میرے (دانت) درد کو جو زبان ملے


میں نے ایک ہفتہ قبل جاوید ہاشمی صاحب کی نئی تصنیف ”زندہ تاریخ“ پڑھنا شروع کی۔ اب تک 450 صفحات پڑھ چکا ہوں۔ ان 450 صفحات میں سے تقریباً 300 صفحات پہ معمولات جیل و دانت کے درد اور دانت کی جراحی اور اس سے گزرنے والے کرب کی روداد درج ہے۔ اس کا میں نے اتنا اثر لیا کہ میری اپنی داڑھ میں درد شروع ہو گیا ہے اور تا حال جاری ہے۔ آپ شاید اسے حسن اتفاق کہیں لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ کیونکہ دانت کا درد نہ ہی حسین ہے اور نا ہی حسن اتفاق کے زمرے میں آتا ہے۔

آج کل میری تعیناتی بلوچستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں پاکستان ایران بارڈر پر ہے جس کا نام تفتان ہے۔ یہ ضلع چاغی کی سب تحصیل ہے۔ ضلع چاغی کو کئی حوالہ جات کے اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ مثلاً یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ پاکستان نے 28 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دوسرا یہ کہ یہ ضلع رقبہ کے لحاظ سے نا صرف بلوچستان کا سب سے بڑا ضلع ہے بلکہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا ضلع ہے اور اس کا رقبہ 44748 مربع کلومیٹر ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ پاکستان اور بلوچستان کا واحد ضلع ہے جس کا بارڈر دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ لگتا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی دانت کے درد کی۔ دانت کا درد پہلے بھی ہوا ہے لیکن جو شدت اب کے بار تھی اس کا احاطہ سلمان خان کی ایک فلم کا گانا صحیح انداز میں کرتا ہے جس کے بول کچھ ایسے ہیں ”ایسا پہلی بار ہوا ہے سترہ اٹھرہ سالوں میں“ پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ دانت کے درد کے سامنے محبوب کی جدائی کا درد کچھ بھی نہیں۔ پتا نہیں شاعر لوگ دانت کے درد پہ شاعری کیوں نہیں کرتے۔

درد تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور اس کے تدارک کا فیصلہ کیا اور اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر زوہیر کو فون کیا لیکن ان کا نمبر بند تھا۔ مجبوراً فرسٹ ایڈ والا بیگ کھولا اور اس میں دانت درد کی دوا مل گئی۔ دوا کھائی اور خود کو وزیر اعظم عمران خان کا مقولہ سنایا کہ ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ درد بھی پاکستان کی عوام کے درد کی طرح تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دوسری خوراک بھی کھا لی لیکن ”درد بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی“ والا معاملہ ہو تا گیا۔

چار و ناچار ملازم کو بلا بھیجا اور اس سے کہا کہ پتا کرو کہ کوئی ڈاکٹر ہے اس سب تحصیل میں تو اس نے یہ نوید سنائی کہ قریب ترین دندان ساز دالبندین میں ملے گا جو کہ یہاں سے 300 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اچانک ذہن میں آیا کہ فرنٹیئر کور والوں سے پتا کروں ہو سکتا ہے ان کے پاس ڈاکٹر دستیاب ہو۔ کرنل صاحب کو فون لگایا اور بپتا سنائی تو انہوں نے بھی یہ بتایا کہ دالبندین میں ہی ڈاکٹر ملے گا لیکن ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کر دی کہ وہاں کی بجائے کوئٹہ چلے جائیں کیوں کہ دالبندین کے ڈاکٹر علاج تو کر دیں گے لیکن وہ آلات کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور ہیپاٹائٹس مریض کو کومپلیمنٹری (مفت) دے دیتے ہیں۔

کرنل صاحب نے سفر 300 کلومیٹر سے بڑھا کر 700 کلومیٹر کر دیا۔ مجھے ٹام ہینکس کی شہرہ آفاق فلم ”کاسٹ اوئے“ یاد آنے لگی۔ جس میں وہ سمندر میں جہاز کریش ہونے کے بعد وہ خود کو ایک جزیرے پہ پاتا ہے اور پانچ سال تک وہیں محصور ہو جاتا ہے۔ اسی دوران اسے شدید قسم کا دانت کا درد اٹھتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ وہ تو خیر فلم تھی لیکن مجھے حقیقت میں تکلیف در پیش تھی۔

پھر ایک دوست ڈاکٹر محبوب الحق سنجرانی جو کہ کراچی کے مایہ ناز کنسلٹنٹ ہیں ان کا خیال ذہن میں آیا اس کو کال کی۔ خوش قسمتی سے ان کا نمبر مل گیا اور انہوں نے کچھ ادویات تجویز کیں اور دانت کا درد اب دوسرے دن میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کی تجویز کردہ ادویات سے درد میں کچھ افاقہ ہوا اور میں سفر کرنے کے قابل ہوا۔ ڈرائیور کو گاڑی کا رخ کوئٹہ کی طرف موڑنے کا کہا۔ اب گاڑی کا 700 کلومیٹر کا سفر شروع ہوا اور میرا تخیل کا۔

وہ کہتے ہی نا کہ بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ چاند کتنا خوبصورت لگ رہا ہے تو اس نے برجستہ کہا ہاں بالکل روٹی کی طرح لگ رہا ہے۔ میرا تخیل بھی دانت کے علاوہ کہیں بھٹکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اچانک یاد آیا کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی بھی پیشہ کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں۔ اور صدر پاکستان دنیا کے واحد صدر ہیں جنہوں نے بذریعہ ویڈیو قوم کو ٹوتھ برش کرنے کا طریقہ اور سلیقہ بتایا تھا۔

موجودہ صدر سے سابق صدر آصف زرداری ذہن میں آ گئے۔ جب آصف زرداری دانت نکالتے ہیں مطلب کہ ہنستے ہیں تو ان کی شخصیت نکھر سی جاتی ہے۔ موجودہ صدر نے تو اپنی مہارت قوم کے ساتھ شیئر کیں لیکن سابق صدر زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور میں کبھی بھی اپنی ”مہارت“ شیئر نہیں کیں قوم کے ساتھ۔ پھر ضیاء الحق کی بتیسی یاد آ گئی جو کہ بہت ہی آمرانہ بتیسی تھی اور 1988 کی جہاز حادثے میں صرف ان کی بتیسی ہی بچی تھی جس کو فوجی اعزازت کے ساتھ فیصل مسجد میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

سفر لمبا ہے اور تخیل کو لمبی اڑان بھرنا ہو گی۔ دانت کے درد کو مزید ماضی میں لے گیا تو یاد آیا کہ بھٹو صاحب جب اڈیالہ جیل میں تھے تو ان کو دانت درد کی شدید تکلیف ہوئی لیکن ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر نیازی کو ان تک رسائی نہ دی گئی۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ اذیت دینے والوں کی اپنی بتیسی بہاولپور کے صحرا سے کس حالت میں ملی۔

یہاں بتیسی سے متعلق ایک لطیفہ بھی یاد آ رہا جو کافی گھسا پٹا ہے لیکن موقع محل کے عین مطابق ہے۔ ”ایک شخص دوسرے شخص کو آ کر دھمکی دیتا ہے کہ اگر تم نے یہ کام نا کیا تو میں تمہارے چونسٹھ کے چونسٹھ دانت توڑ دوں گا، برابر میں کھڑا اس کا دوست بولتا ہے کہ بھائی دانت تو بتیس ہوتے ہیں۔ تو پہلا شخص بولتا ہے کہ مجھے پتا تھا کہ تو درمیان میں بولے گا اس لیے میں نے تیرے بھی ساتھ میں گن لئے تھے“ ۔

مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب دنیا کے دوسرے ڈینٹسٹ ہیں جو کہ کسی ملک کے صدر بنے ہیں۔ اس سے پہلے ترکمانستان کے صدر دنیا کے وہ پہلے ڈینٹسٹ ہیں جو کہ کسی ملک کے صدر بنے۔ ان کا نام گربانگولی برڈی محمدو ہے اور وہ 2017 میں صدر بنے۔

پورے راستے ”اشرافیہ“ کو کوستا گیا جن کی ترجیحات میں عوام کی صحت اور تعلیم بالکل بھی شامل نہیں۔ میرے پاس تو گاڑی تھی اور میں جیسے تیسے کر کے آٹھ گھنٹے میں کوئٹہ پہنچ گیا مجھے ان لوگوں سے ہمدردی ہوئی کہ جن کے پاس مسائل ان کے وسائل سے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو اس حالت میں سفر کرنا پڑے تو ان کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ اللہ اس قوم کو اپنی ترجیحات ٹھیک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments