اجمل کمال صاحب کے کالم کے جواب میں


پچھلے دنوں محترم اجمل کمال صاحب کا “ممتاز مفتی” کی الکھ نگری کتاب پر لکھا ہوا ایک تبصرہ نظر سے گزرا۔ الکھ نگری پر ان کے نظریات اپنی جگہ اور نہ مجھے ان پر بات کرنی ہے، مجھے تو بس یہ کہنا ہے کہ انہوں نے قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، ابنِ انشا کے ساتھ ساتھ احمد بشیر اور ان کے متعلقین کو بھی اس کھاتے میں ڈال دیا،جو شہاب صاحب کے اعلیٰ سرکاری عہدے کی وجہ سے مراعات کے حقدار ٹھہرتے تھے۔ بھلا اجمل کمال صاحب نے یہ کیوں کیا؟ یہ میرے لئے اچنبھے کی بات ہے کہ احمد بشیر کے متعلقین سے ان کی مراد کیا ہے؟ ان کی بیٹیاں یا ان کے دوست؟

کاش اجمل کمال صاحب مذکورہ بالا کتاب میں رنگی کے نام سے احمد بشیر کی اپنی کہانی کے حوالے سے بھی کچھ کہہ ڈالتے۔ رنگی نے جس بہادری، شجاعت اور دھڑلے سے فسادات میں کود کود کر لوگوں کی جانیں بچائیں، انسانی اقدار کی حفاظت کی، اس طرح کے شخص کو مطلبی سمجھنا کافی مشکل ہے۔ ایسا شخص اپنا الو سیدھا کرنے، فائدے اٹھانے، مستقبل کی عملی منصوبہ بندی یا فکر کرنے میں کیسے دلچسپی لے سکتا ہے؟ جس نے کبھی کسی خود غرضی کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ جہاں تک شہاب صاحب کی احمد بشیر اور متعلقین پر عنایات کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ شہاب صاحب نے بھٹو کے دور میں نیف ڈیک نام کا یا غالباً سٹیٹ فلم اتھارٹی جیسے ادارے کی سربراہی کرتے وقت احمد بشیر کو بطور فلم میکر نوکری پر ضرور رکھا تھا۔ اپنے اس دور میں احمد بشیر نے کئی ڈاکو منٹری فلمیں بنائیں جن میں سے دو کے نام مجھے اب تک یاد ہیں “چڑی کہانی” اور ” قائدِ اعظم”۔ پھر بھٹو کی حکومت ختم ہوتے ہی یہ محکمہ بھی تحلیل کر دیا گیا اور ان فلموں کے پرنٹ ٹین کے گول ڈبوں میں ہی پڑے پڑے سڑ گئے ۔ اب یہ سب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

شہاب صاحب احمد بشیر کی طبیعت کو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے انتقال سے چند روز قبل وہ اچانک گرمیوں کی ایک دوپہر کو گھر پر تشریف لائے۔ اتفاق سے میں بھی اس وقت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے ابا سے کہا:

” میرے دل پر بہت بوجھ ہے۔ میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایوب خان کے غلط فیصلوں میں بھی اس کا ساتھ دیا اور اسے اس کی پسند کے فیصلے کرنے دیئے۔ اس قوم کی ابتری کی صورتحال کا کچھ کچھ میں خود کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔”

ابا نے کہا “آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟”

جواب ملا: “کیونکہ آپ ایک سچے آدمی ہیں اور میں آپ کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔”

اس ملاقات کا احوال ابا نے اپنی خاکوں کی کتاب “جو ملے تھے راستے میں ” قدرت اللہ شہاب صاحب پر لکھے جانے والے خاکے میں بھی رقم کیا ہے۔

احمد بشیر کو شہاب صاحب نے اس لئے ملازمت دی تھی کیونکہ وہ ایک تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ فلم میکر تھے۔ کوئی نالائق، سفارشی، جھوٹے تعلقات والے یا کند ذہن شخص نہیں تھے جسے فلم میکنگ کی الف بے بھی نہ آتی ہو۔ وہ کراچی کے ایک محکمے “ویلیج ایڈ” میں ملازمت کررہے تھے جس کے سربراہ حفیظ جالندھری تھے۔ ابنِ انشا اور ممتاز مفتی بھی وہیں ملازمت کرتے تھے اس لیے ظاہر ہے خوب دھما چوکڑی مچتی رہی ہو گی۔

یہ 1950 کی بات ہے جب ویلیج ایڈ والوں نے ابا کو فلم کی تعلیم دلوانے کے لیے امریکہ بھجوایا تاکہ وہ فلمسازی کی باقاعدہ تربیت حاصل کر سکیں۔ اس وقت تک ابا کی قدرت اللہ شہاب سے شناسائی نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ کہنا کہ احمد بشیر کو فلم میکنگ کی تربیتی فیلو شپ شہاب کی وجہ سے ملی تھی، سراسر غلط ہے۔ احمد بشیر نے ہالی وڈ میں فلم میکنگ پڑھی۔ والٹ ڈزنی سے بالمشافہ ملاقات بھی کی، جس نے ان کو اپنی ایک کتاب آرٹ آف اینی میشن اپنے دستخط کے ساتھ دی۔ وہ کتاب آج بھی میری بہن بشریٰ انصاری کی بیٹی کی تحویل میں ہے۔

احمد بشیر کی تعلیمی قابلیت کا اندازہ اس رپورٹ کارڈ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو ان کی یونیورسٹی نے ان کے کورسز کے اختتام پر انہیں دیا تھا۔ ان کے گریڈز اور اعلیٰ کارکردگی دیکھ کر ان کے متعلقین (اگر اجمل کمال صاحب کی متعلقین سے مراد احمد بشیر کی بیٹیاں ہیں) کا دل فخر سے بھر جاتا ہے۔ وہ کارڈ میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ ابا فلم میکنگ کے اہل تھے سو انہوں نے ایک تجرباتی انداز کی فلم نیلا پربت بنا ڈالی جس کے لئے رقم کا انتظام ان کے والد اور بہن نے کیا تھا۔ وہ فلم اپنے وقت سے بہت آگے کی چیز تھی اس لئے ناکام ہو گئی۔ اس کی کہانی ممتاز مفتی نے لکھی تھی، گیت ابنِ انشا اور حفیظ جالندھری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ موسیقی شدھ کلاسیکی تھی لہذا کمرشل طور پر اس کا فیل ہونا اچنبھے کی بات نہ تھی۔ احمد بشیر ایک آئیڈیلسٹ تھے لہذا اس نکتے کو سمجھ نہ سکے کہ ان کے اپنے معیار اور سینما بینوں کے ذوق میں بہت فرق تھا۔ فلم کی ناکامی پر ان کا مذاق اڑانا کسی طور جائز نہیں ہے اور وہ بھی ایک جانے مانے ادیب وتخلیق کار کی طرف سے تو بالکل بھی نہیں جو تخلیقی تجربات اور تخلیقی اذیت کی معراج کو سمجھتے ہیں۔ کم از کم احمد بشیر نے حوصلہ تو کیا، قدم تو اٹھایا جس کے بعد ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا، وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور مہینوں گھر سے نہ نکلے، یہاں تک کہ بات چیت بھی بند کر دی۔

پھر وقت بدلا اور انہوں نے نئے سرے سے صحافت میں قدم جمائے۔ تب بھی ان کے ایک دوست نے ہی انہیں ہاتھ پکڑ کر صحافت میں دھکیلا، جن کا نام حمید جہلمی تھا۔ تب کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی تھیں۔ آج تو ہر صحافی دوسرے صحافی کی جڑیں کاٹنے کو تیار ملتا ہے۔ تب سے مرتے دم تک ابا نے اپنے گھر والوں کو قلم سے ہی رزقِ حلال کما کر کھلایا۔

بارے کچھ بات احمد بشیر کے دوستوں ممتاز مفتی اور ابنِ انشا کی بھی ہو جائے۔ ان تینوں میں نظریاتی اختلافات کے باوجود ہمیشہ پر لطف رفاقت اور پر اعتماد دوستی قائم رہی۔ ممتاز مفتی کی بانو قدسیہ اور اشفاق احمد سے دوستی پر ابا ان سے کچھ غیر متعلق رہتے تھے کیونکہ وہ ان دونوں میاں بیوی کو اسٹیبلشمنٹ کے سپورٹر اور کسی حد تک مادہ پرستی و رجعت پسندی کے دلدادہ سمجھتے تھ۔ ابا ایک عقلی، سائنسی اور منطقی ذہن رکھنے شخص تھے جبکہ ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ روحانی حالات و واقعات، پیروں فقیروں، ماورائی قوتوں کی اثر انگیزیوں کے اسیر رہا کرتے تھے۔ وہ دنیا اور خاص طور پر پاکستان کے ہر کام کا ذمہ دار اور نگہبان پیر بابوں کو سمجھتے تھے۔ابا یہ سب کچھ نہیں مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی خاکوں کی کتاب ” جو ملے تھے راستے میں ” کے انتساب میں انہوں نے کچھ یوں لکھا:

ممتاز مفتی کے نام

تم نے مجھے عقل سکھائی اور میں نے تمہیں جنون

مگر ہم دونوں ہی ناکام رہے۔

احمد بشیر ان تینوں کے عقائد اور مسلک کو مکمل طور پر رد کرتے تھے مگر ابا کے ممتاز مفتی اور ابنِ انشا سے تعلقات پر کبھی اس بات کا اثر نہیں پڑا۔ اکثر ممتاز مفتی کا خط آتا تو پوچھتے، بشیر تنخواہ ملی؟ مکان کا کرایہ دیا؟

باتیں بہت سی یاد آ رہی ہیں۔ قافلہ گزر گیا اور ہم غبار دیکھ رہے ہیں۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس دور کے ادیب دوستوں جیسے پرخلوص، کمیٹڈ، بے غرض، بے لوث دوست کم از کم مجھے تو آج کی ادبی دنیا میں دکھائی نہیں دیتے۔

ابنِ انشا بھی ہماری فیملی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ بہت سال پہلے انہوں نے بچوں کے لئے نظموں کی ایک کتاب لکھی تھی “بلو کا بستہ” اس میں ایک نظم مجھ پر اور میری بہن پر لکھی تو اس میں یہ سطر شامل تھی:

“ابا ان کے نام بشیر، جیسے بھگت کبیر”

ابنِ انشا کے نفسیاتی مسائل کے دنوں اور خود کشی کی خواہش کی راتوں میں ابا ہی انہیں اس ذہنی پاتال سے باہر نکال لانے میں کامیاب ہوتے تھے اور وہ ڈوبتے ایک تنکے کا سہارا لے کر نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے۔ لندن جاتے ہوئے ایک بار ابنِ انشا ابا سے جوتے مانگ کر لے گئے جو پھر کبھی واپس نہ ہو سکے ۔

میری شادی کا وقت آیا تو ابا حسبِ معمول بیروزگار اور تنگ دست تھے۔ ابنِ انشا نے بہانے سے احمد بشیر سے کسی کتاب کا ایک فلیپ لکھوایا اور پانچ ہزار روپے کا معاوضہ بھجوا دیا۔ اور وہ پیسے پھر شادی میں خرچ ہوئے۔ اس زمانے کے پانچ ہزار آج کے غالباً پچاس ہزار روپے کے برابر رہے ہوں گے۔ دوستی کا حق بہرحال ادا ہو گیا۔

مصنفہ (نیلم) اپنے والد احمد بشیر کی آغوش میں

اجمل کمال صاحب ۔۔۔! میرے ابا احمد بشیر کوئی فرشتہ نہیں تھے لیکن ان کی ایمانداری، اصول پرستی، راست گوئی، دیوانگی کے بہت سے گواہ آج بھی موجود ہیں۔ قائدِ اعظم کے اصولوں کی یاد دلاتی ایک کہانی امی سنایا کرتی تھیں۔ اسلام آباد کی سرکاری نوکری کے زمانے میں ابا کو بھی سرکاری گاڑی اور ڈرائیور ملا ہوا تھا۔ دفتری اوقات کے اختتام کے بعد ابا اپنے ڈرائیور سے کہتے کہ گاڑی لاک کر کے چابی اپنے ساتھ گھر لے جاؤ تاکہ کہیں اہلِ خانہ جس میں ایک ٹین ایج بیٹا بھی تھا، استعمال کرنے پر ضد نہ کر بیٹھیں۔ آج پاکستان میں کون سا سرکاری افسر ایسا ہو گا جو اپنے بیوی بچوں کو سرکاری گاڑی اور فری پٹرول پر موجیں کروانا اپنا استحقاق نہ سمجھتا ہو؟

احمد بشیر سر پھرے بھی بہت تھے۔ کسی اتھارٹی کو مان کر نہ دیتے۔ کئی بار بھری محفل، پریس کانفرنس میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی سوالات کر کے ان کو لاجواب کر چکے تھے۔ایک بار ایک اہم کانفرنس کے دوران بے نظیر بھٹو سے سوال کر بیٹھے:

“بی بی آپ کو پتہ ہے کہ ادرک 80 روپے کلو ہو گیا ہے؟”

یہ سن کر معززین پریس بغلیں جھانکنے لگے۔ایک اور پریس کانفرنس میں ابا نے بے نظیر بھٹو کو تسبیح پھرولتے دیکھ کر طنزیہ طور پر کہا تھا:

“بی بی اب آپ داڑھی بھی رکھ لیں۔”

 ایک اور واقعہ ذہن میں آ رہا ہے۔ وہ مسلم اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھتے اور خود دینے جاتے تھے۔ وہ اسمبلی ہال والے بس سٹاپ پر اترتے اور پیچھے سے جاتی ہوئی سڑک پر خراماں خراماں چلتے ہوئے مسلم کے دفتر جا پہنچتے۔ ایک روز کیا دیکھتے ہیں کہ اس سڑک پر ناکے لگا دیئے گئے ہیں۔ وہ گڑبڑا گئے اور اپنے مخصوص راستے سے ہی گزرنے کی ضد کی۔ یہی کہتے کہ یہ میرا راستہ، میرا شارٹ کٹ ہے۔ میں کیوں یہاں سے نہ گزروں؟

کئی بار کی جھک جھک سے بھی وہ نہ باز آتے بلکہ وہیں پر ہی براجمان ہو گئے کہ یہ تو میرا حق ہے۔ سپاہی ہر ہفتے ان کو روکتے تو یہی کچھ ہوتا۔ آخر تنگ آ کر وہاں کے انچارج میجر کو بلایا گیا، جس سے ابا نے بحث کر کے اسے قائل کیا کہ وہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ نتیجتاً فوجی بھائی کو ہی ہتھیار پھینکنا پڑے اور اس نے کہا:

“یہ کوئی پاگل آدمی ہے۔ یہ باز نہیں آئے گا۔ اسے مت روکیں۔”

احمد بشیر ایک نڈر، جرآت مند اور بیباک آدمی تھے۔ انہوں نے عزت اور خود داری سے زندگی گزاری۔ کسی کی بھی چاپلوسی نہ کی ۔نہ سرکاری مال لوٹا، نہ کچھ بنایا یہاں تک کہ ان کے پاس ان کا ذاتی گھر تک نہ تھا۔ ۔ وقتِ رخصت ان کے کفن پر شرمندگی کا کوئی داغ نہ تھا اور وہ اپنی خودداری پر آخری وقت تک ڈٹے رہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ابا بسترِ مرگ پر تھے تو اکادمی ادبیات کی طرف سے افتخار عارف صاحب نے پچیس ہزار روپے کا چیک بھجوایا تھا مگر ابا نے لینے سے صاف انکار کر دیا اور انہوں نے یہ کہہ کر چیک میرے ہاتھ تھما کر انہیں واپس بھجوایا دیا کہ مجھے ضرورت نہیں ہے۔

ان کے متعلقین یعنی اولاد نے بھی اپنے والد کے فقر اور قناعت پسندی پر ان سے بھرپور تعاون کیا اور سادگی و صبر سے باپ کے گھر اپنی زندگی گزاری۔ ان کی دولت ان کی استقامت تھی۔ ان کے دوست بلاشبہ بہت پرخلوص اور محبت کرنے والے تھے جڑیں کاٹنے والے نہیں۔ آج کے ادیبوں، صحافیوں میں ایسی صفات اور ایسا ربط دیکھنے کو نہیں ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments