افغان امن معاہدہ



افغانستان میں 1979 سے قبل جب مختلف اقوام اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی آپس میں خانہ جنگی شروع تو حالات ابتر ہوئے، افغان حکومت نے مدد کے لئے تب کے روسی حکومت کو خط لکھا، اس خط کو جواز بنا کر روسی افواج نے افغانستان کی مدد کے لئے جنگجو باغیوں پر حملہ کیا، اس حملے کے جواب میں افغانستان کے مذہبی یعنی دائیں اور بائیں بازو کے تمام لوگوں نے روسی افواج کا مقابلہ کیا (امریکی، پاکستانی، ایرانی، چینی اور برطانوی مدد) ۔ جنگ تقریباً نو سال سے زیادہ عرصہ پر محیط رہا جس میں لاکھوں افغان جاں بحق ہوئے، لاکھوں افغان اپنے علاقوں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مہاجرین پاکستان اور ایران کثیر تعداد میں گئے اور قسم پرسی کی زندگیاں اب بھی گزارے ہیں۔

انیس سو اٹھاسی ( 1988 ) میں افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے بیچ معاہدہ ہوا، انخلا اسی سال شروع ہوا، اور 1989 میں ختم ہوا۔ روسی حکومت نے افغانستان کو ابتر حالت میں چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ایک اور خانہ جنگی نے جنم لیا، افغانیوں کی زندگیاں اجیرن ہوئی اور حالات انتہائی خراب ہوئے۔ قتل اور قتال مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر ہورے تھے۔ 1993 میں خونریزی سے تنگ آکر تمام گروہ کے سربراہان نے سعودی اور پاکستانی ثالثی میں مکہ معظمہ کے سر زمین پر امن معاہدہ کیا۔

معاہدہ مکہ معظمہ میں کرنے کے پیچھے فلسفہ یہ تھا، کہ کسی گروہ کا سربراہ بھی یہ جرات نہ کر سکے، کہ مکہ معظمہ میں ہونے والے معاہدے کو چھیڑا جائے اور نہ چھوڑا جائے۔ مگر کہانی بالکل برعکس رہیں حالات انتہائی خراب ہوگئے آن حالات میں ایک نئے گروہ نے جنم لیا، اس گروہ کو طالبان کہنے لگے۔ انیس سو چورانوے 1994 تا انیس سو چھیانوے 1996 مختلف صوبوں پر حملے شروع کیے اور اپنی حکومت بنائی اور اپنا نظام چلایا۔ ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کے تباہ ہو جانے کے بعد امریکہ نے مورد الزام اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا، جو تب افغانستان میں پناہ لیے بیٹھا تھا جو ایف آئی اے کو انیس سو اٹھانوے ( 1998 ) سے درکار تھا۔

جس کو بنیاد بنا کر امریکہ نے ( 2001 ) اکتوبر میں افغانستان پر چڑھائی کی اور جلدی ہی اپنے فوجی اڈے تعمیر کیے بڑے بڑے شہروں میں۔ جارج ڈبلیو بش سے شروع ہونے والا جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تک جاری، مگر الیکشن کمپین کے وعدے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ووٹرز کے ساتھ کیے تھے کہ امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کیا اور طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوا، کہ افغان سرزمین امریکہ اور امریکی ساتھیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی جیسے شرائط پر مشتمل تھی اور بین الافغانی مذاکرات کے لئے دونوں فریق کوشش کریں گے یہ معاہدہ قطر میں ہوا تھا۔

معاہدے کے بیچوں بیچ زچہ و بچہ سنٹر اور نماز جنازہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ جس نے فریقین کو جھنجھوڑ دیا۔

ماہ رمضان میں ان حیوان خصلت درندوں نے شیرخور بچوں کو ماؤں کے سامنے قتل کر دیا یہاں تک کہ ماؤں کو قتل کرکے دم لیا۔

اس واقعے کی مذمت کہیں ممالک نے کی: امریکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، اس کے ساتھ طالبان کے نمائندے ساحل شاہین نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اس واقعے کی تردید اور اس کو ایک سازش قرار دیا۔

عید الفطر میں طالبان نے تین دن جنگ بندی کا اعلان کیا، اس اعلان سے افغانستان میں خوشی کے ایک لہر آٹھی، اور اس کے جواب میں افغان حکومت نے دو ہزار طالبان رہا کیے اور قیدوں کے رہائی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا قطر دوحہ، کابل اور پاکستان کا دورہ بین الافغانی مذاکرات کے لیے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کا دورہ کیا اور ایک نیا معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سرزمین استعمال ہونے اور کرنے نہیں دیں گے بالکل اس طرح کا ایک معاہدہ 1988 میں جنیوا میں ہوا تھا دیکھتے ہیں کہ ان پر یہ دونوں ممالک کتنے عمل کرتے ہیں اور ان کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں۔

امریکا، افغانستان، طالبان اور ہمسایہ ممالک کی کوششوں سے تو اب پتہ چل رہا ہے کہ معاہدہ قریب ہے مگر امریکہ اور باقی ممالک سے گزارش ہے کہ آپ افغانستان کو روس کی طرح نہ چھوڑیں، ترقیاتی کام، ان کے لیے مخصوص فنڈز جاری رکھے تاکہ دوبارہ افغانستان خانہ جنگی کی طرف چل نہ پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments