باریش بزرگ، قبرستان اور خواجہ سرا


کچھ دنوں پہلے کسی قبرستان میں ایک داڑھی والے بزرگ کی خواجہ سرا کے ساتھ جنسی فعل کرتے وقت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی ویڈیو وایئرل ہوئی۔ شاید کوئی نوجوان ایسا کرتا پکڑا جاتا تو اتنی لعن طعن نہ ہوتی جتنی ان بزرگ کی وجہ سے ویڈیو جلدی وائرل ہوئی۔ پکڑنے والوں نے بھی سب سے پہلے خواجہ سرا کو زیادہ قصور وار اور بے بس سمجھتے اس کی ٹھکائی کی اور بزرگ کی عمر و داڑھی کا لحاظ کرتے ایک دو چپت رسید کرتے روانہ کر دیا۔ خیر یہ تو جنسی فعل کا ایک پہلو ہو گیا جس پر ہر طرف سے لعن طعن جاری ہے۔ اب ذرا اس کے دوسرے پہلو کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کا ایسے جنسی کاموں میں ملوث ہونے کی وجوہات پر بارہا لکھا جا چکا ہے، لکھا جا رہا اور لکھا جاتا رہے گا۔ ان کی زندگی کے بے بس حالات اور مجبوریاں وغیرہ نا جانے کب ختم ہوں گی۔ مجھے فی الوقت ان کے حوالے سے اتنا نہیں لکھنا جتنا ویڈیو میں موجود بزرگ جیسی عمروں کے حامل افراد کے حوالے سے اپنی راے دینی ہے۔

مجھے ان صاحب کی مجبوری کا تو پتہ نہیں کہ کس وجہ سے اس طرف آئے۔ جنسی ضرورت ایک جسمانی تسکین کی فطری خواہش ہے جس کی مثبت تکمیل کے لئے میاں بیوی کا رشتہ جنم لیتا ہے۔ دونوں ہم لباس ہو کر پوری زندگی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ایک دوسرے کے لئے جنسی تسکین کا باعث بھی بنتے ہیں۔ مگر میرے اپنے مشاہدے میں کئی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی بڑی عمر ( 45 / 50 سال کے بعد ) میں بیوہ یا رنڈوا ہو جائے تو اس کی دوبارہ شادی کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی ارادہ کرے تو اپنے خاندان میں ہی لوگ مخالفت میں کھڑے ہو جاتے کہ اچھا لگتا ہے اس عمر میں دوبارہ شادی، لوگ کیا کہیں گے، اولاد اور خاندان والوں کو باتیں سننا پڑیں گی، وغیرہ۔ مرد تو خیر پھر بھی بہت ہمت کر کے شادی کر لیتا مگر کسی عورت کے لئے ایسا کرنا ہماری سوسائٹی میں کسی حد تک نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔

یقین مانیں میرے اپنے مشاہدے میں کئی ایسے ادھیڑ عمر کے لوگ ہیں جو اپنے ساتھی کی جدائی، جنسی و جذباتی وابستگی کے نہ ہونے کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں مگر پھر بھی ان کے اپنے، ان کے لئے کسی نیے ہمسفر چننے سے انکاری ہیں۔ اب وہ خود کسی سے ایسی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ججھک محسوس کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ادھورے رہ جانے والوں کی دوبارہ شادی کا انتظام ہر حال میں ان کی فیملی کی طرف سے ہونا چاہیے۔ اولاد تو بڑی ہو کر اپنے بیوی بچوں میں مصروف ہو جائے اور ایسے اکیلے رہ جانے والے باپ یا ماں کی دوبارہ شادی کروانے میں شرمندگی محسوس کرے تو اس سوچ کو اب بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ویڈیو میں موجود بزرگ کسی ایسے ہی حالات کا شکار ہوں۔ بہت سارے لوگ ایسی حالت میں دہری شخصیت کا شکار ہو جاتے۔ سب کے سامنے پارسا، صبر والے مگر تنہائی میں جنسی و جذباتی وابستگی کو برداشت نہیں کر پاتے۔ پھر امیر لوگوں کو تو فطری جنسی ضرورت پوری کرنے کو کوئی اچھی جگہ اور اچھا پارٹنر مل بھی جاتا مگر سو پچاس میں کسی خواجہ سرا سے ہی جنسی طلب پوری کرنے والے مجبور لوگ مردوں کے درمیان بھی رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔ واہ ری قسمت!

اس معاملے میں ہمارے مذہبی رہنماؤں کو بھی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف صبر کی تلقین، حوریں ملنے کی امید، روزے رکھنے یا سہ روزہ / چالیس روزہ وغیرہ لگانے کے مشورے دینے کی بجائے دوبارہ شادی کروانے پر زور دینا چاہیے تاکہ وہ پوری توجہ و شوق کے ساتھ دوبارہ دینی و دنیاوی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments