کورونا کے ساتھ جینا ہے یا مرنا ہے؟


وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہمیں اب کورونا کے ساتھ جینا پڑے گا لہذا اپنا خیال خود رکھیں۔ ریاست ماں ہے مگر بچوں کا خیال رکھنے سے قاصر ہے۔ لیکن تذبذب کی شکار حکومت اقدامات سے اب لگ رہا ہے کہ کورونا کہ ساتھ جینا نہیں مرنا پڑے گا۔ اب کورونا گلی گلی، نگر نگر پہنچ کر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ ڈر اور خوف نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وجہ کورونا ہو یا کچھ اور زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے انتقال کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ ہر طرف سے افسوسناک خبریں۔ اور ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ معاملہ ریاست کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کس ماں سے دلاسے اور تسلیاں تلاش کریں؟

لبرٹی مارکیٹ کے تاجروں میں کورونا پھیل گیا بعض دکانیں بند کر کے بیٹھ گئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 10 سے 12 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ تلس پورہ میں 60 سالہ محمد سلیم انتقال کر گئے۔ مغلپورہ رام گڑھ کے علاقے میں 30 سالہ عمر سانس کی تکلیف اور ٹائیفائڈ کی وجہ سے انتقال کر گیا مگر کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا اور نہ حکومت نے موت کی وجہ جاننے کی کوشش کی۔ اس کے ایک سالہ بیٹے کی اسی دن سالگرہ تھی جس دن وہ اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کے غمزدہ باپ اور بیوہ سے پوچھیں کہ ’مدینہ کی ریاست‘ ان کے جوان بیٹے اور خاوند کی جان بچانے میں کیسے ناکام رہی۔

رحمان گارڈن میں 35 سالہ فرخ سانس کی تکلیف کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ تیج گڑھ میں رضیہ نامی خاتون سانس کی تکلیف سے انتقال کر گئی۔ اچھرہ کے علاقے میں 60 سالہ خاتون انتقال کر گئی ان کی تدفین تو کورونا کے تحت ضابطہ کار کے مطابق کردی گئی مگر کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا۔ سمن آباد میں 25 سالہ نوجوان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ٹائیفائڈ سے دم توڑ گیا۔ ہربنس پورہ میں ایک فیملی کے تین افراد یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے۔

اسی علاقے میں ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس کے ہمسائے میں درمیانی عمر کے شخص کی اچانک موت ہوئی مگر شام کو جب جنازے میں شرکت کے لئے واپس گھر پہنچا تو دیکھا کہ قریب ہی ایک اور گھر کے باہر لوگ بیٹھے تھے۔ جب ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک اور قریبی جاننے والی موت واقع ہو گئی۔ دونوں کیسز میں اس خاندان کے لوگوں نے کورونا ٹیسٹ کروانا مناسب نہیں سمجھا۔

معاملہ اب یوں ہے کہ ملک بھر میں عید سے پہلے کھولے گئے لاک ڈاؤن کے اثرات قیامت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ حکومت کا قصور یہ ہے کہ اچانک لاک ڈاؤن ختم کر کے سب بازار کھول کر شہریوں کا ہجوم لگا دیا۔ ماسوائے بڑے بڑے شاپنگ مالز اور پوش علاقوں کی مارکیٹوں کے کہیں ضابطہ کار پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کا پختہ یقین تھا کہ کورونا نام کی کوئی چیز موجود نہیں یہ سب دھوکہ ہے اور ان کے حوصلے حکومت کی غیر سنجیدگی نے بڑھا دیے۔ لاک ڈاؤن کھل گیا مگر بے یقینی کا عالم یہ تھا کہ تاجر اور گاہک سوال کر رہے تھے کہ یہ لاک ڈاؤن صرف عید کی شاپنگ تک ہے یا عید کے بعد بھی سب کچھ کھلا رہے گا۔ اس ڈر سے کہ کیا پتا کہ عید کے بعد شاپنگ کا موقع ملے نہ ملے لوگ جوق در جوق بازاروں میں پہنچ گئے۔

عید کے بعد لاہور کورونا کی وبا کا مرکز بن گیا۔ حکومت کے ریکارڈ سے ہٹ کر لاتعداد لوگوں کی اموات ہونا شروع ہو گئیں جن کا اندراج نہیں ہوا۔ کیونکہ لوگوں نے خوف سے اپنے پیاروں کا کورونا ٹیسٹ نہیں کروایا اور حکومت نے بھی زحمت نہ کی پچھلے 15۔ 20 دنوں میں جتنی اموات ہوئی ہیں ان کی تحقیق کرے۔ یہ تو بالکل واضح ہے کہ اگر عید کے موقع پر لاک ڈاؤن ختم نہ کیا جاتا اور عید کے بعد لاک ڈاؤن بتدریج نرم کیا جاتا تو ایسے حالات ہرگز نہ ہوتے۔

اب تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کیا کرے ’جاہل عوام‘ ہی باز نہیں آتے اور مہیاء کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کر رہے۔ یعنی ہم پاکستان میں رہنے والے عوام کی سوچ سے لاعلم ہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر کہہ رہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی؟ یہ کیسی ریاست ہے؟ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں لوگ ہدایات پر عمل نہیں کر رہے مگر وہ دنیا بھر کی ان حکومتوں کے لاک ڈاؤن کے اقدامات سے متفق نظر نہیں آتے جہاں نتائج بالکل واضح ہیں۔ دوسری طرف لاک ڈاؤن کو ’فیشن‘ قرار دے کر اس کی حمایت کرنے والوں کو اشرافیہ اور عوام دشمن قرار دے کر معاشرے کو الجھایا جا رہا ہے۔

بھارت کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ وہاں سخت لاک ڈاؤن نے غریبوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ مگر وہاں اموات کی شرح اب بھی پاکستان سے کم ہے۔ ویتنام، سری لنکا اور بنگلا دیش کی مثالیں بھی سب کے سامنے ہیں اگر کوئی نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک کے اقدامات سے متفق نہیں ہے۔

ایک انتہائی متحرک آگاہی مہم کے بجائے عوام کو کورونا کی آگ میں جھونک دیا گیا تاکہ وہ قریب سے دیکھ کر جان جائیں کہ یہ کتنی خوف ناک وبا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر طرف سے اموات کی خبریں سن کر لوگ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور اب احتیاط کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یعنی ’جاہل عوام‘ کے عزیزواقارب جان سے چلے گئے تب جا کر انتہائی کورونا زدہ علاقوں کو مکمل طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ عملی طور پر ابھی دیکھنا باقی ہے کہ یہ منتخب لاک ڈاؤن کتنا موثر اور کامیاب ہوتا ہے۔ مگر بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments