چین، بھارت کشیدگی اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی


ایک گمان کیا جا رہا تھا کہ چین اور بھارت کے اعلی ترین فوجی مذاکرات کے بعد لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر جاری فوجی کشیدگی کو فوری طور پر کم تو نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے بڑھاوے میں ضرور کمی آئے گی اور خطے میں جو صورت حال اس وقت قائم ہے کہ چین اور بھارت دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں اس سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور مل جائے گا۔ یہ ریلیف اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان ان حالات سے براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔

کیوں کہ یہ تمام تر واقعہ بس پاکستان کے قریب ہی رونما ہو رہا ہے اور اس پر سے توجہ ہٹانے کی غرض سے بھارت لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کی جانب سے سول آبادی کو زیادہ شدت سے نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ اب تو نشانہ بنا بھی رہا ہے مگر دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بھارت لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھی اپنے کل پرزے ایسے نکل رہا ہے جیسے کہ وہ نکالنا چاہتا ہے۔ بھارت بار بار لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور چینیوں کے صبر و تحمل کا امتحان لے رہا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کو یہ درکار ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے تا کہ بھارت کو سفارتی محاذ پر ناکوں چنے چبوائے جا سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھی اپنی فوجی موجودگی اور الرٹ رہنے کی استعداد میں اضافہ کریں کیوں کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے معاملات سے توجہ ہٹانے کی غرض سے بھارت دوبارہ کسی نوعیت کی فضائی شرارت بھی کر سکتا ہے جیسا کہ اس نے ابھی نندن کے وقت کی تھی کیوں کہ بھارت کی اتنی جرات نہیں کہ چین کے ساتھ ان حالات میں ایسا کرے۔ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ حکمت عملی اس ضمن میں ترتیب دینی چاہیے نا کہ یہ سوچنا چاہیے کہ چین کی لڑائی ہوگی بس پھر مزہ آئے گا۔

لیکن مقام افسوس ہے کہ ادھر صرف یہ پالیسی بنائی جا رہی ہے کہ نواز شریف کی تصویر پر کیا کہنا ہے، شہباز شریف کو دوبارہ سلاخوں کے پیچھے کیسے دھکیلنا ہے۔ میر شکیل کی قید کو مزید طویل کیسے کرنا ہے۔ لیکن شاہ محمود قریشی تو کوئی اچانک کابینہ میں نہیں آ گئے ہے کہ ان کو اس کا احساس نہ ہو۔ میں گزشتہ دو سال کی خارجہ پالیسی سے تو عدم اتفاق رکھتا ہی ہوں خارجہ پالیسی تو بے سمت ہے۔ جب میں گزشتہ دو برس کی خارجہ پالیسی سے عدم اتفاق کی بات کر رہا ہوں تو لامحالہ یہ سوال اپنی جگہ بنائیں گا کہ کہی معاملہ سرے سے تنقید محض تنقید تو نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک طویل عرصے سے خراب سے خراب تر چلے آرہے تھے اور ہے ان خراب تعلقات میں اس وقت زبردست اشتعال آ گیا جب بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور اگلے دن ہی ہماری افواج کے فضائی حصے نے ابھی نندن کو اپنے زیر حراست چائے پینے پر مجبور کر دیا انڈیا کی اچھی بھلی سبکی ہو گئی۔ حالات اس نہج پر کھڑے تھے اور بھارت کی نظریں ایشیا پیسفک گروپ کی طرف سے خالی ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست پر لگی ہوئی تھی جو ایشیا پیسیفک گروپ کے لیے مختص ہے اور 2020 میں اس کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس گروپ میں 55 ممالک شامل ہے پاکستان اور بھارت کے کشیدہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ پاکستان بھارت کی ایشیا پیسفک گروپ کی طرف سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے مخالفت کرتا مگر ہوا کیا پاکستان نے پورے ”جوش و خروش“ سے انڈیا کی اس غیر مستقل نشست کے لیے اس وقت ایشیا پیسفک گروپ میں حمایت کر ڈالی۔ ایک طبقے نے اس وقت اس کی یہ دلیل دی کہ کیونکہ دیگر تمام ممالک بھارت کے حامی تھے تو تنہا ہماری مخالفت سے کیا فرق پڑتا ہے اول تو یہ بات ہی درست نہیں کیونکہ ہمارا اپنا موقف ہونا چاہیے بھلا دم چھلا بننے کا کیا فائدہ اس کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ 55 ممالک کے گروپ میں سے کسی ایک نے بھی پاکستان کے موقف پر کان نہیں دہرا تھا اب کان ادھر سے پکڑ لیا جائے یا ادھر سے بات ایک ہی ہے۔

اب اس غیر مستقل نشست کے لیے انتخاب کا وقت سر پر آ گیا ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق پاکستان نے چین سے بات کی ہے کہ بھارت کی اس کے لیے مخالفت کریں مگر چین نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ چین ان تمام حالات کے باوجود چین بھارت کے حوالے سے تحمل پر کاربند ہے حالاں کہ بھارت نے حالات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ویسے بھی پاکستان پہلے خود اس حوالے سے بھارت کے خلاف پوزیشن نہیں لے سکا تو اب کیا فائدہ بہرحال دوسرا معاملہ بھی اقوام متحدہ سے ہی جڑا ہوا ہے۔

پاکستان کے کسی عالی دماغ نے یہ تجویز دی تھی کہ اقوام متحدہ میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی ) کہ ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا جائے اس گروپ کو اسلاموفوبیا کے خلاف استعمال کیا جائے اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے جس ملک کے اقدامات کا ذکر کیا وہ انڈیا تھا۔ اسلامی ممالک کے نمائندوں کے اجلاس میں یہ بات پیش ہونی ہی تھی تو مالدیپ نے انڈیا کی حمایت میں بولنا شروع کر دیا جبکہ اس اجلاس کی صدارت متحدہ عرب امارات کر رہا تھا اس نے بھی فوری طور پر اس تجویز کی مخالفت کر دی اور ہمارے نمائندے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دنیا میں مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے نہ کوئی لابنگ کی نا اس گروپ کے قیام کے امکان یا عدم امکان پر کوئی کام کیا بس اس اجلاس میں تجویز رکھ دی۔ تیاری اور سوجھ بوجھ کا فقدان اس میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اگر یہ سب ہوتا تو یا تو یہ تجویز ہی سرے سے پیش ہی نہ کی جاتی اور یا پھر یہ تجویز منظور ہو جاتی۔ اسی طرح افغانستان کے معاملات میں بھی کچھ نہ سمجھ میں آنے والی حکمت عملی ہے اگر کوئی حکمت عملی ہے ورنہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

افغانستان میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد چیزیں بہت رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے ہمارا معاملہ صرف افغانستان کے اندرونی استحکام سے ہی نہیں جڑا ہوا بلکہ افغان مہاجرین سے لے کر ڈیورنڈ لائن تک سب کچھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایسے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وزارت خارجہ کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پر بالکل بھی اطمینان نہیں یا پھر اس معاملے میں ان کو طلاق دی گئی ہے کیونکہ ابھی زلمے خلیل زاد پاکستان آئے لیکن کسی سے نہیں ملے بلکہ صرف ایک ”بڑے“ سے ملاقات کی اور واپس روانہ ہو گئے اتنے اہم معاملے میں اتنی بے رخی بہت سارے سوال پیدا نہیں کرتی بلکہ جواب بھی دیتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments