کرونا وائرس اور ویکسین کے بارے میں معلومات


کرونا وائرس کی پاکستان سمیت پوری دنیا میں تباہ کاریاں جاری ہیں۔ قیمتی انسانی جانوں کی اموات سے معاشی خساروں تک کرونا سے اس وقت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ یہ شاید انسانی تاریخ میں ان چند وباوں میں سے ایک ہے جس نے اس شدت کہ ساتھ انسان پر حملہ کیا ہے۔ اور اسے اب صدیوں تک یاد بھی رکھا جائے گا۔

اس سے پہلے بھی کئی وباوں نے انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی ہے جن میں، 250 قبل مسیح یونان میں پھیلا طاعون، 1346 سے 1353 تک ایشیاء سے یورپ تک تباہی مچاتی وبا جسے بلیک ڈیتھ کا نام دیا گیا، امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور مختلف خطوں میں مختلف وقتوں میں پھیلے طاعون، پولیو، خسرہ، اور 1918 سے 1920 تک کا سپینش فلو جس سے دنیا میں 500 ملین لوگ متاثر ہوئے اور 1 / 5 لوگ اس فلو سے لقمہ اجل بنے۔ اس کے علاوہ ایشین فلو، سارس، ایبولا، برڈ فلو، ایڈز، زیکا اور سینکڑوں دیگر وباوں نے انسانوں پر حملہ کیا ہے۔

کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے انسان کے پاس صرف ویکسین ہی ایک ہتھیار ہو سکتا ہے۔ دنیا کو دوبارہ پہلے کی طرح معمول پر لانے کے لیے انسان اس وقت صرف ویکسین کی ایجاد پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔ سائنسدان لیبارٹریز میں تجربات کر رہے ہیں۔ طاقتور ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں نے سائنسدانوں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں تاکہ اس وائرس سے لڑنے کے لیے جلد سے جلد ویکسین تیار کی جائے۔

سائنسدانوں کے سامنے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ویکسین تیار ہونے کے بعد کتنا کارآمد ثابت ہوگی؟ اس سوال کا جواب وائرس کی میوٹیشن پر منحصر ہے۔ وائرس کی میوٹیشن سے مراد وائرس کا انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد کسی سیل سے ملاپ کے بعد اپنے جیسے وائرس کی کاپی بنانا ہے۔ کچھ وائرس انسانی جسم میں اپنے جیسے مزید وائرس بناتے ہوئے اپنی ساخت بدل لیتے ہیں اور اپنے جینیٹک کوڈز تبدیل کر لیتے ہیں۔ نئی ساخت والے وائرس کے لیے ویکسین اس لیے ناکارہ ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ وائرس کی جس ساخت کو مدنظر رکھ کر ایک خاص وقت اور خاص طریقہ کار سے ویکسین تیار کی جاتی ہے وہ ساخت وائرس کی میوٹیشن کے نتیجے میں انسانی جسم میں تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔

جسے ویکسین پہچان نہیں پاتی اور نئے جینیٹک کوڈز والے وائرس کے آگے غیر موثر ثابت ہوجاتی ہے۔ میوٹیشن کے نتیجے میں بننے والے مختلف جینیاتی کوڈز زیادہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں اور بے اثر بھی۔ زیادہ تر وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد اپنی ساخت نہیں بدلتے اور ابتدائی ساخت کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ویکسین کارآمد ثابت ہوجاتی ہے۔ مگر کچھ وائرس میوٹیشن کے عمل میں اپنی دفاع کے لیے ساخت بدل لیتے ہیں۔

اس کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لیے دو ملکوں کی فوج کی لڑائی کی مثال لی جا سکتی ہے۔ جس میں ایک حملہ آور فوج اور دوسری دفاع کرنے والی فوج ہوتی ہے۔ دفاع کرنے والا ملک حملہ آوار فوج کی پوری معلومات اکٹھی کرتا ہے۔ اس کی فوجی طاقت، ہتھیار، خوراک کا ذخیرہ اور تمام تر ضروری و بنیادی معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے تاکہ حملہ آور کے مقابل دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔ لیکن میدان جنگ میں حملہ آور فوج ایسے نئے اور جدید ہتھیار استعمال کرتی ہے جسے دفاع کرنے والے ملک نے ناصرف پہلی بار دیکھا ہوتا بلکہ وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہتے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ یوں حملہ آور فوج اپنی فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے اپنا کنٹرول حاصل کر لیتی ہے۔

بالکل اسی طرح وائرس اور ویکسین کی انسانی جسم میں لڑائی ہوتی ہے۔ اگر ویکسین وائرس کے جینیٹک کوڈز سے واقف ہے تو وہ انسانی جسم کو اینٹی باڈیز بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔ اینٹی باڈیز انسانی جسم میں موجود ایسے پروٹین ہوتے ہیں جو جسم میں داخل ہونے والے وائرسز کے اینٹی جینز کو ہلاک کردیتے ہیں۔ اینٹی باڈیز کی حیثیت انسانی جسم میں فرنٹ لائن سپاہیوں کی سی ہوتی ہے۔ جو کسی بیرونی حملہ آور کو جسم پر کنٹرول حاصل نہیں کرنے دیتے۔ اس کے برعکس اینٹی جین خطرناک مادہ ہوتا ہے جو جسم میں قوت مدافعت پر حملہ کرتا ہے۔ جس سے انسان فوری طور پہ نزلہ زکام، بخار، کھانسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور اگر قوت مدافعت کمزور پڑ جائے تو انسان کو پہلے سے لاحق بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے جس سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

نیویارک ٹائمز کی حال ہی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدان ایک ایسی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں جو وائرس کو میوٹیشن کرنے یعنی اپنے جیسے مزید وائرس بنانے سے روکے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی اب تک تیس قسم کی میوٹیشن سامنے آ چکی ہیں۔ یعنی کرونا وائرس انسانی جسم میں 30 طرح کے مختلف جینیٹک کوڈز کے وائرس بنا رہا ہے۔ جن میں سب سے خطرناک یہی ہے جس سے لوگوں اس وقت متاثر ہو رہے ہیں۔

اور اسی ساخت سے لڑنے کے لیے سائنسدان ویکسین تیار کر رہے ہیں جو اپنے خاص وقت جو عموماً اٹھارہ مہینے ہوتے ہیں اس سے پہلے دستیاب نہیں ہوگی۔ کیونکہ ویکسین بنانے کے بعد اسے جانوروں (عموماً چوہوں اور بندروں ) پر استعمال کر کہ تجربات کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انسانوں کی ایک معمولی تعداد پر تجربات کیے جاتے ہیں پھر ایک بڑی تعداد پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ کامیاب تجربات کے بعد ویکسین انسانوں کے لیے دستیاب کی جاتی ہے۔

سائنسدانوں کی کاوشوں کو کامیاب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہے۔ لیکن ایک بات حتمی ہے کہ آپ اپنے آپ کو احتیاط سے محفوظ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کم سے کم سماجی رابطہ رکھنا، غیر ضروری بازاروں میں جانے سے اجتناب کرنا، بار بار ہاتھ دھونا اور ماسک پہننا آپ کو اس وائرس سے یقیناً محفوظ رکھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments