ریپ کی گئی بچی سے ملزم کی موجودگی میں تفتیش ’انہونی بات‘ نہیں؟


’مجھے پتا ہے تمھارا اس کے ساتھ افیئر تھا اور تم اپنی مرضی سے اس کے پاس آتی جاتی رہی ہو۔‘
لاہور کے تھانہ شاہدرہ کے ایک بند کمرے میں ایک خاتون سب انسپکٹر 15 سالہ انعم (فرضی نام) سے یہ کہتے ہوئے ان کا بیان قلمبند کرنا شروع کرتی ہیں۔

انعم اور ان کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ اسے ڈیڑھ سال تک ریپ کیا جاتا رہا۔ اس واقعے سے ایک دن قبل آنے والی میڈیکل رپورٹ میں انعم سے ریپ کی تصدیق ہو چکی تھی اور اس دن وہ اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے والدہ کے ہمراہ تھانہ شاہدرہ میں موجود تھیں۔

مگر اس کمرے میں صرف خاتون پولیس اہلکار اور مدعیان ہی نہیں بلکہ ایک مرد پولیس اہلکار کے علاوہ بچی کے ساتھ ریپ کا ملزم امانت علی (فرضی نام) بھی موجود تھا۔

مدعی اور ملزم کے خاندان کے لوگوں کے علاوہ پولیس ذرائع نے بھی 29 اپریل 2020 کو ہونے والی اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

انعم کے مطابق خاتون پولیس افسرنے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’تمھارے منھ پہ ملزم اسی لیے تھپڑ مارتا تھا کیونکہ تم خود اس کے پاس جاتی تھیں‘۔

ان کا کہنا ہے کہ خاتون افسر نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ آیا وہ ملزم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ انعم کے مطابق انھوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کسی بھی طرح کی بات کرنے سے منع کر دیا اور رونے لگیں۔

انعم کے مطابق اس کے بعد خاتون افسر نے ملزم سے سوال کیا جس کے جواب میں اس نے کہا ’میڈم یہ خود میرے پاس آتی تھی اور اس کے سب گھر والے بھی ایسے ہی ہیں۔‘

دس منٹ تک جاری رہنے والی اس غیر روایتی ملاقات میں جہاں ملزم اور ریپ کا شکار متاثرہ بچی کو آمنے سامنے بٹھا کر سوالات کیے گئے تھے وہیں اس سے قبل مقدمے کی مدعی اور بچی کی والدہ کوثر بی بی (فرضی نام) اور بچی کے ایک کزن کے علاوہ ملزم کے بھائی اور رشتہ داروں کمرے سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

کمرے سے بیٹی کی سسکیوں کی آواز سن کر انعم کی والدہ دروازہ کھول کر اندر آئیں اور ان کے مطابق انھوں نے پولیس اہلکار سے دریافت کیا کہ ’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میری بچی کو، وہ کیوں رو رہی ہے؟‘

کوثر بی بی کا دعویٰ ہے کہ انھیں پولیس افسر نے بتایا کہ ’آپ بچی کو لے جائیں، ہم نے تفتیش کر لی ہے۔ یہ ایک کمزور کیس ہے کیونکہ ایک سال پرانا واقعہ بتایا جا رہا ہے۔ جب آپ کی ملزم پارٹی سے کوئی ڈیل نہیں ہو سکی تب آپ نے تھانے میں پرچہ درج کروا دیا‘۔

ان کے مطابق ’پولیس افسر نے مزید کہا ’مجھے پتا ہے آپ خود بھی کیسی عورت ہیں‘ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میڈم یہ آپ کیسے الزامات لگا رہی ہیں۔ ہم غریب ضرور ہیں لیکن بےغیرت ہرگز نہیں۔ میں تو بڑی مشکل سے محنت مزدوری کر کے اپنی تینوں بیٹیوں کو پال رہی ہوں‘۔

’بچی کو کھڑا کریں تاکہ اس کی جسامت تو دیکھ سکیں‘

کوثر بی بی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملزم کے خلاف درخواست دی تو اس کے اگلے دن ’جب ابتدائی تفتیش جوزف کالونی پولیس چوکی کے انچارج کے پاس آئی تو اس نے کہا کہ بچی کو لے کر چوکی آ جائیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو چوکی انچارج نے کہا کہ بچی کو کھڑا کریں تاکہ وہ اس کی جسامت تو دیکھ سکے کہ اس کے ساتھ واقعی کچھ ہوا بھی ہے یا نہیں۔‘

انعم کی والدہ کے مطابق ’اسی روز رات 10بجے کے قریب وہی افسر فون کر کے پھر کہتا ہے کہ بچی کو دوبارہ چوکی لائیں۔ میں ڈر گئی کہ اکیلی عورت اور رات کے اس وقت بچی کو کیسے لے کر جاؤں اور بھلا اس وقت کون سی تفتیش کرنی ہے پولیس نے۔`

کچھ سوچ بچار کے بعد کوثر تھانے کی جانب روانہ تو ہوئیں مگر ڈرکے مارے انعم کو گھر پر ہی چھوڑ گئیں مگر ان کے بقول ’اندھیرا اس قدر زیادہ تھا کہ آدھے راستے سے ہی واپس لوٹ آئی‘۔

’اس واقعے کے اگلے روز پھر چوکی انچارج نے فون کر کے کہا کہ چوکی آئیں لیکن ہم نہیں گئے بلکہ ہم نے میڈیا کا سہارا لیا اور ٹی وی پر خبر چلنے کے فوری بعد ہمیں ایف آئی آر درج ہونے کا پیغام بھی موصول ہو گیا۔‘

کوثر کے مطابق پرچہ درج ہونے کے ساتھ ہی تفتیش تبدیل ہو کر تھانہ شاہدرہ کی خواتین پولیس افسران کے سپرد ہوئی تھی۔

جب اس مقدمے کے اندارج میں تاخیر کے بارے میں تھانہ بادامی باغ کے ایس ایچ او ارشد بھٹی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر ایسی درخواست کی اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد ایف آئی آر درج کرتے ہیں کیونکہ ریپ جیسے سنگین الزامات میں بغیر مناسب تحقیق کیے پرچہ درج نہیں کیا جاتا‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزم پارٹی کا مؤقف جاننے میں ایک آدھ دن لگ گیا اور جیسے ہی ان کا بیان لے لیا گیا، ہم نے پرچہ درج کرلیااور تفتیش شاہدرہ منتقل ہو گئی‘۔

’ملزم اور متاثرہ فریق کو آمنے سامنے بٹھا کر تفتیش انہونی بات نہیں‘

بچی سے ملزم کے سامنے تفتیش کے بارے میں بات کرتے ہوئے لاہور پولیس کے سربراہ سی سی پی او ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ملزم اور متاثرہ بچی کو آمنے سامنے بٹھا کر تفتیش کی گئی اور ’یہ ایک نارمل پریکٹس ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات کے دوران فریقین کو آمنے سامنے بٹھانا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان الزامات کی صداقت پرکھی جا سکے۔

ذوالفقار حمید کے مطابق ’بعد میں عدالت میں بھی تو دونوں پارٹیوں نے آمنے سامنے ہی موقف دینا ہوتا ہے لہٰذا اس میں کوئی حرج والی بات نہیں‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب تک قانون تبدیل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہمیں ایسے ہی چلنا پڑے گا۔ ریپ سے متاثرہ خواتین کی سہولت کے لیے ہم نے مختلف تھانوں میں الگ سے جینڈر انویسٹیگیشن سیل بنا دیے ہیں جہاں خواتین پولیس افسران تفتیش کرتی ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نابالغ لڑکی سے ریپ ہوا ہو اور دونوں خاندان آپس میں صلح کر لیں تو ریاست مدعی بن تو سکتی ہے لیکن جب متاثرہ پارٹی عدالت میں جا کر بیان نہیں دے گی تو پولیس ملزمان کو سزا کیسے دلوا سکتی ہے؟

’عدل شکنی کی بدترین مثال‘

فوجداری مقدمات کے ماہر اور معروف قانون دان احسن بھون نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس عام طور پر ریپ کے مقدمات کی تفتیش بھی روایتی طریقے سے ہی کرتی ہے لیکن جب متاثرہ لڑکی نابالغ ہو تو پھر پولیس کو ان روایتی طریقوں سے ہٹ کر جو حالات ہوں ان کو مدنظر رکھ کر چلنا چاہیے کیونکہ ایک نابالغ لڑکی کے لیے ایسے حالات میں بیان دینا جب اس کا ملزم اس کے سامنے بیٹھا ہو ایک مشکل کام ہے۔

انھوں نے کہا ایسے حالات میں ریکارڈ کیے گئے بیان کو عدالت بھی دیکھتی ہے کہ آیا ایسا بیان کسی دباؤ کے تحت تو نہیں لیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نابالغ بچیوں کے ریپ کے مقدمات میں پولیس کو ایسے جدید خطوط پر تفتیش کرنی چاہیے جن سے متاثرہ لڑکی کا اس کے ملزم سے آمنا سامنا کم سے کم ہو۔

انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداﷲ کا کہنا ہے کہ انعم کا کیس ’عدل شکنی کی ایک بدترین مثال ہے۔ یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ ملزم کو ریپ کا شکار بچی کے سامنے بٹھا کر تفتیش کی جائے گی۔ یہ تو نظام انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے‘۔

طاہرہ عبداﷲ کے مطابق ’یہ پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی بھی ناکامی ہے کہ وہ متاثرہ بچی کو فوری اپنی حفاظت میں نہ لے سکا جس کی وجہ سے بااثر ملزمان نے بچی کے غریب والدین پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈلوانا شروع کر دیا اور ایک نابالغ بچی کی اسی کے ریپسٹ کے ساتھ شادی کروانے تک کا جھانسہ دیتے رہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ریپ کے قانون اور بنیادی انسانی حقوق کے قوانین کے بارے میں لاعلمی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ماتحت عدلیہ میں پائے جانے والی خرابیاں، امیر اور بااثر ملزمان کا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا، معاشرے میں لڑکیوں کی کمتر حیثیت، معاشرے میں بدنامی اور ماتھے پر کلنک لگنے کے خوف کی وجہ سے ایسے سنگین کیس انجام تک نہیں پہنچ پاتے اور ملزمان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘۔

مقدمہ کہاں تک پہنچا ہے؟

پولیس نے اب تک کی اپنی تفتیش میں متاثرہ لڑکی کے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیانات اور میڈیکو لیگل رپورٹ کی روشنی میں ملزم امانت کو انعم سے ریپ کا مرتکب قرار دیا ہے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزم اور متاثرہ لڑکی موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔

متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کے روبرو ضابطۂ فوجداری کے سیکشن 164 کے تحت جو بیان ریکارڈ کروایا ہے اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم امانت کے پاس اس کی نازیبا تصاویر تھیں اور وہ اسے بلیک میل کر کے ڈیڑھ برس سے ریپ کرتا رہا ہے۔

لڑکی نے اپنے بیان میں ملزم کے وکیل کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ ملزم امانت مقدمہ درج ہونے کے فوری بعد سے ضمانت قبل از گرفتاری پر ہے۔

15 جون کو مقدمے کی آخری سماعت کے دوران عدالت نے ریماکس دیے تھے کہ وہ ملزم کی ضمانت کے بارے میں اس دن فیصلہ کر دے گی لیکن ملزم کے وکلا نے استدعا کی کہ انھیں جواب جمع کروانے کے لیے مزید کچھ روز کا وقت دیا جائے جس کے بعد اس کیس کی سماعت 20 جون تک ملتوی کر دی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp