نیک دلی کا بحران اور واٹس ایپ کا دکھ


واٹس ایپ میں فجر کے آغاز سے ہی ریٹائرڈ فوجی، باریش ڈی ایم جی والے افسروں، رمضان عمرے کے بوجھ سے سرشار سود خور، لوٹ مار کو منافع سمجھنے والوں تاجروں کی دعائیں ملتی ہیں تو جی اوب جاتا ہے۔ فون کرو تو ایسے ایسے خطبے اور نعتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ایک دفعہ تو گمان ہوتا ہے کہ فون کہیں غلطی سے مصر کے گرانڈ مفتی شیخ ابراہیم عبدالکلیم عالم کے نمبر پر تو نہیں لگ گیا۔

حلال حرام کے بہت قصے، دعوے، اور وعظ سننے پڑھنے کو ملے ہوں گے۔ جنت دوزخ کے فیصلے تو جانے کب ہوں، کس کے حق میں ہوں مگر ان دو واقعات سے جڑے افراد کو دیکھ کر آپ خود فیصلہ کریں کہ جنت میں جانے کے اصل حقدار یہ اہل کلیسا و حرم ہیں کہ یہ گمنام اور بے بساط افراد۔ کمال یہ ہے کہ حلال و حرام؛ صحیح یا غلط کے ان دونوں واقعات کا محل و وقوع بہت غیر معمولی ہے۔

افراد مذکورہ کا بھی آپس میں کوئی تال میل نہیں۔ ایک تھائی لینڈ کے قصبہ پائی کی باپردہ اللہ لوگ خاتون اور دوسری حیات آباد سے جڑی ایک جھونپڑ پٹی کے پانچ چھوٹے بچے۔ بتائیں کوئی جوڑ بنتا ہے۔ آخر میں بنے گا بھی اور آپ کو اچھا لگے گا۔

پچھلے دنوں ہم تھائی لینڈ کے جنوبی حصے چیانگ مائی میں تھے۔ ان کا جنوبی حصہ ہمارے نارتھ جیسا پہاڑی ہے مگر ایسا بدحال اور میلا نہیں۔ مری والوں کی طرح ان کے مقامی دکاندار، سیاحوں کو ڈنڈے سے ان کی گھر کی عورتوں کے سامنے کوٹتے نہیں۔ ہمارے شمالی علاقوں کے باشندے خوب صورت ہیں مگر ان کے شمالی علاقوں کے باشندے بہت زیادہ تعلیم یافتہ، مہذب اور صفائی پسند۔ پہاڑوں کا حسن دونوں ممالک میں یکساں سمجھ لیں۔ ان کے جیسی سہولیات اور امن و امان کا ہماری طرف تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ تھائی لینڈ کے شمالی علاقوں میں سمندر ہے، مسلمان بھی ہیں اور ملائشیا بھی ساتھ ہی لگتا ہے۔ سمندر کی وجہ سے یہاں پتایا، کوہ سموئی جیسے خوب صورت عیاشی کے مراکز ہیں۔ جنوب زیادہ کلچرل ہے۔

چیانگ مائی میں ہمارے ساڑھے چار ستارہ ہوٹل کی جو گیسٹ ریلشنز منیجر تھی۔ اس کی انگریزی عمدہ اور مسلمانوں سے بدگمانی عروج پر تھی۔ نام تو تھائی زبان میں سانوک تھا جس کا مطلب ایک شاندار دعوت ہوتا ہے مگر سب اسے سنی کہتے تھے۔

قیام کے پہلے ویک اینڈ کا معاملہ یوں تھا کہ اس کا ہوٹل ہمیں ایک کاروباری انتظام کی وجہ سے چھوڑنا پڑ رہا تھا۔ سانوک نے کہا پچھلی گلی میں مختلف شہروں کو جانے والی کوسٹرز کا اڈہ ہے۔ کہیں بھی چلے جاﺅ پائی، لم پانگ، لم پھون، چیانگ رائی۔ لاری اڈے پر ہی ان کے نمائندے ہوں گے۔ وہ لے جائیں گے۔ یہ سب بہت لیڈ بیک مقامات ہیں۔ بہت سی خواتین نے آج یہاں چیانگ مائی میں ہوٹل خالی کیے ہیں، وہ بھی انہیں مقامات کا رخ کریں گی۔ تم پائی جاﺅ۔ یہ ان دنوں لیس بینز کا ہاٹ اسپاٹ ہے۔ ہیمک میں جھولتی رہتی ہیں، کامن کچن ہے۔ اپنا کھانا خود بناتی ہیں۔ ہوٹل سستے اور بہت Exotic ہیں۔ کچھ ہوٹل تو جمہوریت جیسے ہیں۔ آف۔ دی۔ لیس بینز، فو ر دی۔ لیس بینز، بائی۔ دی۔ لیس بینز۔ تھائی ککنگ کی کوچ زبیدہ آپائیں بھی وہاں بہت ہیں۔ نوڈلز بنانا تو سیکھ ہی جاﺅ گے۔ سائیڈ بینی فٹ علیحدہ۔

کوچ رکی اور سوار ہوئے تو برابر کی نشست پر سنتھیا تھی۔ ارے وہ رحمان ملک والی الزام تراش نہیں۔ یہ سنتھیا سوئیڈن کی تھی۔ کاندھوں سے پھسلتی ہوئی بوٹ نیک سرخ شراب جیسی ٹی شرٹ، سیاہ یوگا پینٹس میں مچلتی ٹانگیں۔ اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم۔ پر اعتماد اور باشعور، عمر بیس سے چوبیس کے درمیاں۔

تعارف ہوا تو کہنے لگ اسپین سے آرہی ہوں۔ ایک ماہ پیدل گھومی ہوں۔ جو میزبان اچھا لگتا۔ اس کے ساتھ ٹک جاتی تھی۔ وہاں میرا بجٹ دس ڈالر یومیہ تھا۔ یہاں پندرہ ہے۔ ایک ماہ قیام ہے۔ کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔

ہم نے کہا تو ان دنوں پاکستان میں ہوتی تو ہمارے وزیر داخلہ صاحب کی مہمان ہوتی۔ باقی معاملات آپس کا معاملہ ہیں مگر تیری کتاب کا یہ باب میزبانی کتاب، باب دشنام بن جاتا۔ تیرے نام کا بھاشا فنڈ بھی قائم ہوجاتا۔ ہم چندہ جمع کرنے کے ماہر ہیں، بچپن سے چندے جمع کرتے ہیں۔

تیری یہ معرکتہ الآرا کتاب خلائی مخلوق نہ صرف خود پنڈی سے چھپواتی بلکہ اس کو میڑک میں لازمی نصاب کے طور پر شامل کرا دیتی۔ اس کا فائدہ یہ ہونا تھا کہ بطور مصنفہ اس کی فروخت کی آمدنی سے تو ہیری پورٹر سیریز کو دھول چٹا دیتی۔ ہمارے میٹرک کے بچے یوں بھی کتابیں پڑھنے کے بہت شوقین ہیں اور یہ وزیر والا باب تو امتحان میں تین سوال والا کم پلسری حصہ ہوتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے صحیح جواب یا تو صرف تجھے آتے یا رحمان ملک کو۔

 پائی کی مسافت کے قصے کسی اور دن۔

پائی میں ایک بڑی بی سے مکالمہ ضرور ہمارے لیے اس سفر کا حاصل سرمایہ بن گیا۔

 ایک جھونپڑا ہوٹل۔ ڈنر پر گورے گوریاں مقامی طالبان سب ہی موجود تھے۔ ڈھابے کی مالکن عبایا اور نقاب میں لپٹی ادھیڑ عمر کی خاتون تھی۔ ایک بی بی اور ایک لڑکا یہ کل عملہ تھا۔ آپس میں رشتہ دار۔ بی بی نوڈلز کا اسٹال سنبھالے بیٹھی تھی۔ لڑکا سنک میں برتن بھی دھوتا تھااور بھاگ کے پاس پڑوس سے آرڈر کے منشا سودا بھی لاتا تھا۔ کچن کے کیبن پر جھل مل کرتے حلال اور بسم اللہ دونوں جلی حروف میں لکھے تھے۔

پورے تھائی لینڈ میں ہم نے اس عبایا والی خاتون سے زیادہ بد تمیز اور غصیلی کوئی اور عورت نہیں دیکھی۔ کیا گورے کیا، مقامی سب کو واجبی انگریزی میں کھل کر ڈانٹتی تھی۔ انتظام یوں تھا کہ جو فارغ نظر آتا اسے کہتی کہ فلانے ٹیبل پر جا کر یہ کھانا رکھ دو۔ دو گوریاں اپنے برتن ٹیبل پر چھوڑ کر جانے لگیں تو انہیں بلا کر انگریزی میں ڈانٹا کہ تمیز نہیں کہ جھوٹے برتن سنک میں رکھنے ہوتے ہیں۔ وہ مسکرا کر معافی مانگ کر برتن لے گئیں تو کہنے لگی’کم اگین‘ جس پر انہوں نے کہا ’آل ویز

ہمیں مسکراتا دیکھ کر’یور ٹرن سر‘ کہہ کر آنکھ مار کر چل دیں۔

ہم نے ایک پلیٹ چاول، گرین کوکونٹ چکن کری اور انناس کے جوس کا گلاس۔ ہمارے حساب سے یہ تین سو بھات کا کھانا تھا۔ پاکستان کے تیرہ سو روپے۔ چیانگ مائی کئی جگہوں پر ایسا ہی ریٹ ہوتا ہے۔ ہم پہلے ادا بھی کر چکے تھے۔

کھانے کے برتن سنک پر چھوڑ کر جب بل دینے پہنچے تو اس نے انگریزی میں ’سیونٹی‘کہا ہم نے کہا شاید ہم سے تھری مس ہو گیا ہے۔ یہ 370 بھات کہنا چاہتی تھی۔ دوبارہ پوچھا تو زور سے سیونٹی کہا مگر ہمارے چہرے پر حیرت دیکھ کر کیلکولیٹر پر ستر لکھا اور کہنے لگی ناؤ۔ یو۔ انڈرسٹینڈ۔ ہمیں لگا کہ اس سے حساب میں یقیناًکوئی بھول ہوئی ہے۔ اپنا آرڈر پھر دہرایا تو کہنے لگی یس سیونٹی۔ ہم نے پوچھا اتنا کم کیوں؟۔ لپک کر باہر آن کر حلال کے الفاظ پر اشارہ کرکے کہنے لگی۔

We feed you Halal. How can we eat haram?

جب ہم تمہیں حلال کھلاتے ہیں تو خود حرام کیوں کھائیں

ہمیں تب احساس ہوا کہ مزاج کی اس برہمی کے باوجود کاروبار میں اتنی برکت کیوں ہے۔ رات کے بھی دس بجے بھی گاہک آئے چلے جاتے تھے۔ ہم نے میمن جذبات سے مغلوب ہوکر پوچھ لیا کہ اس نے اتنے کم بل میں کچھ کمایا کہ نہیں۔ کہنے لگیYes. Twenty Bhat. That is enough. My son owns a store in Chiang Mai and Allah has given us all.

(جی ہاں بیس بھات۔ یہ کافی ہے۔ میرے بیٹے کا چیانگ مائی میں ایک اسٹور ہے اور اللہ نے ہمیں سب کچھ دے رکھا ہے۔) اس کے آگے ہمیں نواز شریف، ملک ریاض، رزاق داﺅد، منشا اور کئی عرب شہزادے فقیر لگے۔

آئیں حیات آباد لے کر چلتے ہیں۔ یہ دوسرا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر شاہ جہاں خان حیات آباد میں رہتے ہیں۔ اصلی خان ہیں۔ بیگم روس کے اس سرحدی علاقے کی ہیں جو بیک وقت چین اور منگولیا  کے ساتھ جڑا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ریاست ہوائی میں ہوئی۔ اسکوبا ڈائیونگ کے دوران ڈاکٹر صاحب کو شارک کے حملے سے بچایا جس کی سزا ڈاکٹر صاحب نے انہیں یہ دی کہ انہیں اپنی بیوی بنا لیا۔

اب رات کو چھت پر بیٹھ کر جب ہمیں فون لگاتے ہیں تو ہم بھی پہلی گھنٹی پر سوئمنگ ٹرنکس چڑھا لیتے ہیں کہ مے گسار بہت وفا شعار ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ دونوں میاں بیوی زیر آب سلسلہ کلام وہیں سے جوڑیں گے جہاں شارک کا حملہ ہوا تھا۔

ڈاکٹر صاحب ایک صبح واک سے لوٹ رہے تھے کہ دیکھا کہ ان کے بنگلے کے باغ سے انگور کے جو خوشے باہر کی دیوار سے لٹکتے ہیں انہیں قبائیلی بچے توڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پاس جا کر دیکھا تو یہ تین لڑکیاں دو لڑکے تھے۔ کوشش جاری تھی مگر ہاتھ کسی طور نہیں پہنچ پارہا تھا۔ کہنے لگے مجھے دیکھا تو سہم گئے۔ میں بھی ایسے آگے بڑھنے لگا جیسے مسافر ہوں۔ گیٹ کھول کر اپنے بنگلے میں داخل نہیں ہوا۔ وہ بدستور اپنی کارروائی چھوڑے بیٹھے تھے تو میں نے اس بنگلے سے لاتعلقی کا ثبوت دلانے اور ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک پتہ پوچھ لیا۔ جب میں نے ان کی طرف ہاتھ ملانے کو بڑھایا تو ان کے چہرے پر یقین کے اثرات نمایاں ہوئے۔ میں نے انہیں پیشکش کی کہ میں ان سب کو انگور چرانے میں ایک شرط پر مدد کرسکتا ہوں کہ چوری کے مال میں میرا بھی حصہ ہوگا۔ میری بات سن کر وہ بہت ہنسے۔ انہیں یقین نہ آیا کہ میں بھی اس واردات میں ان کا شریک ہوسکتا ہوں۔ مان گئے تو ایک بچے کو میں نے کاندھے پر بٹھا کر ڈھیر سارے انگور توڑے۔ مجھے میرے اندازے سے بڑھ کر چوری کے مال میں حصہ دیا اور چینی کے ڈان، رہزن شیریں المعروف بہ اے ٹی ایم کی طرح دوڑ گئے۔

اگلے دن جب میں کسی کام سے اپنی کار میں سوار بنگلے کے گیٹ سے برآمد ہورہا تھا تو کچھ فاصلے پر ان ہی انگور چوروں کا گروپ موجود تھا۔ ارادہ تو تھا کہ ان کی نگاہ نہ پڑے اور میں بچ کے نکل جاﺅں۔ سوچا چلو ایڈونچر کے طور پر کار ان کے پاس روک کر بات کرتے ہیں۔ مجھے دیکھا تو حیران ہوئے۔ میں نے باہر نکل کر پیشکش کی آﺅ ایک دفعہ دوبارہ انگور چوری کریں۔ میری بات سن کر ان پر ایک شاک کی کیفیت طاری ہوگئی۔ کئی لمحات تک کبھی مجھے تو کبھی میری کار کو دیکھتے تھے۔ ان میں سے جو بڑی لڑکی ان کی ڈان تھی وہ آہستہ سے کار کے پاس آن کر کہنے لگی۔ ”نہیں ہمیں تمہارے انگور کی ضرورت نہیں۔ تم ہمیں کوئی اچھے انسان نہیں لگتے“۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے یہ اعتراض بہت معنی خیز اور بے باک تھا۔

سو سوال کیا کہ اُس نے ایسا کیوں کہا کہ میں انہیں ایک اچھا انسان نہیں لگتا

کہنے لگی ”کل تم نے ااس گھر سے انگور چرائے تھے۔ آج ان کی کار چرا کر بھاگ رہے ہو؟

ڈاکٹر صاحب جنہوں نے ایک دنیا دیکھی ہے۔ صاحب احساس اور صاحب علم ہیں۔ وہ ایک حیرت کے سمندر میں خیالات کی شارک مچھلیوں کے نرغے میں غوطے کھا رہے تھے اور بیگم بھی پاس نہ تھیں۔ کہنے لگے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

لڑکی بلاتوقف شیرنی کی طرح دھاڑی۔ نہیں۔ بہت فرق ہے۔ انگور باہر لٹک رہے تھے۔ اندر ہوتے تو ہم کبھی نہ چراتے۔ یہ کار تم نے اندر سے چرائی ہے۔ اللہ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ مجھے گونگا بہرہ بنا کر یہ گروپ تیزی سے اپنے گھروں کی طرف چل دیا۔

اب آپ کو پتہ چلا کہ پائی کی اس خاتون میں اور حیات آباد کے بچوں میں حلال و حرام کا شعور کس قدر پختہ تھا۔ باعمل و آسان تھا۔ توکل سے لبریز، خیر و فلاح سے جگ مگاتا ہوا۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments