آئیے اپنے گریبان میں جھانکیں


ہمارے کچھ اسلامی مجاہدین اور اچھے پکے مسلمان جن کے تئیں دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ امریکی سازش یا مغربی ممالک کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہوتا ہے حتی کہ بہت سوں کے نزدیک کرونا بھی ان مشرکوں کی سازش ہے، خیر تو یہ مجاہدین اس بات پر پھولے نہیں سما رہے کہ دیکھو امریکہ جو کہ اپنے آپ کو عالمی حقوق کا چیمپئن بتاتا ہے اس کے معاشرے میں کتنی نسلی منافرت اور عدم مساوات ہے۔ لیکن یہ طعنہ دینے سے پہلے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ نسلی تعصب ان کے اپنے معاشرے اور ان کے اپنے اندر ہے، امریکی معاشرہ تو ابھی زندہ ہے، جونہی ویڈیو وائرل ہوئی وہاں پر غم و غصہ کا طوفان برپا ہوگیا، پورا امریکہ اس واقعے کے بعد سڑکوں پر تھا اور ہے، یہ وہی معاشرہ ہے جب ٹرمپ نے سات اسلامی ملکوں کے خلاف سفری پابندیاں عائد کیں تو امریکہ میں ایک طوفان برپا ہو گیا، احتجاج ہوا، وکلاء نے لوگوں کے مفت کیس لڑے، اور سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے اس قدم کو کالعدم قرار دے دیا۔ آخری جیت قانون اور آئین کی ہی ہوئی۔

لیکن ہمارے وطن اور معاشرے میں یہ نسلی منافرت، اونچ نیچ، ذات پات نہ صرف بین المذاہب موجود ہے بلکہ خود ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہاں پر ایک مذہبی اقلیت کے ساتھ وہ کام مخصوص کر دیے گئے ہیں، جنہیں مذہبی اکثریت نیچ کام سمجھتی ہے، کوڑا کرکٹ اٹھانا، گٹر کھولنا، نالیوں کی صفائی غرض کہ ہر کام جو کہ غلیظ اور گندا سمجھا جاتا ہے وہ ان کے سر تھوپ دیا گیا ہے ، اور پھر اسے گالی بھی بنا دیا ہے حتیٰ کہ ہمارے تو اخباروں میں بھی کچھ اس طرح کے اشتہارات حکومت کی طرف سے چھپتے ہیں کہ خاکروب درکار ہیں صرف خاص مذہب کے لوگ اس نوکری کے لیے درخواست دیں، صرف یہی نہیں ہمارے ہاں تو غیر مسلموں کو ناپاک بھی تصور کیا جاتا ہے، اور ایسے فتاویٰ جا بجا پائے جاتے ہیں کہ اگر کوئی مشرک آپ سے تر ہاتھوں سے مصافحہ کر لے تو آپ ناپاک ہو جاتے ہیں، آپ پر ہاتھ دھونا فرض ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ذات پات کی تقسیم مذہب کے اندر بھی پائی جاتی ہے، گاؤں دیہات میں تو یہ غیر انسانی تقسیم بہت ہی واضح، گہری، نمایاں اور خوف ناک ہے، اور اس کو قابل قبول اور بلا حیل و حجت تسلیم کروانے کے لیے مذہب کا جواز بھی تراشا جاتا ہے۔

شاید برصغیر کے ڈی این اے میں ذات پات اور نسلی منافرت پائی جاتی ہے۔ ہم بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں کوئی برتری نہیں اور پورے جوش و خروش سے اور پورے زور سے ہندوؤں پر طعنہ زنی کرتے ہیں کہ تمہارے مذہب اور معاشرے میں بہت زیادہ ذات پات کی تفاوت ہے، لیکن خود ہمارے اندر یہ ساری برائیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جس طرح ہندوؤں میں برہمن کو انتہائی اعلی ذات کا حامل سمجھا جاتا ہے، اور اس کو مقدس جانا جاتا ہے۔

بعینہ بالکل اسی طرح ہمارے ہاں کچھ ذاتوں کو مقدس اور اعلی گردانا جانتا ہے، جس طرح برہمن عورت کی شادی کسی اور ذات کے مرد سے حرام ہے بالکل اسی طرح ہمارے اس عظیم معاشرے میں کچھ ذاتوں میں عورت کی شادی دوسری ذات میں کرنا ممنوع ہے، کیوں کہ اس سے ان کے نسلی تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے، کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں سے پوچھوں کہ بھئی نسل تو مویشیوں کی ہوتی ہے کوئی دودھ دینے کے لئے مناسب ہوتا ہے تو کوئی گوشت کی پیداوار کے لئے، یا پھر کتوں کی نسلیں ہوتی ہیں کہ یہ السیشن ہے، یہ جرمن شیفرڈ ہے، یہ رکھوالی کے لئے بہتر ہے اور وہ شکار کے لئے۔ یہ انسانوں کی نسلیں کب سے ہونا شروع ہو گئیں، انسان کب سے نسلی اور غیر نسلی قرار پائے ہیں؟ قبیلے تو انسان کی شناخت کے لیے ہیں نہ کہ اس کی نسل کا تعین کرنے کے لیے۔

جتنا ہمارا معاشرہ نسلی منافرت، اونچ نیچ، نسل پرستی کا شکار ہے دنیا میں شاید ہی کوئی اور معاشرہ اس حد تک اس بیماری اور قباحت کا شکار ہو۔

وہ معاشرے اگرچہ اس بیماری کا شکار ہیں لیکن وہ کم ازکم یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک علاج طلب مرض ہے، لیکن ہم نے ابھی تک اس نسلی منافرت، ذات پات، اونچ نیچ کو بیماری خیال کرنا تو درکنار مسئلہ تک نہیں مانا، اس کے حل اور علاج کی طرف پیش رفت یا پیش قدمی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ہم نے تو الٹا اس کو مذہب کا حصہ بنا کر مقدس بنا دیا ہے، اس لیے کہاں کا علاج اور کہاں کی اصلاح۔

زبان اور رنگ پر مبنی منافرت اس کے علاوہ ہے۔

بہتر یہ ہی ہے کہ اغیار کو طعنے مارنے کے بجائے، ان کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کیا جائے، اپنے گریباں میں جھانکا جائے برتری اور فضیلت کا معیار تقویٰ پرہیز گاری اور اچھے اعمال کو بنایا جائے نہ کہ ذات پات اور نسل کو، قبیلوں کو اور حسب نسب کو صرف شناخت تک محدود رکھا جائے ان کو کسی نسلی تفاخر کا سبب نہ سمجھا جائے۔

بقول اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
سب انسان خاکی ہیں اور ایک ہی مٹی سے بنے ہیں، کوئی افضل نہیں کوئی برتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments