مولانا رومی اور شیخ سعدی کی حکایات


ایک دن میں نے شاہد اختر سے پوچھا، کیا آپ میرے رفیق ہیں یا رقیب؟
شاہد اختر بہت حیران ہو کر کہنے لگے میں تو آپ کو اپنا رفیق اور اپنا دوست سمجھتا ہوں آپ مجھے کیوں اپنا رقیب سمجھتے ہیں۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا وہ اس لیے کہ ہم دونوں کی مشترکہ محبوبائیں ہیں اور وہ عالمی ادب کی کہانیاں ہیں جن کے ہم دونوں بڑے ذوق و شوق سے اردو میں تراجم کرتے ہیں۔
اس نیم مزاحیہ اور نیم سنجیدہ گفتگو کے دوران ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے تراجم کو یکجا کر کے ایک مشترکہ کتاب بنائیں گے اور اس کا نام ”نگر نگر کی کہانیاں۔ ۔ ۔ عالمی ادب کے اردو تراجم“ رکھیں گے۔ اس سلسلے میں شاہد اختر روسی اور یورپی ادیبوں کی اور میں ایشیائی اور شمالی امریکی ادیبوں کی کہانیاں ترجمہ کر رہا ہوں جن میں سے چند، ہم سب، پر چھپ چکی ہیں۔ آج میں آپ کو مولانا رومی اور شیخ سعدی کی تین چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ترجمے سناتا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئیں گے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حقیقت کیا ہے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چند دوست ایک ہاتھی کو تاریک کمرے میں باندھ آئے۔ اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو ہاتھی دیکھنے کی دعوت دی۔
لوگ ہاتھی کو دیکھنے کے لیے تاریک کمرے میں داخل ہوئے چونکہ وہ دیکھ تو نہ سکتے تھے تو انہوں نے اسے ہاتھ سے چھونے کی کوشش کی۔

ایک شخص نے اس کان چھوا اور کہا ”یہ ایک پنکھے کی طرح ہے۔“
دوسرے شخص نے اس کی سونڈ کو چھوا اور بولا ”یہ پانی کے نلکے کی طرح ہے“
تیسرے شخص کا ہاتھ اس کی ٹانگ کو لگا، اس نے کہا ”ہاتھی ایک ستون کی طرح ہے۔“
چوتھے شخص نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور بولا ”یہ ہاتھی ایک تخت کی طرح ہے۔“

ہر شخص نے ہاتھی کو اپنے تجربے کی طرح سمجھا اور دوسروں کو بتایا۔
اگر ہر شخص کے ہاتھ میں ایک موم بتی ہوتی تو ان کے تجربات کا فرق دور ہوجاتا۔
تحریر: رومی (مثنوی )
انگریزی ترجمہ : رینلڈ نکسن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ظاہر و باطن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک دن حضرت موسی کی سر راہ ملاقات ایک گڈریے سے ہوئی جو بہ آواز بلند یہ کہہ رہا تھا۔ ”اے خدا! تم کہاں ہو اگر میری تم سے ملاقات ہو جائے تو میں تمہارا غلام بن کر زندہ رہوں۔ میں تمہارے جوتوں کی مرمت کروں اور تمہارے سر میں کنگھی کروں، میں تمہارے کپڑے دھوؤں، تمہاری جوئیں ماروں اور تمہارے لئے دودھ لے کر آؤں۔ اے پروردگار! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تمہارے ہاتھوں کو بوسہ دوں اور تمھارے پاؤں کی مالش کروں اور جب تمہارے سونے کا وقت آ جائے تو تمہارے کمرے کی صفائی کروں۔ او خدا! میں تم پر اپنی بکریاں قربان کرنا چاہتا ہوں اور میں تمہاری تلاش میں مارا مارا پھرتا رہتا ہوں کاش تو میری یہ گریہ و زاری کو سن سکے۔“

وہ گڈریا اسی قسم کی بے تکی باتیں کرتا جا رہا تھا۔ موسیٰ نے اسے روک کر پوچھا ”اے انسان! تم کس سے مخاطب ہو؟“
وہ بولا ”اس ذات سے جس نے ہم سب کو بنایا اور جس نے ہمیں زمین اور آسمان دکھائے۔“

موسیٰ بولا ”استغفراللہ! تم نے ایسی بے ہودہ باتیں کی ہیں کہ تمہارا ایمان فاسد ہوگیا ہے اور تم کافر ہو گئے ہو۔ تم نے خدا کی توہین کی ہے۔ خدا ان سب باتوں سے بالاتر ہے۔ تمہیں اپنے منہ میں روئی بھر لینی چاہیے۔ تمہاری باتوں کی بدبو چاروں طرف پھیل گئی ہے۔ تم نے مذہب کی خلعت فاخرہ پر بد نما دھبے بکھیر دیے ہیں۔ تمہیں خدا کی عظمت کا کوئی اندازہ نہیں۔“

گڈریا بولا ”او موسیٰ! تم نے میرے منہ کو بند اور میری روح کو مجروح کر دیا ہے۔“
اس نے اپنے کپڑے پھاڑے، آہ و زاری کی اور ریگستان کی طرف بھاگ نکلا۔

اسی دن خدا موسیٰ سے مخاطب ہو کر بولا ”اے موسیٰ! یہ تم نے کیا کیا، تم نے میرے غلام کو مجھ سے جدا کر دیا۔ کیا تم دنیا میں لوگوں کو مجھ سے ملانے آئے ہو یا جدا کرنے، مجھے سب چیزوں سے زیادہ ناپسند جدائی ہے۔ میں نے ہر انسان کو ایک منفرد مزاج جداگانہ انداز فکر اور خصوصی طرز فکر سے نوازا ہے۔ جو چیز تمہارے لئے باعث شرم ہے وہ اوروں کے لیے باعث فخر ہو سکتی ہیں۔ جو چیزیں تمہارے لیے زہر ہیں وہ اوروں کے لیے امرت بن سکتی ہیں۔ میں لوگوں کی طرز عبادت سے بالاتر ہوں۔ میں ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتا ہوں۔ میں ان کے ظاہر کو نہیں دیکھتا میں ان کے باطن پر نظر رکھتا ہوں۔ میرا کام ان کے عیوب پکڑنا نہیں بلکہ انہیں رحمت سے مالامال کرنا ہے۔ میں ان کی زبانوں کو نہیں پرکھتا بلکہ ان کے دل کی گہرائیوں کو جانچتا ہوں۔

اے موسیٰ! میں الفاظ کی خوبصورتی نہیں، دل کی جلن کا خواہشمند ہوں، جاؤ ان کے باطن میں محبت کی ایسی آگ روشن کرو جو ظاہر کے حسن کو خاشاک کو جلا ڈالے، مجھے روایتی انداز میں عبادت کرنے والوں کی بنسبت وہ لوگ زیادہ عزیز ہیں جن کے دل اور روح میں میری محبت کی آگ روشن ہے۔“
تحریر: رومی (مثنوی) انگریزی ترجمہ : رینلڈ نکسن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک فلسفی کی بات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک بادشاہ اور ایک ایرانی غلام ایک ہی کشتی میں سفر کر رہے تھے۔ اس غلام نے پہلے کبھی کسی کشتی میں سفر نہ کیا تھا۔ جب کشتی ہچکولے کھانے لگی تو غلام نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اسے بڑے پیار سے چپ رہنے کو کہا گیا لیکن اس کے واویلے میں کوئی فرق نہ آیا۔ بادشاہ کو یہ بات ناگوار گزری۔

اس کشتی میں ایک فلسفی بھی سفر کر رہا تھا۔ اس نے جب یہ حالات دیکھے تو بادشاہ سے کہنے لگا، اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اسے خاموش کرا دوں۔
بادشاہ نے جواب دیا، ہم آپ کے بہت ممنون ہوں گے۔

فلسفی نے حکم دیا کہ غلام کو پانی میں پھینک دیا جائے۔ چنانچہ اسے کشتی سے باہر پھینک دیا گیا۔ جب غلام نے کچھ غوطے کھائے اور پانی نگلا تو اسے سر کے بالوں سے پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ اس کے بعد وہ غلام ایک کونے میں جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ بادشاہ کو یہ منطق سمجھ نہ آئی چنانچہ اس نے فلسفی سے وضاحت چاہی۔

فلسفی بولا، حضور! جب تک اس نے چند غوطے نہیں کھائے تھے اسے کشتی کی حفاظت اور سکون کا اندازہ نہ تھا۔ انسان کو اس وقت تک برے حالات سے محفوظ رہنے کا اندازہ نہیں ہوتا جب تک وہ حادثات کا شکار نہ ہو جائے،

تحریر شیخ سعدی
انگریزی میں ترجمہ۔ ۔ ۔ رچرڈ برٹن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments