کورونا: ایک منصف جلاد


نہیں معلوم کہ انسانی تاریخ میں اس سے قبل ایسا ہوا ہو کہ کسی آفت نے بلا تفریق رنگ و نسل، ملک و ملت، حسب و نسب، مال و دولت، اور مذہب و عقیدہ، تمام انسانوں کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہو۔ کسی امتیازی سلوک کے بغیر، کسی پسند و نا پسند کے بغیر، کسی دوست اور دشمن کی تخصیص کے بغیر۔

اور انسانی تاریخ میں اس قربانی کو بھی بھلایا نہیں جا سکے گا جو اس آفت کے مقابل، دنیا بھر میں میڈیکل پیشے نے دی۔ آزمائش میں گھرے انسانوں کی زندگی بچانے کے لئے، اپنی زندگی قربان کرنے والے میڈیکل، پیرا میڈیکل اور تمام ملحقہ شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو ہمیشہ سرخ رو اور ہیرو کے طور پر یاد کیا جائے گا اور وہ تمام معصوم جو اس آفت کے ہاتھو ں لقمہ اجل بنے، وہ شہدائے انسانیت کے درجہ پر ہی فائز ہوں گے۔

یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اس آفت نے انسانیت کے شعور اور آگہی کے بہت سے دروازے وا کیے ہیں۔ تصورات کی بہت سی بوسیدہ عمارتوں کو یا تو سرے سے ڈھا دیا ہے، یا ان میں دراڑ ڈال دی ہے۔ بے بنیاد کی بنیاد، تلاشنے اور تراشنے میں، انھیں فکری الجھاؤ کا سامنا ہے، جو چشم پوشی سے کام لینا چاہتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے جو انھیں حقیقتاً دکھائی دے رہا ہے۔ وہ تاحال یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آئندہ ان کھلے دروازوں سے وہ ہی گزر سکے گا، جو کھلے ذہن کا مالک ہو گا۔ ماضی کی اندھی تقلید کی، مستقبل کی دنیا، کیوں کر تائید کر پائے گی، اس خود فریبی کا اسرار بھی دم بھر کا ہے۔

کورونا سے جنم لینے والی صورت حال کا عمیق جائزہ لینے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آفت نے بلا شبہ انسانوں اور انسانیت کے لئے وہ سوالات کھڑے کیے ہیں جن سے اس کرہ ارض پر آباد، ابھی تک نظریں چراتے آئے تھے۔ شاید بڑی بڑی جنگیں اپنی پیدا کردہ تباہی اور وحشت سے وہ سب کچھ، نہ کر سکیں، جس کی طرف اس نادیدہ آفت نے، چشم بینا کے لئے نشان دہی کی ہے۔ اپنی نام نہاد کامیابیوں پر نازاں، اشرف المخلوقات کے احساس تفاخر کو، اس آفت نے حقارت سے مٹی میں ملا دیا ہے۔

آنے والے دنوں، مہینوں اور برسوں میں جب یہ کورونا کسی کونے میں چھپ جائے گا ( یا انسان اس پہ حاوی ہو جائے گا ) ، تب بھی اس کے پیدا کردہ سوالات، انسانوں کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

کورونا کا سب سے اہم سوال ہی یہ ہے کہ جس طرح اس نے اپنے طرز عمل میں، انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کی، کیا بعد از کورونا، تشکیل پانے والی نئی دنیا میں انسان بھی اپنے درمیان موجود ہر قسم کی خود ساختہ دیواروں کو مسمار کر دے گا اور محبت، رواداری، حسن سلوک، اور بھائی چارے کی وہ فضا تعمیر کرے گا، جہاں، نفرت سے سب کو نفرت ہو گی۔

نئی دنیا انسانی نگھداشت کا گہوارہ ہو گی، نہ کہ عہد حاضر کی طرح مفادات کا اندھا کنواں۔ بلا امتیاز، سب کے لئے سب میسر ہو گا۔ انسانوں کے وسائل کو انسانوں کے مسائل کے حل لئے استعمال کیا جائے گا نہ کہ ان کے پھیلاؤ اور الجھاؤ کے لئے۔

تخریب کی فصل کاٹ کر، تعمیر کے بیج بوئے جائیں گے۔ مردم کش اسلحہ، بارود کی جگہ انسان دوست، صلح جوئی اور بقائے باہمی کی طرف پیش رفت کی جائے گی۔

ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالنے کے ساتھ، انسانوں کی بے بسی، دکھ اور محرومی کو جنم دینے والے اسباب کو بھی لگام دی جائے گی۔

خلاؤں میں نئے امکانات ڈھونڈنے کے ساتھ، زمین پر موجود پرانے حالات بھی ٹٹولے جائیں گے۔

کورونا کے ہاتھوں، انسانوں نے جو عظیم قربانی دی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ نئی دنیا، پرانی دنیا سے یکسر علیحدہ اور مختلف ہو اور اس کے لئے لازمی ہے کہ کورونا کے پیدا کردہ، سوالات کے مثبت جواب ڈھونڈے جائیں، اگر ایسا نہ ہوا تو ( خاکم بہ دہن ) نہیں معلوم کہ کب کورونا کسی اور نام سے، کسی اور موڑ پر، کسی اور روپ میں، پھر سے حملہ آور ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments