ہم سنتھیارچی کو دیکھیں یا تیل کوئلے کا حساب کریں


جب ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے انٹرویوز میں کئی مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ ہمیں خدا نے کوئلے کے وسیع ذخائر سے نوازا ہے اور ماضی کی حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اور اب اس طرف توجہ دی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ تھر میں کوئلے کو استعمال میں لانے کے منصوبے نے پاکستان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ پھر گزشتہ سال مئی میں وزیر اعظم صاحب نے یہ خوش خبری سنائی کہ جلد کراچی کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ملنے کی امید ہے جس کے بعد ہمیں تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

اس کی تردید تو جلدی ہو گئی تھی کہ اس مقام پر کوئی ذخائر نہیں ملے۔ اس پر خاکسار نے گزشتہ سال جون میں ایک کالم بھی لکھا تھا۔ اس کالم میں خاکسار نے عرض کی تھی کہ فی الحال کسی بڑی کامیابی کی خام امید میں مبتلا ہونے کی بجائے بعض بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کالم کا عنوان تھا ”تیل اور گیس کی خوش خبریاں چھوڑیں، ٹھوس منصوبہ کیا ہے؟“

اور اس سال فروری میں عمران خان صاحب نے اس امید کا اظہار فرمایا کہ بلوچستان میں ملنے والے سونے کے ذخائر سے ہم بیرونی قرضے ادا کردیں گے۔ اور کرکٹ کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میں نوجوانی میں کرکٹ سیریز کھیلنے انگلستان گیا تو میرے سینیر ساتھی کہتے تھے کہ ہم یہ سیریز نہیں جیت سکتے۔ تو میں نے کہا کہ یہ غلامانہ ذہنیت ہے۔ ہم جیت سکتے ہیں۔ زندگی میں اونچ نیچ تو آتی رہتی ہے، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔

یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو امید ہے کہ کسی دن تیل گیس یا معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہو کر ہماری قسمت بدل دیں گے۔ اور بحیثیث قوم بھی ہم ایسی کامیابیوں کو پسند کرتے ہیں جن میں اچانک کہیں سے کوئی خزانہ دریافت ہو جائے اور ہمارے عیش ہو جائیں۔ یہ جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر معدنیات کی پیدار بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟

چند روز قبل حکومت نے پاکستان کا سالانہ اقتصادی سروے جاری کیا۔ اس کے مطابق معدنیات کی پیداوار میں اس مالی سال میں جولائی سے فروری تک گذشہ مالی سال کے انہیں مہینوں کے مقابلے میں آٹھ فیصد سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔ ایک سال کے اندر یہ کمی بہت تشویشناک ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اس سے قبل کے سال کی نسبت ان وسائل کی پیداوار میں تین فیصد سے بھی زیادہ کمی ہوئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں پچھلے دو سالوں کے دوران اس لحاظ سے ہم آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔

ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس میدان میں تنزل کا رحجان ان دو سالوں کے دوران پیدا ہوا ہے یا اس حکومت نے ورثے میں یہ رحجان پایا تھا۔ تو اس بارے میں عرض ہے کہ 2017 کے مالی سال کے دوران اس شعبے میں گزشتہ سال کے کی نسبت سات فیصد زیادہ پیداروار ہوئی تھی۔ اور 2016 کے مالی سال کے دوران اس شعبے میں تین فیصد سے زیادہ ترقی ہوئی تھی۔ گویا جہاں تک معدنیات کا تعلق ہے تو حکومت نے تنزل کا یہ رحجان ورثے میں نہیں پایا تھا۔

حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی جائزے کے مطابق اس سال کے دوران بارہ معدنیات کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے اور صرف چار معدنیات کی پیداوار میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔

اب ہم تیل، گیس اور کوئلے کی پیداوار کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق توانائی کی شعبے سے ہے۔ اس مالی سال کے آغاز سے کچھ ہفتے قبل قوم کو یہ خوشخبریاں سنائی جا رہی تھیں کہ اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوں گے اور پاکستان کو کسی سے تیل خریدنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سال تیل کی پیداوار میں پچھلے سال کی نسبت دس فیصد کی کمی ہوئی ہے۔

اب یہ دیکھنا چاہیے کہ مختلف پارٹیوں کی حکومتوں کی کیا کارکردگی رہی ہے؟ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران تیل کی پیداوار میں نو فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اور مسلم لیگ نون کے پانچ سالہ دور میں یہ پیداوار ساڑھے آٹھ فیصد بڑھی۔ موجودہ حکومت نے یہاں سے کام سنبھالا اور اس کے بعد دونوں سال میں یہ پیداوار کم ہوئی ہے۔

اب ہم قدرتی گیس کی پیداوار کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کی حالت تیل سے بھی بری ہے۔ کیونکہ اس کی پیداوار مسلم لیک نون کے دور ہی میں کم ہونی شروع ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے جب اقتدار مسلم لیگ نون کے سپرد کیا ہے تو قدرتی گیس کی پیداوار ایک لاکھ پچاس ہزار MMCFT تھی۔ جب مسلم لیگ نون اقتدار سے رخصت ہوئی ہے تو یہ مقدار گر کے ایک لاکھ پنتالیس ہزار MMCFTرہ گئی تھی۔ پچھلے سال قدرتی گیس کی پیداوار دو فیصد کم ہوئی اور اب جو مالی سال ختم ہوا ہے اس میں یہ پیداوار مزید چھ فیصد کم ہو گئی ہے۔ اس طرح اب یہ کمی پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ہو رہی ہے۔

ہم ایک عرصہ سے یہ خوش خبری سن رہے ہیں کہ پاکستان کوئلے کی دولت سے مالامال ہے۔ اس لیے اس دولت کا حساب کتاب بھی ضروری ہے۔ جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو کوئلے کی سالانہ پیداوار 4 ملین ٹن تھی۔ اور جب 2013 میں اقتدار مسلم لیگ نون کے سپرد کیا گیا تو یہ مقدار گر کے تین ملین ٹن سے بھی کچھ کم ہو چکی تھی۔ جب مسلم لیگ نون نے اقتدار تحریک انصاف کے سپرد کیا تو یہ مقدار بڑھ کر ساڑھے چار ملین ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ سال اس میں تیزی سے بہتری آئی۔ لیکن اس مالی سال کے دوران اس میں چھ فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے۔

یہ مجموعی صورت حال کسی طرح سے بھی تسلی بخش نہیں کہلا سکتی۔ یہ سال قدرتی وسائل کے حساب سے مایوس کن سال رہا ہے۔ اس صورت حال میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سبز باغ دکھانے کی بجائے اکٹھے بیٹھ کر اس مسئلہ کا سائنسی تجزیہ کریں اور حل نکالنے کی کوشش کریں۔ حکومت کے لئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کہیں اس تنزل کی وجہ یہ تو نہیں کہ احتساب کے خوف سے ہماری بیوروکریسی ہمت اور قلم دونوں چھوڑ بیٹھی ہے؟

اور اپوزیشن کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال میں بجٹ سیشن کے موقع پر ”چینی چور“ کے نعرے لگا کر ایوان سے واک آؤٹ کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ اگر اس کی بجائے اپوزیشن کچھ ٹھوس تجاویز اور تجزیہ پیش کرتی تو بہتر ہوتا۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو شاید گزشتہ ایک دو ہفتوں کے دوران میڈیا نے امریکی خاتون سنتھیارچی پر زیادہ گفتگو کی ہے اور معدنیات کی گرتی ہوئی پیداوار کے مسئلہ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ اس خاتون کی شکایات اپنی جگہ پر اہم ہوں گی لیکن اگر ملک کے عوام تک ٹھوس حقائق پہنچائے جائیں تو زیادہ فائدہ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments