مزدوروں کے حقوق کی جنگ کون لڑے گا؟


بھارت میں ٹریڈ یونین کی ایک شاندار تاریخ ہے ماضی میں ٹریڈ یونین کے سربراہان کی جہدمسلسل اور انتھک کوششوں سے کامگاروں، مزدوروں اور محنت کش افراد کے لئے قوانین میں ترمیم اور اصلاحات ہوئی ہیں جس کا مثبت نتیجہ بھی نکلا ہے۔ مگر مہلک وبائی مرض کوروناوائرس انفیکشن کی روک تھام کے لئے نافذ لاک ڈاؤن کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے بندۂ مزدور کے ’اوقات‘ سے ہربشر آگاہ ہے۔ اپنے خون پسینہ سے ملک کو ترقی کی راہ پر تیز گام کرنے والے کامگار اور دہاڑی مزدور کسمپرسی کے عالم میں سڑک پر آنے کے لیے مجبور ہوئے۔

بھوکے پیاسے سوئے وطن چل پڑے۔ جنہیں اس کڑے وقت میں سنبھالا دینا تھا انہوں نے ہاتھ کھڑے کرلئے تھے۔ اس میں کل کارخانہ کے مالکان، سرکار اور مقامی ایڈمنسٹریشن تھی۔ جس نے مہاجر مزدوروں کو بے موت مرنے کے لئے چھوڑدیا تھا۔ روزگار اور فکر معاش میں اپنے وطن اصلی سے دور ملک کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے مزدوروں کو ایک آخری آس وطن اصلی نظر آیا۔ لہذا زاد راہ کی پرواہ کیے بغیر کامگاروں نے پاپیادہ سیکڑوں ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کر لیا۔

جن شاہراہوں پہ کبھی انسانی قدم نہیں پڑا ہوگا وہاں سے جھنڈ کے جھنڈ لوگ گزرے۔ سفر کی صعوبت، آبلہ پائی اور بھوک پیاس کو مات دینے والے ہندوستانی مزدوروں کو لاک ڈاؤن کے نام پہ پولیس کے جبر وتشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر کوہکن صفت جیالے مزدوروں کے پائے استقلال میں ایک ذرا بھی جنبش نہیں ہوئی۔ جان کی پرواہ کیے بغیر لوگ اپنے گھر، اپنے وطن اور اپنوں کے بیچ پہونچنے کے لئے دیوانہ وار نکل پڑے۔ اس درمیان اندوہناک حادثات بھی رونما ہوئے جس میں مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں نیند سے نڈھال راہگیر مزدوروں کو ٹرین کی پٹریوں پہ کچل دیا گیا۔

اس طرح کے کئی ایک واقعات ہیں جس نے انسان کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ درد مند اہل دل لوگ بلبلا اٹھے مگر ملک کے وزیراعظم سمیت کسی بھی لیڈر کے زخمی زبان سے ایک آہ تک نہ نکلی۔ بے حسی ایسی کہ مزدوروں کی موت پہ سب نے آنکھ موند لیں بھلا ہو ملک کی سماجی تنظیموں اور اس کے کارکنان کا جس نے جان ہتھیلی پہ رکھ کے دست تعاون دراز کیا۔ اشیائے خورد و نوش سمیت دیگر ضروریات کے سامان ضرورت مندوں کو مہیا کرایا۔ لاک ڈاؤن کے بعد اب بیروگازی کی وجہ سے مزدوروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔

زندگی گزارنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی ایسی کوشش بھی نہیں ہے جو قابل ذکر یا لائق ستائش ہو۔ بھارت میں لاک ڈاؤن کی پہلی صبح بیروزگاری کے جس آسیب کا سایہ پڑا تھا اس کی نحوست برقرار ہے اور مزدوراپنے ہی وطن میں ”مہاجر“ ہوکر رہ گئے ہیں۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بے یارومدگار مزدوروں کی یونین بھی اس نازک گھڑی میں کس مپرسی میں ہے اور یونین کے ذمہ داروں پہ نزع کا عالم ہے۔ جو مزدورں سے زیادہ خود موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ یونین اپنے فرائض منصبی تو کجا اپنے وجود کے اظہار سے بھی قاصر ہے۔ حالانکہ آزادی وطن کے بعد یہ پہلا ایسا موقع تھا جب مزدور یونین کی اشد ضرورت محسوس کی گئی چونکہ انفرادی آواز بلند کرنے اور منظم کوششوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

مزدورں کے ہر طرح کے حقوق کے تحفظ کے مقصد سے کئی ٹریڈ مزدور یونین ہے بھارت میں جدید صنعتی ترقی 1850 سے 1870 عیسوی کے درمیان میں ہوئی ہے۔ جدید صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ مزدورں کے ساتھ ناروا سلوک کا بھی سلسلہ چل پڑا تھا مثلاً کام کا دورانیہ زیادہ ہونا، محنت طلب سخت کام، رہائش کی کمی، کم تنخواہ وغیرہ جس سے مزدورں کو سخت مشکلات کا سامنا تھا اس کے بعد برٹش حکومت کے ذریعہ کئی طرح کے کارخانہ قوانین بنائے گئے مگر حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔

نوآبادیاتی ریاست سے لڑنے کے لئے مزدوروں نے منظم اور متحد ہوکر سال 1884 میں سب سے پہلا مزدور یونین بمبئی مل ہینڈ ایسوسی ایشن بنایا۔ جس کی سرابراہی این ایم لوکھنڈے کو سونپی گئی۔ اس کے بعد مزدور آندولن کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مزدور آندولن کو کافی مضبوطی ملی اور مزدور یونین کے مطالبات کو تسلیم کیا گیا۔ حالانکہ ابھی سیکڑوں ضروری اور اہم مطالبات ایسے ہیں جس کو شامل کیا جانا ضروری ہے۔

آزاد بھارت میں مزدور آندولن کی وجہ سے اقتدار کی چولیں ہل گئی ہیں جس نے ارباب اقتدار کو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سوچنے پہ مزدور کر دیا ہے۔ سال 1977 میں مزدوروں کے حقوق کی پامالی سے سنگھاسن ہل گیا۔ بھارت میں مزدور آندولن کے مضبوط سپاہی ٹریڈ یونین لیڈر جارج فرنانڈیز کا دور آب زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جب مزدوروں کے حقوق کے لئے آوازیں گونجتی تھیں۔ اس کے بعد جو حالات ہیں وہ ابتر ہے۔ اب تو خود مزدوروں نے بھی اپنے یونین اور ٹریڈ یونین کا نام تک نہیں سنا ہوگا۔ اس لئے جب لاک ڈاؤن کی صورت میں مزدوروں پہ ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی تو کہیں سے کوئی آواز بھی بلند نہیں ہوئی ہے۔ ایک سناٹا چھایا رہا ہے ملک کے طول وعرض میں جب لوگ کٹتے پستے رہے۔

ایک مزدور ملک کی تعمیر میں گراں قدر کردار ادا کرتا ہے اور اس کی ملک کی ترقی میں اہم شراکت ہوتی ہے۔ کامگار کسی بھی معاشرے ملک ادارے اور صنعت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بغیر مزدوروں کے صنعتی ڈھانچے کے کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا معاشرے میں مزدوروں کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ لاک ڈاؤن اور اس سے پہلے آج بھی ملک میں مزدوروں کے ساتھ نا انصافی اور استحصال کیا جاتا ہے۔ آج کل ہندوستان میں 8 گھنٹے مزدوروں کے کام کرنے سے متعلق قانون نافذ ہے لیکن صرف سرکاری دفاتر ہی میں اس پہ عمل ہوتا ہے۔

ملک میں زیادہ تر نجی کمپنیاں یا فیکٹریاں اب بھی یہاں کام کرنے والوں کو 12 گھنٹے کرواتی ہے جو مزدوروں کا ایک طرح سے استحصال ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سمت میں ایک موثر قانون وضع کرے۔ آج بھی ملک میں مزدوروں کو کم اجرت پر مزدوری کروایا جاتا ہے یہ ایک طرح سے مزدوروں کا استحصال بھی ہے۔ اور اس میں ریاست بہار کے شمال مشرقی حاشیائی خطہ سیمانچل کے مزدوروں کی تعداد پچاس فیصد کے آس پاس ہے۔ تقریباً نصف کرورڑ آبادی پہ مشتمل مقہور و مجبور خطہ سیمانچل مزدوروں کا مرکز ہے۔

مگر سیمانچل میں کوئی حرفت وصنعت نہیں ہے۔ کل کارخانہ تو کجا علاقہ میں اگنے والی فصل کے صحیح استعمال اور دام و قیمت کا کوئی انتظام تک نہیں ہے۔ سیمانچل کے چاروں اضلاع میں گیہوں، مکئی، دھان اور پٹسن کی کھیتیاں ہوتی ہیں سیلاب اور خشک سالی سے متاثر خطۂ بے اماں کی مکین پر اس وقت قیامت صغری ٹوٹ پڑی جب لاک ڈاؤن ہوا۔ چونکہ پچاس لاکھ سے زائد کامگار اپنے وطن سے دور روزی روٹی کی تلاش میں دیگر ریاست میں تھے۔ ریاست کو اپنی کمائی سے مالامال کرنے والے ان مزدوروں کی سدھ کسی نے نہیں لی ہے۔ قومی دارالحکومت دہلی سمیت ہرایک ریاست میں مزدور پھنس کررہ گئے ہیں۔ مقامی لیڈرشپ کی نا اہلی اور قومی سیاست کی چشم پوشی نے علاقہ کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی طور پہ غریب کر دیا ہے اور لوگ بھوک مری کے شکار ہورہے ہیں۔

لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئے صورتحال نے ذی ہوش اور اہل دل لوگوں کو سیمانچل اور وہاں بسنے والے مزدوروں کی فلاح بہبود کے لئے کمربستہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ عزت نفس کے ساتھ روزی روٹی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں اور اب مانگ زور پکڑنے لگی ہے کہ کام اور دام دو، نا انصافی اور معاشی ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس میں علاقہ کے سیاسی، نیم سیاسی، سماجی کارکنان، ادبا اورصحافی حضرات نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ اور مزدوروں کے حقوق کی بازیابی کے لئے منظم و متحد ہوکر ایک جٹ ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں آج ہی کے دن سیمانچل کے ارریہ میں سیمانچل مزدور آندولن کے بینر تلے عظیم الشان میٹنگ کا انعقاد ہورہا ہے جس میں مزدوروں کے حق حقوق کی لڑائی کے لئے بھی جب لائحۂ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ ریاست کے انصاف پسند شہریوں کو اس مہم اور تحریک میں عملی حصہ داری نبھانا چاہیے۔ تاکہ تقریباً پون صدی سے زیادہ استحصال کے شکار سیمانچل اور اس کے کمزرو مزدوروں کو انصاف مل سکے اب وقت آ گیا ہے کہ پوری طاقت اور توانائی سے یہ آواز لگائی جائے کہ دنیا کے مزدوروں ایک ہوں، سیمانچل کے مزدوروں ایک ہوں، ملک کے لئے کام کریں گے اور پورا دام لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments