نہایت ہی دلفریب انداز میں اپنے مضمون ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ“ میں کیا ہے۔ دوستوں کا ساتھ دوستی قائم رہنے تک نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک دائم حقیقت لازوال ہے۔ سجاد حیدر یلدرم کے ایک زمیندار دوست جو ان کی ادبی تخلیق کے بڑے معتقد تھے یا نہیں مگر ایک بات وہ بخوبی جانتے تھے کہ یلدرم جیسے وسیع المتخیل ادبا ہی کو یہ مقام امتیاز حاصل ہے کہ وہ خیال و گیان کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر تخلیق فن و ادب کے بیش بہا موتی چن سکتے ہیں اور پھر انہیں قلم و قرطاس سے ہم آہنگ و ہمکلام کر کے الفاظ کا ایسا پیرہن پہنا سکتے ہیں کہ زندگی عمر رفتہ کی بندشوں سے نکل کر حیات جاویداں کی بلندیوں کو چھو لے۔

اور یوں ہر مرد و زن کو اس کی باکمال صلاحیت سے اس طرح سے روشناس کرا دے کہ ہر قاری و سامع ان میں چھپے نگینوں کو چن کر اپنی اپنی زندگیوں کو سنوار لے۔ اچھے تخلیق کار کو اس مقصد کے لئے فطری حسن پرسکون ماحول و تنہائی درکار ہوتی ہے جس میں ڈوب کر تخلیق کار اپنا ربط فطرت کی براہ راست پرواز تخیل کے ساتھ جوڑ لے۔

ان مندرجات کو مد نظر رکھتے ہوئے سجاد حیدر یلدرم صاحب کے زمیندار دوست نے اپنی زرخیز زمینوں کے سب سرسبز اور فطری حسن سے مالا مال حصے کو جو حویلی کی بالائی منزل پر ایک بڑا کمرہ تھا جو آج کل کے کسی سن روم کے متشابہ تھا کو آپ کے رہنے کے لئے مختص کر دیا۔ یلدرم صاحب کو کسی شے کی کمی نہ رہے اس خدمت کے لئے متعدد خدمتگاروں کو حویلی کی بالائی منزل پر متعین کر دیا گیا اور ان کو ہدایات تھیں کہ یلدرم صاحب ایک ادیب ہیں لکھاری ہیں اور ادب فطرت کا ایسا جمال ہے جو قربت اصل سے رابطہ قائم کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے لہذا انہیں کسی قسم کی کوئی ڈسٹربنس نہ ہونے پائے لیکن خدمت میں بھی کوئی کمی نہ رہے، بس خیال رہے کہ کسی چیز کے لئے انہیں کبھی تقاضا نہ کرنا پڑے۔ اب متعین ملازمین گاہے بگاہے کوئی آواز نکالے بغیر کمرے میں جاتے اور نہایت تعظیم سے یلدرم صاحب سے چائے پانی کھانا اور دیگر وغیرہ کا پوچھتے رہے۔

رات کے کھانے پر جب یلدرم صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان کے دوست نے یلدرم صاحب سے پوچھا کہ دن کیسا گزرا یقیناً آج تو آپ کے تدبر و تخیل کی پرواز نے ساتوں آسمانوں کی وسعتوں کو کھنگال مارا ہوگا۔ یلدرم صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ آسائشوں کا تذکرہ کروں تو آپ کی مہمان نوازی یقیناً کسی شاہی مہمانداری سے کم نہیں مگر یہ ماحول کسی تخلیق کار کے لئے ایسا ہی ہے کہ کوئی ظالم تفتیشی ہاتھوں میں کوڑا اور آنکھوں میں خون بھرے لب پہ مسکراہٹ لئے کھڑا آپ کو جسم و روح کے ربط سے متعلق بیان دینے اور اس کا تمثیلی ثبوت فراہم کرنے پر مجبور کر رہا ہو لیکن ساتھ ہی حکم شاہی کے مطابق شاہی دسترخوان کی پرتکلف ضیافت کو بھی مسلسل نوش کرتے رہنے کا حکم بھی دیتا رہے۔

فطری حسن، تنہائی پرواز تخیل کی کنجی ہے مگر تنہائی سے مراد تنہائی ہی ہوتی ہے گیان اور دھیان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں گیان کا راستہ قلب کی بالیدگی سے مزین ہو تو خیالات الفاظ میں ڈھلتے ہیں کیفیت قلبی قلم و قرطاس کو ازخود ہم آہنگ کر دیتی ہے تبھی ایک عمدہ تخلیق شعر کہانی افسانہ یا تصویر ظہور پاتی ہے۔

ذکر دوستوں کا تھا مگر بات یلدرم صاحب کے مضمون کی جانب چل نکلی۔ دراصل میں تو اپنے دوستوں کا تذکرہ کرنے والا تھا۔ ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں یار دیرینہ جان جگر یار من المشہور سہیل وڑائچ کا کالم نظر سے گزرا جس میں انہوں نے اپنے کرونا میں مبتلا ہونے کا ذکر کیا تشویش ہوئی دل سے صحتیابی کی دعا نکلی اور پھر کالم پورا پڑھ ڈالا۔ دل رنجیدہ ہوا کہ ایک دوست جس کے ساتھ ہم نے نوجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا وہ کیونکر اس وبا کا شکار ہوا۔

دوست اگر تکلیف میں ہو تو اس کا اثر براہ راست دوستوں متاثر کرتاہے اس کرب کا احساس بھی آج ہی ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم ایف سی کالج میں زیر تعلیم تھے مگر سہیل سے ہماری ملاقات بی ایس سی یعنی تھرڈ ائر میں ہوئی جب ہمارے تمام مضامین اور سیکشن ایک ساتھ تھے۔ جلد ہی ہم کلاس فیلوز سے دوست ہو گئے اور پھر دیگر ہم خیال احباب کی شرکت نے ہمارا ایک گروپ بنا دیا جس میں منان ایوب سلہریا، مصدق عباس، میں خود، اور سہیل سرور سلطان تھے بدر امین اور افضال مرزا بھی ہمارے گروپ میں تھے مگر وہ اس تواتر سے ہماری محفلوں کا حصہ نہ ہوتے جیسے ہم چاروں۔

ہماری ملاقاتوں کا مرکز تھیوری اور پریٹکٹیکلز کے بعد کالج مین گراؤنڈ کے بائیں ہاتھ پر موجود سپورٹس بلڈنگ میں کنٹین سے ملحقہ ایک مخصوص کمرہ تھا جو دراصل ایف سی کالج کے آفیشل کالج میگزین ”فولیو“ کا آفس تھا یہ کمرہ ہمیں کیسے ملا؟ ہوا یوں کہ کالج میگزین اس وقت تک عرصہ تقریباً دس سال سے بند تھا ہم نے سہیل سرور سلطان (سہیل وڑائچ) کی قیادت میں اسے دوبارہ شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا پرنسپل ایف سی کالج جناب میر محمد یعقوب صاحب نہایت حلیم الطبع نرم خو شخصیت کے مالک تو تھے ہی مگر ایڈمنسٹریشن پر ان کی گرفت بہت کمزور تھی لہذا واجبی سی محنت کے بعد ہم نے انہیں میگزین کی ازسرنو اشاعت پر قائل کر لیا۔

میگزین کی دو حصے تھے اردو اور انگریزی پروفیسر طلعت محمود صدر شعبہ انگریزی ادب میگزین کے مدیر اعلی تھے انہوں نے اردو اور انگریزی سیکشن کے لئے مدیران کی تقرری کے لئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اردو کے لئے سہیل سرور سلطان (سہیل وڑائچ) ہمارے متفقہ امیدوار تھے اور انگریزی کے لئے ایم اے انگلش سال اول کی ایک نہایت حسین و جمیل دوشیزہ مس شاہین خان کو منتخب کیا گیا۔ مس شاہین خان کی مدیرانہ صلاحیتوں کا تو پتہ نہیں مگر ان کا حسین ہونا ہم سب کی نظر انتخاب کی وجہ ضرور تھا ویسے بھی ہمارا خیال تھا کہ جنس مخالف کا کسی بھی ادارے میں ہونا ادارے کی کارکردگی کو دو چند کر دیتا ہے۔

بہرحال ہم چاروں دوست ہمیشہ روزانہ کی بنیاد پر کالج کے بعد کالج میگزین آفس ملاقات کرتے تھے اور اس کے بعد ہمارا ڈیرہ یا تو سہیل کا لبرٹی مارکیٹ والا اپارٹمنٹ ہوتا یا 40 گارڈن بلاک نیو گارڈن ٹاؤن منان ایوب کا گھر جہاں ہم بی ایس سی کے امتحانات کے بعد بھی یونیورسٹی میں ایم ایس سی کے داخلوں تک باقاعدگی سے ملتے رہے۔ بی اے /بی ایس سی کے نتائج کے بعد سہیل نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کیا اور منان ایوب نے کیمیا دان بننے کی ٹھانی اور میں باٹنی اور پلانٹ سائنسز میں چلا گیا مگر ہم سب پنجاب یونیورسٹی سے ہی منسلک رہے۔

یونیورسٹی سے فارغ ہو کر سہیل جنگ گروپ سے منسلک ہوئے میں ایک سال تک یو جی سی ٹیلنٹ سکالرشپ جو مجھے جینیات اور مالیکیولر بیالوجی میں امتیازی پوزیشن کی وجہ سے ملا تھا پر پنجاب یونیورسٹی شعبہ نباتیات میں ریسرچ سکالر کے طور پر ایک سال کے لئے کام کرنے لگا اور پھر مقابلے کا امتحان دیا۔ مگر ہم 1998 میں امریکہ چلے گئے اور ساتھ ہی یہ سب ملاقاتیں بھی رفتہ رفتہ ماند پڑتی گئیں۔ اب گاہے بگاہے سہیل سے ملاقات ہوتی ہے یعنی جب کبھی میں پاکستان آؤں اور سہیل بھی اس دوران پاکستان میں ہو۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جو اس تشنگی کو قدر کم کیے ہوئے ہے

سہیل سرور سلطان (سہیل وڑائچ) کو کرونا ہو گیا سن کر دل بہت افسردہ ہوا اور یار من سہیل کے لئے دل سے صحت یابی کی دعا نکلی۔ اللہ تعالی میرے پیارے دوست کو کامیابیوں کے سفر پر پہلے کی طرح تندرست و توانا رواں دواں فرما دیں۔ دوست مجھ جیسے فقیروں کا کل سرمایہ ہیں، سب شاد رہیں سلامت رہیں۔ ہم کتنے ہی بڑے ہو جائیں، دنیا میں جتنا بھی نام کمائیں دوستی نام یا فیم سے بالاتر رشتہ ہے۔ سہیل وڑائچ جس کا آج صحافت و تجزیہ نگاری اور دانشوری میں طوطی بولتا ہے یہ سب قابل ستائش بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ مگر وہ میرے لئے آج بھی سہیل سرور سلطان ہے جو میرا دوست ہے اور میرے لئے یہ دوستی قابل فخر ہے۔

کرونا وبا ہے اور ہم سب میں سے کوئی بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنا اپنا خیال رکھیں ماسک لگائیں ہاتھ دھوئیں اور سب سے اہم فاصلہ رکھیں یہی اب تک اس وبا سے بچنے کی واحد تدبیر ہے۔ سب شاد سلامت ملک سلامت قوم سلامت بنی نوع انسانی شاد سلامت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments